عشق ہے اک کیف پنہانی مگر رنجور ہے
عشق ہے اک کیف پنہانی مگر رنجور ہے
حسن بے پردا نہیں ہوتا مگر دستور ہے
خستگی نے کر دیا اس کو رگ جاں سے قریب
جستجو ظالم کہے جاتی تھی منزل دور ہے
لے اسی ظلمت کدہ میں اس سے محرومی کی داد
اس سے آگے اے دل مضطر حجاب نور ہے
لب پہ موج حسن جب چمکے تبسم نام ہو
رب ارنی کہہ کے چیخ اٹھوں تو برق طور ہے
نور آنکھوں میں اسی کا جلوہ خود نور محیط
دید کیا ہے کچھ تلاطم میں ہجوم نور ہے
آنکھ ہے جب محو حیرت تو نمایاں ہے وہی
فکر ہو جب کار فرما تو وہی مستور ہے
دیکھتا ہوں میں کہ ہے بحر حقیقت جوش پر
جو حباب اٹھ اٹھ کے مٹتا ہے سر منصور ہے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |