عقل گئی ہے سب کی کھوئی کیا یہ خلق دوانی ہے
عقل گئی ہے سب کی کھوئی کیا یہ خلق دوانی ہے
آپ حلال میں ہوتا ہوں ان لوگوں کو قربانی ہے
نطق زباں گر ہوتا مجھ کو پوچھتا میں تقصیر مری
ہاں یہ مگر دو آنکھیں ہیں سو ان سے اشک فشانی ہے
گھاس چری ہے جنگل کی میں جون میں دنبے بکرے کی
ان کا کچھ ڈھالا کہ بگاڑا جس پر خنجر رانی ہے
تین جگہ سے میرے گلے کو مثل شتر یہ کاٹتے ہیں
دین محمدی ہے جو خلیلی اس کی یہ طغیانی ہے
جنس نے جنس کو قتل کیا کب دیکھیو بد ذاتی تو ذرا
یعنی جو ہو مرد مسلماں اس کی یہ ہی نشانی ہے
کافر دل جلاد نہیں ہم زخم کو ایک سمجھتے ہیں
ہم کو جو اس کام کا سمجھے اس کی یہ نادانی ہے
راہ رضا پر اپنا گلا کٹوائے جو نیچے خنجر کے
مصحفیؔ اس کو ہم یہ کہیں گے وہ بھی حسین ثانی ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |