عقدے الفت کے سب اے رشک قمر کھول دئیے
عقدے الفت کے سب اے رشک قمر کھول دئیے
سینہ یوں چاک کیا داغ جگر کھول دیئے
سب حسینوں نے مرے قتل پہ کمریں باندھیں
ڈورے تلواروں کے اور بند سپر کھول دیئے
آ گیا ہوش تری چال کے مشتاقوں کو
حشر کی سن کے صدا دیدۂ تر دیئے
پائی تاروں نے ضیا بڑھ گئی تاریکئ شب
اس نے منہ ڈھانپ کے کانوں کے گہر کھول دیئے
عام باراں کی طرح سے ہے کرم ساقی کا
آئی برسات کہ میخانے کے در کھول دیئے
جا عجب کی نہیں گر اہل محبت روئے
میرے ماتم میں حسینوں نے بھی سر کھول دیئے
آنکھیں کھولے ہوئے سب دیکھ رہے ہیں تجھ کو
دل کے جانے کو یہ عشاق نے در کھول دیئے
امتحان حسرت پرواز کا منظور ہوا
ذبح کر کے مجھے صیاد نے پر کھول دیئے
شرم آئے گی مجھے لوگ سمجھ جائیں گے
تم نے گیسو مرے لاشے پر اگر کھول دیئے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |