عشوہ ہے ناز ہے غمزہ ہے ادا ہے کیا ہے
عشوہ ہے ناز ہے غمزہ ہے ادا ہے کیا ہے
قہر ہے سحر ہے جادو ہے بلا ہے کیا ہے
یار سے میری جو کرتے ہیں سفارش اغیار
مکر ہے عذر ہے قابو ہے دغا ہے کیا ہے
تجھ کو کس نام سے اے فخر مرے یاد کروں
باپ ہے پیر ہے مرشد ہے خدا ہے کیا ہے
تم جو بے وجہ سناتے ہو مری جان مجھے
خوب ہے نیک ہے بہتر ہے بھلا ہے کیا ہے
روبرو اس کے کبھو بات نہ سدھری ہم سے
حلم ہے چین ہے دہشت ہے حیا ہے کیا ہے
نظم کو سن کے مری ہنس کے یہ بولا وہ شوخ
مدح ہے شکر ہے شکوہ ہے گلہ ہے کیا ہے
یہ جو اس شوخ پہ کرتا ہے بیاںؔ جان نثار
خبط ہے عشق ہے سودا ہے وفا ہے کیا ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |