عشق کے شہر کی کچھ آب و ہوا اور ہی ہے
عشق کے شہر کی کچھ آب و ہوا اور ہی ہے
اس کے صحرا کو جو دیکھا تو فضا اور ہی ہے
تجھ سے کچھ کام نہیں دور ہو آگے سے نسیم
وا کرے غنچۂ دل کو وہ صبا اور ہی ہے
نبض پر میری عبث ہاتھ تو رکھتا ہے طبیب
یہ مرض اور ہے اور اس کی دوا اور ہی ہے
گل تو گلشن میں ہزاروں نظر آئے لیکن
اس کے چہرے کو جو دیکھا تو صفا اور ہی ہے
زاہدو ورد وظائف سے نہیں حاصل کار
جس کو ہو حسن اجابت وہ دعا اور ہی ہے
اے جرس ہرزہ درا ہو نہ تو اتنا چپ رہ
پہنچے پس ماندہ بہ منزل وہ صدا اور ہی ہے
محتسب ہم سے عبث کینہ رکھے ہے حاتمؔ
جو نشہ ہم نے پیا ہے وہ نشا اور ہی ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |