عشق ہے یار کا خدا حافظ

عشق ہے یار کا خدا حافظ
by سخی لکھنوی

عشق ہے یار کا خدا حافظ
امر دشوار کا خدا حافظ

پیچ مجھ پر پڑے جو پڑنا ہو
زلف خم دار کا خدا حافظ

سر جو ٹکراتا ہوں تو کہتے ہیں
میری دیوار کا خدا حافظ

سرفروشوں کی چشم بد نہ پڑے
ان کی تلوار کا خدا حافظ

دفن ہم ہو چکے تو کہتے ہیں
اس گنہ گار کا خدا حافظ

دشت چھوٹا تو آبلوں نے کہا
یاں کے ہر خار کا خدا حافظ

بات کرنے میں ہونٹ لڑتے ہیں
ایسے تکرار کا خدا حافظ

بلبلیں قید باغباں غافل
گل زردار کا خدا حافظ

گر سخیؔ کو ہے عشق کا آزار
ایسے بیمار کا خدا حافظ

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse