عشق کا راز نہ کیوں دل سے نمایاں ہو جائے
عشق کا راز نہ کیوں دل سے نمایاں ہو جائے
کاش یہ بھی کسی ناکام کا ارماں ہو جائے
نہیں امید کہ وہ حشر بداماں ہو جائے
ایسا دیوانہ جو خود داخل زنداں ہو جائے
درد قابو کا نہیں کاش وہ اٹھ کر شب غم
سرگزشت دل ناشاد کا عنواں ہو جائے
نہ تسلی نہ دلاسا نہ کہیں نام کو صبر
حیف اس دل پہ کہ یوں بے سر و ساماں ہو جائے
غنچے چٹکیں کہ کھلیں پھول بڑھے جوش نمو
حسن پنہاں کسی عنواں سے نمایاں ہو جائے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |