عشوؤں کی ہے نہ اس نگہ فتنہ زا کی ہے
عشوؤں کی ہے نہ اس نگہ فتنہ زا کی ہے
ساری خطا مرے دل شورش ادا کی ہے
مستانہ کر رہا ہوں رہ عاشقی کو طے
کچھ ابتدا کی ہے نہ خبر انتہا کی ہے
کھلتے ہی پھول باغ میں پژمردہ ہو چلے
جنبش رگ بہار میں موج فنا کی ہے
ہم خستگان راہ کو راحت کہاں نصیب
آواز کان میں ابھی بانگ درا کی ہے
ڈوبا ہوا سکوت میں ہے جوش آرزو
اب تو یہی زبان مرے مدعا کی ہے
لطف نہان یار کا مشکل ہے امتیاز
رنگت چڑھی ہوئی ستم برملا کی ہے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |