علم الاقتصاد/حصہ اول
علم الاقتصاد کی ماہیت اور اس کا طریق تحقیق
علم الاقتصاد علم انسانی کے اس خاص حصّے کا نام جس کا موضوع دولت ہے اور جس کا مقصد یہ معلوم کرنا ہے کہ دولت کی پیدائش، تقیسم، تبادلے اور استعمال کے اصول و اسباب و طریق کیا گیا ہیں۔ لہٰذا اس علم کے طالب کا یہ فرض ہے کہ اپنی تحقیق و تدقیق کو دیگر علوم کی تحقیق سے مخلوط نہ کرے۔ کیونکہ کسی علم کی ترقی اس امر پر منحصر ہے کہ اسے دیگر علوم کے سلسلہ سے منفرد سمجھ کر مطالعہ کیا جائے۔ بعض حکماء کی یہ رائے ہے کہ علم الاقتصاد وسیع علم تمدن کا ایک جزو ہے اور چونکہ تمدنی زندگی کی عام صورتیں ایک دوسرے سے وابستہ ہیں اس واسطے ان میں سے کسی ایک کا منفرد مطالعہ کرنا کچھ نتیجہ خیز نہ ہوگا۔ مگر یہ رائے قرین صواب نہیں معلوم ہوتی۔ کیونکہ انسانی افعال کا دائرہ اس قدر وسیع ہے کہ عملی نظر کا مل طور سے اس کا احاطہ نہیں کرسکتی۔ اس کے علاوہ جیسا کہ ہم نے اوپر بیان کیا ہے کسی علم کے علم بننے کے لیے اس کی تخصیص ضروری ہے۔
کیا علم الاقتصاد کا مطالعہ دولت کی محبت پیدا کرتا ہے؟ بعض لوگ اس بات پر مصر ہیں کہ اس علم کا مطالعہ اخلاقی لحاظ سے مفید نہیں ہے کیونکہ اس سے دولت کی محبت پیدا ہوتی ہے۔ جو انسان کو تمام اخلاقی نیکیوں کے ناقابل کردیتی ہے اور اسے ایک سنگ دل دنیا دار بنا دیتی ہے۔ اس لغو اعتراض کے جواب میں اول تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگرچہ انسان کی غرض صرف دولت ہی نہیں ہے تاہم یہ بڑی ضروری اغراض میں سے تو ہے۔ اور اس وجہ سے لازم ہے ہ اس کا مطالعہ کیا جاوے۔ اور اس کی پیدائش و تقسیم وغیرہ کے اسباب و طریق معلوم کئے جائیں۔ اس کے علاوہ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ سرے سے یہ اعتراض ہی صحیح نہیں ہے۔ علم الاقتصاد کے مطالعہ سے دولت کی محبت نہیں پیدا ہوتی۔ کیونکہ اس کا مقصد تو صرف یہ معلوم کرنا ہے کہ حصول دولت کی خواہش جیسا کہ انسانی فطرت میں موجود ہے، انسانی افعال پر کس طرح اثر کرتی ہے۔ ممکن ہے کہ بعض میلان طبائع ایسے توی ہوں کہ حصول دولت کی خواہش کو دبائے رکھیں۔ مگر علم اقتصاد کو ان سے تعلق نہیں ہے۔ اس کا کام یہ نہیں ہے کہ انسانوں کے چال چلن پر رائے زنی کرے یا یہ فیصلہ کرے کہ کون کون سے محرکات افعال اخلاقی لحاظ سے اچھے ہیں اور کون کون سے بُرے۔ یہ علم انسانی افعال کے وسیع دائرہ کے صرف اس حصہ پر غور کرتا ہے جس کا تعلق حصول دولت سے ہے۔ مزید برآں اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ علم اقتصاد حرص کی تعلیم نہیں دیتا۔ بلکہ حصول دولت کے صحیح اور مسلم اصولوں پر روشنی ڈالنے سے انسان کو یہ سکھاتا ہے کہ اس قوی خواہش کو ان اصولو ںکے تحت میں رکھے اور جنگ و جدل لوٹ مار وغیرہ سے جو اس زبردست خواہش کا ضروری نتیجہ ہوا کرتے ہیں، ۴؎ احتراز کرکے امن و صلح کا ری کے ساتھ زندگی بسر کرے۔
ہم نے لفظ “دولت” کئی جگہ استعمال کیا ہے۔ مگر ابھی تک یہ بیان نہیں کیا کہ اس کی ماہیت اور تعریف کیا ہے۔ دولت میں یہ ممکن الحصول اشیاء شامل ہیں جو بالواسطہ یا بلاواسطہ انسانی ضروریات کو پورا کریں اور جن کی جائز اور مناسب طور پر خواہش کی جاسکے۔ مگر ظاہر ہے کہ ہر ممکن الحصول شے جس کی جائز اور مناسب طور پر خواہش کی جائے دولت نہیں ہے۔ پس اجزائے دولت کو معلوم کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ پہلے اشیا مطلوب کو معلوم کیا جائے۔ مطلوب اشیاء یا وہ تمام اشیاء جن کی ہر انسان جائز اور مناسب طور پر خواہش کرسکتا ہے ، دوقسم کی ہوتی ہیں۔
۱۔ وہ ممکن الحصول اشیاء ماّدی جن میں تمام مفید اشیاء اور ان کے حقوق استعمال شامل ہیں۔ مثلا زمین، پانی، آب و ہوا، زرعی پیداوار، معدنی پیداوار، مصنوعات، تعمیرات، کلیں، اوزار، رہن نامجات، پٹے وغیرہ۔
۲۔ اشیا ممکن الحصول غیر مادّی یا ذاتی۔ اس ضمن میں دو قسم کی اشیاء شامل ہیں۔
اوّل تو وہ فوائد جو انسان اوروں سے حاصل کرنے کا حق رکھتا ہے۔ مثلا حق خدمت ملازمین۔ دوئم اس کے ذاتی اوصاف یا قابلیتیں جن کی وجہ سے وہ اپنے کاموں کو سرانجام دیتا ہے۔ مقدم الذکر کو اشیاء غیر ما دّی اندرونی، روشنی ہوا یا وہ حق جو اس کو بحیثیت ایک خاص ملک کا باشندہ ہونے کے حاصل ہیں۔
اشیاء مطلوب کی تقسیم اور طرح سے بھی ہوسکتی ہے یعنی اشیاء آزاد اور اشیاء قابل تبادلہ۔ اشیاء آزاد سے مراد ان اشیاء کی ہے جو نظام قدرت خود بخود مہیا کرتا ہے اور انسان کو ان کے حاصل کرنے کے واسطے کوشش نہیں کرنی پڑتی۔
اشیاء قابل تبادلہ میں وہ تمام اشیاء قابل انتقال شامل ہیں جن کی مقدار محدود ہو مگر یہ امتیاز عملی لحاظ سے کچھ بڑی وقعت نہیں رکھتا۔
اب اصطلاح “دولت” کا مفہوم بالصراحت واضح ہوجائے گا۔ جب ہم کسی شخص کی نسبت لفظ دولت کا اطلاق کرتے ہیں تو اس کے معنوں میں دو قسم کی اشیاء مطلوب شامل سمجھی جاتی ہیں۔
اوّل وہ ممکن الحصول اشیاء مادّی و خارجی جن پر اس کو قانونا یارواجا حق ملکیت حاصل ہے اور جو اس وجہ سے قابل انتقال اور قابل تبادلہ ہیں۔
دوم وہ ممکن الحصول اشیاء غیر مادّی و خارجی جو اس کی ملکیت میں ہوں ار جن کی وساطت سے اشیاء مادّی حاصل کی جاسکیں۔ مثلا کسی شخص کے تجارتی تعلقات وغیرہ ظاہر ہے کہ “دولت” کے مندرجہ بالامفہوم میں انسان کے فطری قویٰ شامل نہیں ہوسکتے۔ کیونکہ یہ اس کی ذات سے خارج نہیں ہیں بلکہ اس کی ذات میں داخل ہیں۔ یا یوں کہو کہ یہ اشیاء غیر مادّی اندرونی ہیں۔ جو محاورہ متعارف کی روسے دولت میں شامل نہیں۔ پس دولت سے مراد ان خارجی اشیاء کی ہے جن کی جائز اور مناسب طور پر خواہش کی جاسکے ار جو انسان کی ذاتی ملک ہوں۔ اور جن کی قدر تبادلے میں زرنقد کے پیمانے سے متعین ہوسکتی ہو۔ یہ پیمانہ ایک طرف تو اس سعی و کوشش کو ظاہر کرتاہے۔ جس کی وساطت سے یہ اشیاء پیدا ہوئی ہوں۔ اور دوسری طرف ان انسانی ضروریات کو جن کو یہ پورا کرتی ہیں۔ مختصر طور پر یوں کہہ دو کہ “دولت” میں انسانی ضروریات کو پورا کرنے کے وہ تمام جائز و مناسب اور ممکن الحصول وسائل داخل ہیں جو بالفعل یا بالقوۃ قابل انتقال ہوں۔ اس تعریف سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف وہی شس دولت کہلاسکتی ہے۔
۱۔ جو کوئی خاص شے ہو، خواہ مادّی خارجی ہو، خواہ غیر مادّی خارجی۔
۲۔ جس کی خواہش انسانی ضروریات کو پورا کرنے کے خیال سے جائز اور مناسب طور پر کی جاسکتی ہو۔ افریقہ کا ایک وحشی اپنے دشمن کے سر کی خواہش کرسکتاہے ، مگر یہ خواہش اخلاقی لحاظ سے جائز اور مناسب نہیں ہے۔
۳۔ جو ممکن الحصول ہو۔
۴۔ جس پر انسان کو حق ملکیت حاصل ہو۔
۵۔جس میں قابلیت انتقال ہو۔ یا یوں کہو کہ جس کی قدر تبادلے میں زرنقد کے پیمانے سے متعین ہوسکتی ہو۔
دولت کی مندرجہ بالا تعریف میں ہم نے لفظ “قدر”کو استعمال کیا ہے، جو علم اقتصاد کی ایک ضروری اصطلاح ہے۔ دولت کی تعریف کما حصہ سمجھنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس اصطلاح کا مفہوم ذہن نشین ہو۔ فرض کرو کہ میرے پاس ایک گھڑی ہے۔ میں اسے بیچ کر اپنی ضروریات پورا کرنے یا اوروں سے خدمت لینے کی قدرت رکھتا ہوں۔ یہ قدرت مجھے کہاں سے حاصل ہوئی؟ پس “قدر” اس قدرت یا قوت کا نام ہے جو کسی شے کی وساطت سے اس شے کے قابض کو حاصل ہوتی ہے اور جس کو تبادلے میں دے کر وہ شخص بلا لحاظ جبرواکراہ یا تاثرات ذاتی اوروں کی پیداوار محنت کو حاصل کرسکتا ہے۔ مختصر طور پر یو ںکہہ دو کہ قدر قوت تبادلہ کا نام ہے۔
اس تعریف کے الفاظ پر غور کرو۔ ہم نے کہا ہے بلا جبر و اکراہ یا تاثرات ذاتی-کوئی مطلق العنان بادشاہ اپنی رعایا کو جہاں چاہے لڑنے مرنے کے لیے بھیج سکتا ہے۔ مگر یہ خدمات علم اقتصاد کے دائرہ میں نہ آئیں گی۔ کیونکہ ان کی بنا جبرو اکراہ پر ہے۔ برخلاف ان کے انگریزی سپاہی کی خدمات دائرہ علم اقتصاد میں داخل ہیں کیونکہ وہ اپنی مرضی سے ایک خاص تنخواہ کے عوض فوجی خدمت قبول کرتا ہے۔ اسی طرح اس ماں کی خدمات بھی دائرہ علم اقتصاد سے خارج ہیں جو اپنے بیمار بچے کی حفاظت میں بعض دفعہ جان بھی دے دیتی ہے۔ کیونکہ اس کی بنا ذاتی تاثرات یا محبت پر ہے۔
اس تعریف کو مختصر طور پر بیان کرتے ہوئے ہم نے کہا ہے کہ “قدر” قوت تبادلہ کا نام ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ قدر کے تعین کے لیے تبادلہ ضروری ہے۔ مگر تبادلے کے لیے یہ ضروری ہے کہ کوئی اور فرد بھی ہو جس کے ساتھ تبادلۂ اشیاء کیا جائے۔ اب اس تعریف کے لحاظ سے دیکھو کہ آیا عقل، ہنر اور فطری قویٰ کو جنہیں انسان کے ذاتی اوصاف کے نام سے موسوم کیا جاسکتا ہے۔ یہ تو ظاہر ہے کہ یہ اشیاء ناقابل انتقال ہیں۔ یا بالفاظ دیگر ان کا تبادلہ نہیں ہوسکتا کیونکہ انسان کی ذات سے منفک نہیں ہوسکتے۔ بعض حکماء کاقول ہے کہ چونکہ قدر کے لیے اشیا میں قابلیت انتقال کا ہونا ضروری ہے۔ اس واسطے ذاتی اوصاف قدر سے معر ّا ہیں اور دولت میں شامل نہیں ہیں۔ لیکن ظاہر ہے کہ اگرچہ انسان کے ذاتی اوصاف یا فطری قویٰ میں قابلیت انتقال نہیں ہے تاہم ان کے استعمال میں یہ قابلیت موجود ہے۔ ہم اپنے فطری قویٰ کو کسی اور شخص کی خاطر استعمال کرکے اس سے حق الخدمت حاصل کرسکتے ہیں۔ بڑھئی کا ہنر نہ صرف اوروں کی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے بلکہ بالواسطہ اس کی اپنی ضرورتوں کے پورا کرنے کے لیے بھی ایسا ہی لازمی ہے جیسا کہ اس کے اوزار وغیرہ۔ یہی وجہ ہے کہ بعض محققین نے محاورہ متعارف کی رو سے اگرچہ لفظ “دولت” کا اطلاق اشیاء خارجی پر کیا ہے۔ تاہم انسان کے فطری قویٰ کو اس کی ذاتی دولت کے نام سے موسوم کیا ہے۔ اس رائے کے لحاظ سے کسی ملک کے لوگوں کا ہنر، دیانت داری وغیرہ بھی اس ملک کی دولت میں شامل ہیں۔ مگر بعض اہل الرائے نے بغیر کسی امتیاز کے ذاتی دولت کو بھی متعارف میں داخل سمجھا ہے۔ ان کے نزدیک دولت میں تین قسم کی اشیاء داخل ہیں۔
۱۔ وہ ممکن الحصول اشیاء مادی خارجی جن کی جائز اور مناسب طور پر خواہش کی جاسکے اور جن پر انسان کو قانونا یا رواجا حق ملکیت حاصل ہو۔
۲۔ وہ ممکن الحصول اشیاء غیر مادی خارجی جن کی جائز اور مناسب طور پر خواہش کی جاسکے اور جو اس کی ملکیت میں ہوں۔ اور جن کی وساطت سے اشیاء مادی حاصل کی جاسکیں۔ مثلا حقوق خدمت ملازمین اور تجارتی تعلقات وغیرہ۔
۳۔ وہ ممکن الحصول اشیاء غیر مادّی اندرونی جن کی جائز اور مناسب طور پر خواہش کی جاسکے۔ مثلا انسان کے فطری قویٰ۔ ہمارے نزدیک پہلی رائے زیادہ قرین صواب معلوم ہوتی ہے۔ اگرچہ دونوں میں صرف ایک لفظی فرق ہے، معنوی فرق کوئی نہیں۔ قدر کے بیان سے یہ بات بھی سمجھ میں آگئی ہوگی کہ دولت اور بہبودی مرادف الفاظ نہیں ہیں۔ اکثر اشیاء ہماری بہبودی کے لیے ضروری ہیں۔ تاہم دولت کے مفہوم میں شامل نہیں ہیں۔ مثلا اگر آزاد دستکاروں کو غلام تصور کیا جائے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ دولت کی مقدار میں اضافہ ہوگا مگر انسان کی بہبودی کے لیے یہ امر مضرت رساں ہوگا۔ اسی طرح دولت کی مقدار کا مسئلہ ہے۔ بعض دفعہ کچھ عرصہ کے لیے ایسے اسباب فراہم ہوجاتے ہیں جو ملکی ترقی کے لیے ممد ہوں۔ مثلا گلوں کی ایجاد چھوٹے چھوٹے اوزار استعمال کے دائرہ سے خارج ہوجاتے ہیں۔ اگرچہ ملکی ترقی کا انحصار بہت کچھ اس قسم کی ایجادات پر ہے۔ پس معلوم ہوا کہ تہذیب و تمدّن کی ترقی کے ساتھ ساتھ دولت کی مقدار دن بدن کم ہونے کی طرف میلان رکھتی ہے۔ اگر آبادی بڑھتی نہ جاتی اور انسانی ضروریات اور حاجات کا دائرہ دن بدن کم ہونے کی طرف میلان رکھتی ہے۔ اگر آبادی بڑھتی نہ جاتی اور انسانی ضروریات اور حاجات کا دائرہ دن بدن وسیع نہ ہوجاتا تو علم الاقتصاد کے موضوعات کا احاطہ بھی تنگ ہوتا جاتا۔ یہاں تک کہ اس علم کی ضرورت ہی نہ رہتی۔ اس ضمن میں یہ واضح کر دینا بھی لازم معلوم ہوتا ہے کہ دولت اور جائیداد بھی ہم معنی الفاظ نہیں ہیں۔ کیونکہ اس امتیاز کا علم محصول آمدنی کی بحث میں کام آئے گا۔ فرض کرو کہ ایک قطعہ زمین ایک شخص کے لیے تو دولت ہوگی، جو اس کا لگان وصول کرتا ہے اور جو اپنے قرض کی عدم ادائیگی کی صورت میں اسے بیچ کر اپنی رقم وصول کرسکتا ہے مگر ملک کے لیے یہ زمین دولت نہ ہوگی۔ کیونکہ اگر فک الرہن ہوجائے تو ملک کی دولت میں کوئی تغیر نہ ہوگا۔ اس امتیاز کو زیادہ وضاحت سے یوں بیان کرسکتے ہیں کہ زمین مذکورہ تو دولت ہے کیونکہ ایک خاص متعین قدر رکھتی ہے مگر رہن دولت نہیں۔ بلکہ جائیداد یا دولت کی ایک خاص مقدارکو حاصل کرسکنے یا استعمال میں لاسکنے کا حق ہے۔ جو مرتہن کو حاصل ہے۔ یعنی مالک زمین کی جائیداد کی مقدار اس زمین کی قدر منفی حق مرتہن کے برابر ہے۔ اس مثال میں دولت تو ایک ہی ہے مگر جائیدادیں دوہیں۔ ایک تو اصل مالک کی جائیداد، دوسری مرتہن کی۔ زمین کی ملکیت خواہ ایک ہو خواہ کئی جائیدادوں پر منقسم ہو، ملک کی دولت میں کوئی تغیر واقع نہ ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ علم الاقتصاد کو لفظ جائیداد سے سروکار نہیں ہے۔ کیونکہ اس لفظ کا مفہوم اقتصادی نہیں، بلکہ قانونی ہے۔
علم الاقتصاد کی ماہیت کو واضح کرنے کے لیے اصطلاحات “دولت” و “قدر” کے معنی کا بالصراحت بیان کرنا ضروری تھا۔ اس واسطے مندرجہ بالاسطور ہم کو لکھنی پڑیں۔ اب ہم پھر اصل مضمون کی طرف عود کرتے ہیں اور یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ علم الاقتصاد کے ابتدائی اصول کیا کیا ہیں۔ اس ضمن میں کئی سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ مثلاوہ اصول اولیہ اور واقعات کیا ہیں جن کی بنا پر علم الاقتصاد کا ماہر اپنے استدلال کو قائم کرتا ہے؟ کیا اس استدالال میں ان تمام واقعات کا ملحوظ رکھنا ضروری ہے، جو دولت پر اثر کرتے ہیںیا صرف چند ضروری واقعات پر قناعت کرنی چاہئے؟ کیا نتائج کلیہ پر پہنچنے کے لیے انسان کی حقیقی فطرت کا مطالعہ لازم ہے؟ یا اس غرض کے لیے ہمیں ایک خیالی انسانی فطرت کا تصور کرنا چاہئے جس کا ہر فعل اوروں کے لیے نمونہ ہو؟ کیا مختلف ممالک کے حالات زمین و آب و ہوا اور زرعی قابلیت اور لوگوں کے عادات اور ان کے اوضاع و اطوار کا معلوم کرنا ضروری ہے یا صرف انہی حالات و اوصاف کا علم ضروری ہے جو بالاشتراک ہر قوم میں پائے جاتے ہیں؟ ان سوالوں کے جواب پر علم اقتصاد کی ماہیت اور اس کا طریق تحقیق منحصر ہے۔ مگر اس بارے میں حکما کے درمیان بڑا اختلاف رائے ہے۔ بعض کے نزدیک اس علم کے ابتدائی اصول صرف چند واقعات ہیں جن کا تعلق انسانی فطرت، انسانی تمدن اور کر ّہ ارض کی طبعی بناوٹ کے ساتھ ہے۔ اور بعض کے نزدیک علم الاقتصاد کے ماہر کا یہ فرض منصبی ہے کہ انسانی فطرت کے کسی ایسے واقعہ کو نظر انداز نہ کرے جس کا تعلق دولت یا دولت کی تقسیم اور پیدائش کے ساتھ ہو۔ لہٰذا ان حکماء کی رائے میں جوں جوں انسانی فطرت کا علم وسیع ہوجاتا ہے توں توں علم الاقتصاد بھی وسعت حاصل کرتا جاتا ہے۔ ایک محقق جو ان حکماء کے طبقہ مؤخر الذکر میں داخل ہے کہتا ہے کہ ماہرین علم الاقتصاد کے فرائض مندرجہ ذیل ہیں۔
ِ۱۔ ان بڑے بڑے اصولوں کا معلوم کرنا جو حصول دولت پر اثر کرتے ہیں۔
۲۔ انسان کی دماغی بناوٹ کے بعض ضروری واقعات کا معلوم کرنا جن کا تعلق انسانی فطرت کے ساتھ ہے۔
۳۔ پیدائش دولت کے قدرتی اسباب کے بڑے بڑے طبعی خواص معلوم کرنا۔
۴۔ دیگر اسباب کا تحقیق کرنا جو انسانی افعال پر اثر کرتے ہیں جن کا مقصود حصول دولت ہو۔ مثلا ملکی اور تمدنی رسوم، جدید ضروریات کا پیدا ہونا یا قوانین متعلقہ زمین وغیرہ۔ مگر ہماری رائے میں دونوں فریق راستی پر ہیں۔ علم الاقتصاد کے لیے ضروری ہے کہ اوّل چند خاص اصول بطور بناء کے قائم کئے جائیں اور پھر یہ معلوم کیا جائے کہ انسانی زندگی کے موجودہ حالات و واقعات سے ان ابتدائی اصولوں میں عملا کیا تغیر پیدا ہوتا ہے۔ بہرحال علاوہ اور باتوں کے ماہرین علم الاقتصاد کے لیے یہ نہایت ضروری ہے کہ علم کی بنیاد انسانی فطرت کے صحیح اصولوں پر قائم کریں، ورنہ ان کو صحیح اور کلی نتائج کی توقع نہیں رکھنی چاہئے۔ فرضاً اگر اس بات کو تسلیم کر لیا جائے کہ انسان بالطبع خود غرض ہے یا اس کی فطرت قدرتاً وصف ایثار سے کلی طور پر معر ّا ہے۔ اور اس ابتدائی اصول کو اقتصادی استدلال کی بنیاد قرار دیا جائے تو ظاہر ہے کہ وہ تمام استدلالات جو اس اصول پر مبنی ہوں گے، غلط سمجھے جائیں گے۔ کیونکہ حقیقتا انسانی فطرت اس قسم کی نہیں ہے، بلکہ خود غرضی اور ایثار دونوں سے مرکّب ہے۔ اگر کسی قوم میں علم الاقتصاد کے ایسے اصول مر وّج ہو جائیں جو اس قسم کے غلط مشاہدے پر مبنی ہوں تو وہ قوم ایک دو صدیوں کے عرصہ میں ہی ایک حیرت ناک اخلاقی تنزل کرے گی جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اس قوم کے ہر فعل میں بے جا خود غرضی اور زرپرستی کی بو آئے گی، جو اس کو کسی نہ کسی دن حضیض ذلّت میں گرا کر چھوڑے گی۔ لہٰذا بعض مصنّفین نے فطرت انسانی اور دیگر حالات طبعیہ کو ملحوظ رکھ کر علم الاقتصاد کے لیے چند ابتدائی مفروضات یا علوم متعارہ قائم کئے ہیں جن پر تمام استدلالات اقتصادیہ مبنی ہیں۔ ان میں سے بڑے بڑے اصول مندرجہ ہیں:-
۱۔ بالعموم ہر انسان کم و بیش دولت کی خواہش رکھتاہے۔
۲۔ سرمایہ دار اور محنتی قدرتاً ان مشاغل کو ترک کر دیتے ہیں، جن میں نفع یا اجرت کم ہو اور ایسے مشاغل کی طرف رجوع کرتے ہیں جن میں منافع یا اجرت زیادہ ہو لیکن یادرکھنا چاہئے کہ یہ ابتدائی اصول اس صورت میں صحیح ہوسکتا ہے جب کہ ملک میں ہر طرح سے امن ہو، غلامی کا دستور نہ ہو اور وہ تمام اسباب معدوم ہوں جو سرمایہ داروں اور محنتیوں کو تجارت کی ایک شاخ سے دوسری شاخ میں منتقل ہونے سے روکتے ہوں۔ ناظرین خود اندازہ کرسکتے ہیں کہ اب سے ایک صدی پہلے ہندوستان میں یہ بات مشکل تھی کہ کوئی شخص ایک شہر سے دوسرے شہر میں جاکر کاروبار کرے۔
۳۔ زمین کمیت یا مقدار میں محدود ہے۔ لیکن کیفیت یا خواص میں بالعموم ایک ملک کی زمین دوسرے ملک کی زمین سے مختلف ہوتی ہے۔
۴۔ دنیا کی زمین بالعموم اس قدر زرخیز ہے کہ معمولی علم و ہنر کے کاشتکار کا حاصل محنت اس مقدار سے زیادہ ہوتا ہے جو صرف اس کے ذاتی گزارے کے لیے کافی ہو۔
مندرجہ بالا سطور سے واضح ہوگیا ہو گا کہ علم الاقتصاد منفرد واقعات کے مطالعہ سے قوانین کلیّہ بھی قائم کرتا ہے اور اپنے ابتدائی مسلّمہ اصولوں سے نتائج بھی پیدا کرتا ہے جن کی صحت یا عدم صحت واقعات کے ساتھ مقابلہ کرنے سے معلوم کی جاتی ہے یا بالفاظ اصطلاحی یوں کہو کہ یہ علم دیگر علوم کی طرح عمل استقرائ اور عمل استخراج دونوں کے استعمال سے مستفید ہوتا ہے۔ اس مقام پر یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ تمام کلیہ قوانین واقعات پر مبنی ہوتے ہیں اور اس لحاظ سے ان کا عمل محدود ہوتا ہے۔ مگر علم الاقتصاد کے قوانین کلیہ خصوصیت کے ساتھ محدود ہیں۔ کیونکہ مختلف ممالک و اقوام کے اقتصادی اور تمدّنی حالات و واقعات بعض صورتوں میں کم وبیش مختلف ہیں۔ مثلا اس علم کے بعض قوانین مغرب کے ممالک کی نسبت توصحیح ہیں، مگر ہندوستان کی صورت میں اختلاف حالات کی وجہ سے صحیح نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بعض حکماء علم الاقتصاد کو ریاضی اور دیگر علوم کا ہم پایہ تصو ّر نہیں کرتے۔ اوراس کو اقوام اور ممالک کے ساتھ مختص سمجھتے ہیں۔ ایک مصنّف نے حال ہی میں ایک کتاب لکھی ہے جس کو اس نے “اقتصاد ہندی” کے نام سے موسوم کیا ہے۔ مگر ہماری رائے میں یہ غلطی علم کو فن سے متمیز نہ کرنے سے پیدا ہوتی ہے۔ علم کا کام صرف واقعات کے علل و اسباب معلوم کرنا ہے۔ یہ کسی طریق عمل پر مستحسن یا مذموم ہونے کا حکم نہیں لگاتا۔ برخلاف فن کے کہ اس کا فرض منصبی خاص واقعات کو ملحوظ رکھ کر کسی مقصد کے حصول کے لیے خاص خاص قواعد اور طریق عمل پیش کرے یا کسی طریق پر حکم لگائے۔ لہٰذا ہم اس کو دیگر نظری علوم کی طرح ایک علم سمجھتے ہیں۔ اگرچہ یہ تسلیم کرنے میں عذر نہیں ہے کہ اس کے کلیہ اصولوں میں جدید واقعات کے لحاظ سے ایسا تغیر ّ آنا ممکن ہے۔ جس سے ان کی وسعت زیادہ ہوجائے۔ اور ان کے نئے نئے واقعات پر حاوی کردے۔
علم الاقتصاد کا تعلق دیگر علوم سے
علم اقتصاد اپنی تحقیق میں دیگر علوم سے بہت مدد لیتا ہے۔ مثلا علم الابدان سے اسے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بقائے زندگی کے لیے ایک معین خوارک کی ضرورت ہے یا انسان کے شہوانی قویٰ آبادی کو زیادہ کرنے کی طرف میلان رکھتے ہیں۔ ان ہر دو مسلّمات سے مسئلہ اجرت و آبادیٔ انسان کی بحث پر بہت کچھ روشنی پڑتی ہے۔ علیٰ ہذاالقیاس علم کیمیا سے اسے یہ معلوم ہوتا ہے کہ زمین کی قابلیت پیداوار کی ایک خاص حد ہے جس کو لگان کی بحث میں ملحوظ رکھنا چاہئے۔ مگر یادرہے کہ اگرچہ اس علم کے محقق کو دیگر علوم کی تحقیقات سے مدد لینی چاہئے۔ تاہم یہ بھی لازم ہے کہ وہ علم اقتصاد کی ذاتی حدود کو مد نظر رکھے اور ان بحثوں میں نہ پڑ جائے۔ جن کا تعلق دولت کی تقسیم و تبادلہ وغیرہ سے نہیں ہے۔
علم الاقتصاد اور علم اخلاق
اگرچہ علم الاقتصاد دیگر علوم میں سے بعض کے ساتھ ایک ضروری تعلق رکھتا ہے۔ مگر علم اخلاق کے ساتھ اس کا تعلق بہت گہرا ہے۔ اس علم کی طرح علم اخلاق کا موضوع بھی وہی اشیاء ہیں جو بعض انسانی مقاصد کے حصول سے وابستہ ہیں۔ فرق صرف اس قدر ہے کہ علم اخلاق کا موضوع وہ افعال ہیں جو زندگی کے افضل ترین مقصد کے حصول کی شرائط ہیں اور علم الاقتصاد کا موضوع وہ اشیاء ہیں جو انسان کے معمولی مقاصد کے حصول کے لیے ضروری ہیں۔ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ انسان کے معمولی مقاصد کی پوری قدر سمجھنے کے لیے ان پر اخلاقی مقاصد کے لحاظ سے نگاہ ڈالنی چاہئے۔ مثلاً خوراک، لباس، مکان، ہماری زندگی کے لیے ضروری ہیں اور ان کی قدر ان مقاصد کی قدر پر منحصر ہے جن کو یہ پورا کرتے ہیں۔ مگر زندگی کے ان معمولی مقاصد کی اصل وقعت صرف اس صورت میں معلوم ہوسکتی ہے جب ہم ان پر زندگی کے افضل ترین مقصد کے لحاظ سے غور کریں۔ اس لیے علم الاقتصاد کو وضاحت کے ساتھ سمجھنے کے لیے کسی قدر مطالعہ علم اخلاق کا بھی ضروری ہے۔ اکثر مصنفین نے اس صداقت کو محسوس نہیں کیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دولت بلا لحاظ زندگی کے افضل ترین مقصد کے بجائے خود ایک تصو ّر کی گئی جس سے بعض تمدّنی اصلاحوں کے ظہور پذیر ہونے میں بے جا تعویق ہوئی اور دولت کے پیار کرنے والوں کی حرص و آز پہلے سے زیادہ تیز ہوگئی۔
علم الاقتصاد کا تعلق علم تمدّن سے
علم تمدّن وہ علم ہے جو انسانی زندگی کا افضل ترین مقصد اور اس کے حصول کے طریق معلوم کرتا ہے۔ اس علم کا دائرہ اس قدر وسیع ہے کہ تمام دیگر علوم اس کی تحقیقات سے متاثر ہوتے ہیں کیونکہ بلاواسطہ یا بالواسطہ تمام علوم کا موضوع ذات انسان ہے، جو خصوصیت کے ساتھ علم تمدّن کا موضوع ہے۔ کسی شے کی حقیقی قدرو منزلت اس امر پر منحصر ہے کہ وہ کہاں تک ہماری زندگی کے اعلیٰ ترین مقصد کے حصول میں ہم کو مدد دیتی ہے یا یوں کہو کہ ہر شے کی اصلی وقعت کا فیصلہ تمدّنی لحاظ سے ہوتا ہے۔ دولت ہی کو لے لو۔ اگر یہ شے ہمارے افضل ترین مقاصد کے حصول میں ہم کو مدد نہیں دے سکتی، تو پھر اس کا کیافائدہ؟ لہٰذا علم اقتصاد جس کا موضوع دولت ہے وسیع علم تمدّن پر مبنی ہے۔ جس کا منشاء ہر شے کی اصلی وقعت کا فیصلہ کرنا ہے۔ انسان کی زندگی کا اصلی مقصد کچھ اور ہے۔ اور یہ تمام اشیاء دولت، صحت اور فرائض کی انجام دہی وغیرہ اس مقصد کے حصول کے مختلف ذرائع ہیں۔ چونکہ علم تمدّن کا منشاء ہمارے اعلیٰ ترین مقصد کی حقیقت کا معلوم کرنا ہے۔ اور ہماری روزمرہ کی ضرورت کی چیزوں کی حقیقی قدر اس علم کے لحاظ سے فیصلہ پاتی ہے۔ اس واسطے علم اقتصاد اور دیگر انسانی علوم علم تمدّن سے ایک نہایت گہرا تعلق رکھتے ہیں۔ بلکہ ایک معنی میں یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اس پر مبنی ہیں۔
علم اقتصادکے مختلف حصص
علم اقتصاد کی ماہیت اور اس کا طریق تحقیق بیان کرچکنے کے بعد اب ہم اس علم کے چار بڑے حصص بیان کرتے ہیں، جو تمام اقتصادی مسائل پر حاوی ہیں۔
۱۔ دولت کی پیدائش
۲۔ دولت کا تبادلہ
۳۔ دولت کی تقسیم
۴۔ دولت کا صرف یا استعمال
اس کتاب کے آئندہ حصص میں علی الترتیب ان کا ذکر ہوگا مگر یادرکھنا چاہئے کہ علم الاقتصاد کے حصص کی مندرجہ بالا تقسیم ہم نے منطقی وضاحت کی غرض سے کی ہے۔ ورنہ جیسا کہ تمھیں آگے چل کر معلوم ہوگا۔ یہ سب حصص آپس میں ایک گہرا تعلق رکھتے ہیں۔ مثلا اشیاء کے صرف یا استعمال سے معلوم ہوتا ہے کہ کون سی اشیاء ملک میں تیار کی جانی چاہئیں۔ اسی طرح پیدائش دولت کی کیفیت اور کمیت اس کی تقسیم سے متاثر ہوتی ہے اور اگر انقسام محنت کا اصول پورے طور پر مروج ہو جائے تو پیدائش دولت سے تبادلہ لازم آتا ہے۔ علیٰ ہذا القیاس دولت کی تقسیم تبادلے سے متاثر ہوتی ہے۔