عشق کی کوئی اگر سیکھ لے گر مجھ سے تمیز
عشق کی کوئی اگر سیکھ لے گر مجھ سے تمیز
دین دنیا میں ہوا اپنے پرایوں کو عزیز
یا ہو شاگرد مرا یا مجھے تلمیذ کرے
ورنہ اس کوچۂ عشاق سے کر جاوے گریز
مکتب عشق سے نا خواندہ اٹھا جو محروم
دونو عالم میں وہ کچھ چیز نہیں ہے ناچیز
مرد کیوں کر کہوں بے عشق جو ہووے کوئی
فرقہ عشاق میں اس کے تئیں کہتے ہیں کنیز
میں نے استاد ازل سے یہی سیکھا تھا سبق
آفریدیؔ نہ کبھی یار کی چھوڑوں دہلیز
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |