عشق کرتے ہیں تو اہل عشق یوں سودا کریں

عشق کرتے ہیں تو اہل عشق یوں سودا کریں
by احسن مارہروی

عشق کرتے ہیں تو اہل عشق یوں سودا کریں
ہوش کا سرمایہ نذر حسن بے پروا کریں

ہم نہ ہوں لیکن زمانے میں ہمارا نام ہو
ایسی ہستی چاہیئے تو مر کے ہم پیدا کریں

ہے خود آرائی کسی کی شان خودداری کے ساتھ
یعنی ان کو ہم نہ دیکھیں وہ ہمیں دیکھا کریں

درس عرفاں کے لیے ہر ذرہ ہے طور کلیم
دیکھنے والے مگر پہلے نظر پیدا کریں

شیخ کو جنت مبارک، ہم کو دوزخ ہے قبول
فکر عقبیٰ وہ کریں، ہم خدمت دنیا کریں

ایک دل ہے ایک حسرت ایک ہم ہیں ایک تم
اتنے غم کم ہیں جو کوئی اور غم پیدا کریں

احسنؔ رنجور کو دنیا سے کیا ہے واسطہ
آپ نے بیمار ڈالا آپ ہی اچھا کریں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse