علاج درد دل تم سے مسیحا ہو نہیں سکتا
علاج درد دل تم سے مسیحا ہو نہیں سکتا
تم اچھا کر نہیں سکتے میں اچھا ہو نہیں سکتا
عدو کو چھوڑ دو پھر جان بھی مانگو تو حاضر ہے
تم ایسا کر نہیں سکتے تو ایسا ہو نہیں سکتا
ابھی مرتے ہیں ہم جینے کا طعنہ پھر نہ دینا تم
یہ طعنہ ان کو دینا جن سے ایسا ہو نہیں سکتا
تمہیں چاہوں تمہارے چاہنے والوں کو بھی چاہوں
مرا دل پھیر دو مجھ سے یہ جھگڑا ہو نہیں سکتا
دم آخر مری بالیں پہ مجمع ہے حسینوں کا
فرشتہ موت کا پھر آئے پردا ہو نہیں سکتا
نہ برتو ان سے اپنائیت کے تم برتاؤ اے مضطرؔ
پرایا مال ان باتوں سے اپنا ہو نہیں سکتا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |