عشق ہمارے خیال پڑا ہے خواب گئی آرام گیا

عشق ہمارے خیال پڑا ہے خواب گئی آرام گیا
by میر تقی میر

عشق ہمارے خیال پڑا ہے خواب گئی آرام گیا
جی کا جانا ٹھہر رہا ہے صبح گیا یا شام گیا

عشق کیا سو دین گیا ایمان گیا اسلام گیا
دل نے ایسا کام کیا کچھ جس سے میں ناکام گیا

کس کس اپنی کل کو رووے ہجراں میں بے کل اس کا
خواب گئی ہے تاب گئی ہے چین گیا آرام گیا

آیا یاں سے جانا ہی تو جی کا چھپانا کیا حاصل
آج گیا یا کل جاوے گا صبح گیا یا شام گیا

ہائے جوانی کیا کیا کہیے شور سروں میں رکھتے تھے
اب کیا ہے وہ عہد گیا وہ موسم وہ ہنگام گیا

گالی جھڑکی خشم و خشونت یہ تو سر دست اکثر ہیں
لطف گیا احسان گیا انعام گیا اکرام گیا

لکھنا کہنا ترک ہوا تھا آپس میں تو مدت سے
اب جو قرار کیا ہے دل سے خط بھی گیا پیغام گیا

نالۂ میرؔ سواد میں ہم تک دوشیں شب سے نہیں آیا
شاید شہر سے اس ظالم کے عاشق وہ بدنام گیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse