عشق کے آثار ہیں پھر غش مجھے آیا دیکھو
عشق کے آثار ہیں پھر غش مجھے آیا دیکھو
پھر کوئی روزن دیوار سے جھانکا دیکھو
ان کے ملنے کی تمنا میں مٹا جاتا ہوں
نئی دنیا ہے مرے شوق کی دنیا دیکھو
طور پر ہی نہیں نظارۂ جاناں موقوف
دیکھنا ہو تو وہ موجود ہے ہر جا دیکھو
اثر نالۂ عاشق نہیں دیکھا تم نے
تھام لو دل کو سنبھل بیٹھو اب اچھا دیکھو
طور مجنوں کی نگاہوں کے بتاتے ہیں ہمیں
اسی لیلیٰ میں ہے اک دوسری لیلیٰ دیکھو
پرتو مہر سے معمور ہے ذرہ ذرہ
لہریں لیتا ہے ہر اک قطرہ میں دریا دیکھو
دور ہو جائیں جو آنکھوں سے حجابات دوئی
پھر تو دل ہی میں دو عالم کا تماشا دیکھو
سب میں ڈھونڈا انہیں اور کی تو نہ کی دل میں تلاش
نظر شوق کہاں کھائی ہے دھوکا دیکھو
نہیں تھمتے نہیں تھمتے مرے آنسو بیدمؔ
راز دل ان پہ ہوا جاتا ہے افشا دیکھو
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |