علم الاقتصاد/حصہ دوئم

295619علم الاقتصاد — حصہ دوئم1904محمد اقبال

پیدائش دولت

باب۔۔ ۱
زمین


جب ہم یہ کہتے ہیں کہ انسان دولت پیدا کرتا ہے تو ہمارا مفہوم یہ نہیں ہوتا کہ انسان کسی شے کا خالق ہے یا اُسے عدم سے وجود میں لاتا ہے۔ دولت پیدا کرنے سے مراد محنت اور سرمائے کی مدد سے اشیاء میں صرف ایک خاص قدر کا پیدا کرنا ہے، جو اپنی اصلیت کے لحاظ سے مندرجہ ذیل اقسام میں منقسم کی گئی ہے۔
(الف)۔ قدر مختص بالمکان یعنی وہ قدر جو کسی شے کو ایک مقام سے جہاں وہ پیدا ہوتی ہے دوسرے مقامات میں جہاں اس کی ضرورت ہے، منتقل کرنے سے اُس شے میں پیدا ہو جاتی ہے۔ مثلاً کشمیر میں برف کی کوئی قدر نہیں لیکن اگر پنجاب میں منتقل کی جائے تو اس میں قدر پیدا ہو جائے گی۔
(ب)۔ قدر مختص بالزمان یعنی وہ قدر جو کسی شے کو ایک خاص میعاد تک مخصوص رکھنے اے اُس شے میں پیدا ہو جاتی ہے۔ مثلاً سردی میں برف کا ایک ٹکڑا کچھ قدر نہیں رکھتا۔ لیکن اگر موسم گرما کی آمد تک اس کو کہیں دبا کر محفوظ رکھ دیا جائے تو اس میں ایک خاص قدر کا پیدا ہو جانا ممکن ہے۔
ج۔ قدر مختص بالہیتہ۔ یعنی وہ قدر جو کسی شے میں ایک خاص ہیئت پیدا کرنے سے حاصل ہوتی ہے۔ مثلاً لوہے کی تلوار جو کسی مشین کی مدد سے تیار کی جائے۔
اس مختصر تمہید کے بعد اب ہم اصل مطلب شروع کرتے ہیں۔ دولت کی پیدائش کے تین بڑے وسائل ہیں۔ یعنی زمین، محنت اور سرمایہ۔ مگر بعض کی رائے میں تنظیم محنت بھی پیدائش دولت کی بڑی ممد ہے۔ لہٰذا بعض محققین نے اس کو بھی وسائل پیدائش میں شمار کیا ہے۔ اس باب میں ہم صرف زمین کے متعلق کچھ لکھنا چاہتے ہیں۔
زمین انسان کے لیے ایک قدرتی عطیہ ہے جس کے استعمال پر نہ صرف اس کی موجودہ زندگی اور آسائش کا انحصار ہے بلکہ اس کی وسعت نسل انسانی کی زیادہ سے زیادہ آبادی اور اس کی مدت بقا کو بھی متعین کرتی ہے۔ چونکہ زمین کی مختلف قسموں کی قابلیت پیداوار مختلف ہے۔ اس واسطے مختلف مقامات میں انسانی محنت کا معاوضہ بھی مختلف ہے۔
مگر اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہر انسانی ضرورت بلا واسطہ یا بالواسطہ اس قدرتی عطیئے کے مناسب استعمال سے پوری ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسان دولت کے اس وسیع سرچشمہ کو زیادہ زرخیز کرنے یا اپنی ضرورت کے مطابق اُس کی قابلیتوں میں تبدیلی پیدا کرنے کے لیے نئے نئے وسائل دریافت کرتا ہے۔ پیداوار زمین کی کمی بیشی ، اس کی زرخیزی اور دیگر مقامی خصوصیات مثلاً آب و ہوا، پانی کی افراط وغیرہ پر منحصر ہے لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ یہ ایک اہم اور نہایت ضروری قانون کے ساتھ وابستہ ہے جس کا اچھی طرح زہن نشین کر لینا طالب علم کے لیے ضروری ہے۔
اس قانون کو علم الاقتصاد کی اصطلاح میں قانون تقلیل حاصل کے نام سے موسوم کرتے ہیں اور اس کا مفہوم یہ ہے کہ ہر زمین کی قابلیت پیداوار کی ایک خاص حد مقرر ہے یا یوں کہو کہ پیداوار کی زیادہ سے زیادہ مقدار جو سرمائے اور محنت کے عوض میں کسی خاص زمین سے حاصل ہو سکتی ہے، ایک خاص معین اندازہ رکھتی ہے۔ جب کوئی زمین ہمارے سرمائے اور محنت کے عوض میں زیادہ سے زیادہ پیداوار دے تو ہم کہتے ہیں کہ اس کی پیداوار نقطہ تقلیل پر پہنچ گئی ہے۔ یعنی اس معین مقدار کے حاصل کر چکنے کے بعد سرمائے اور محنت کے دُگنا کر دینے سے یہ ضروری نہیں کہ زمین مذکور کی پیداوار بھی دُگنی ہو جائے۔ بلکہ دُگنی پیداوار حاصل کرنے کے لیے دُگنے سے زیادہ سرمائے اور محنت کی ضرورت ہو گی۔ اگر محنتیوں کی تعداد میں اضافہ کر دیا جائے تو ہر محنتی کا حصہ پیداوار کم ہو جائے گااور اس کی کم تر معاوضے پر قناعت کرنی پڑے گی۔ اسی طرح اگر سرمائے میں اضافہ کر دیا جائے تو پیداوار کی زیادتی اس زیادتی سے کم ہو گی جو کاشت کے نقطۂ تقلیل تک پہنچنے سے پیشتر اس اضافہ سے حاصل ہوتی۔ مثلاً فرض کرو کہ ایک قطعۂ زمین پر جس کی وسعت سو ایکڑ ہے اور جس کی سالانہ پیداوار دو ہزار من غلہ ہے، دس آدمی مشترک طور پر کام کرتے ہیں۔ اس حساب سے ایک ایکڑ کی پیداوار بیس من ہوئی اور فی کس دو سو من آئے۔ لیکن محنتیوں کی مذکورہ جماعت میں دو آدمی اور شامل ہو جائیں اور فن زراعت کی ترقی سے زمین کی زرخیزی کی کوئی نئی راہ نکل آئے تو کیا اس زمین کی پیداوار مندرجہ بالا حساب سے دوہزار چار سو من ہو گی یا اس سے کم و بیش اس سوال کا جواب دینے کے لیے پہلے اس امر کا دیکھنا ضروری ہے کہ ایا پہلے دس آدمیوں کی محنت اور سرمائے سے زمین مذکور کی کاشت نقطۂ تقلیل تک پہنچ گئی تھی۔ اگر کاشت اس نقطہ تک نہیں پہنچی تو آیندہ سال کی پیداوار دو ہزار چار سو من سے زیادہ بھی ہو سکتی ہے۔ کیونکہ انقسام محنت کی وجہ سے جس کے فوائد کا ذکر باب چہارم میں آئے گا۔ دس آدمیوں کی نسبت بارہ آدمی زیادہ غلہ پیدا کر سکتے ہیں۔ لیکن اگر کاشت نقطہ تقلیل تک پہنچ چکی ہے تو دو آدمیوں کی زیادتی سے پیداوار دو ہزار چار سو من سے کم ہو جائے گی۔ جس کا نتیجہ یہ ہو گا بارہ آدمیوں میں ہر آدمی کو دو سو من سے کم پر قناعت کرنی پڑے گی۔ اس طرح سرمائے اور محنت کی زیادتی سے پیداوار ہر سال زیادہ ہوتی جائے گی اور حصہ فی کس کم ہوتا جائے گا۔ یہاں تک کہ زمین کی کاشت کے نقطہ تقلیل تک پہنچ جانے سے پیداوار پھر کم ہونی شروع ہو جائے گی اور حصہ فی کس پہلے سے بھی کم ہوتا جائے گا۔ یہ کمی اوّل اوّل تو بتدریج ہوگی، مگر بعد میں اس کی سُرعت میں یہاں تک ترقی ہوگی کہ زمین مذکورہ کا قطعہ موجودہ محنتیوں کے گزارے کے لیے بالکل ناکافی ہوگا۔ غالباً اس قانون کے عمل نے آریہ ہندئووں سے وسط ایشیا کے میدان چھڑوائے اور حضرت لوط علیہ السلام کو حضرت ابراہیم علیہ السلام سے جدا کیا جیسا کہ تورات میں مذکور ہے۔ اگر زمین کی کاشت میں سرمائے اور محنت کے بڑھتے جانے سے بالآخر نقطہ تقلیل تک پہنچ جانے کا میلان نہ ہوتا، تو ہر مزارع تھوڑے سے قطعہ زمین کی کاشت پر قناعت کرتا اور اس پر اپنا سرمایہ اور محنت صرف کرکے بہت سی پیداوار حاصل کر لیا کرتا اور لگان کے ایک بہت بڑے حصے کی ادائیگی سے بچ رہتا جو اب وسیع قطعات کی کاشت سے اس کو ادا کرنا پڑتا ہے۔
اس قانون کی مزید وضاحت کے لیے ایک محقق سرمائے اور محنت کی زیادتی کو دوا کی خوراک سے تعبیر کرتا ہے اور زمین کو مریض قرار دیتا ہے ہے۔ اگر کسی زمین کے ایک قطعہ پر کچھ سرمایہ اور محنت صرف کی جائے اور اس کی پیداوار صرف خرچ ہی کے برابر ہو تو اس محقق کی اصطلاح میں ایسی زمین کی نسبت یہ کہا جائے گا کہ وہ کنارہ زراعت پر ہے۔ رفتہ رفتہ زیادہ سرمائے اور محنت کے صرف سے پیدا وار زیادہ ہو جائے گی۔ یہاں تک کہ کاشت نقطۂ تقلیل تک پہنچ جائے گی اور مزید سرمائے اور محنت سے پیداوار میں کوئی متناسب زیادتی نہ ہو گی۔ یہ بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ سرمائے اور محنت کا حاصل جو مندرجہ بالا قانون کی تحت میں ہے، پیداوار کی مقدار سے متعین ہوتا ہے۔ جو اس سرمائے اور محنت کے عوض میں دستیاب ہوتی ہے۔ پیداوار مذکور کی قیمت کے گھٹنے بڑھنے کو اس حاصل کی تعیین میں دخل نہیں ہے۔ ہاںجب ہم اس قانون سے نتائج استخراج کریں گے اور بالخصوص اس اثر پر بحث کریں گے جو آبادی کی زیادتی سے وسائل زندگی پر ہوتا ہے۔ اس وقت قیمت کے تغیرات پر بھی بحث کرنا لازم ہوگا۔ ان تغیرات کو نفس قانون سے واسطہ نہیں۔ کیونکہ اس کا تعلق پیداوار کی قدر سے نہیں ہے بلکہ اس کی مقدار سے ہے۔
اس قانون کا عمل عام ہے اور یہ ہر ملک کے حالات پر صادق آتا ہے۔ اس کا اثر صرف مزر و عہ زمین تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ چراگاہوں ، جنگلوں اور سمندروں کی پیداوار بھی اس قانون کے احاطہ عمل میں ہے۔ اگرچہ بعض حالات میں کلوں اور دیگر ایجادات کی وجہ سے اس کا اثر چنداں ظاہر نہیں ہوتا۔ مصنوعی اشیاء بھی اس کے اثر سے آزاد نہیںہیں۔کیونکہ اُن کاہیولیٰ یا مصالح جس سے وہ تیار ہوتی ہیں زمین یا سمندر ہی سے برآمد ہوتا ہے۔ مگر مصنوعات کی مختلف اقسام پر اس کا اثر اس محنت کی مقدار کے لحاظ سے ہوتا ہے جو ان کی تیاری میں صرف کی جائے۔ قینچی کو ہی دیکھ لو۔ لوہے کو زمین سے نکالنے کا خرچ اس محنت کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں جو اس کی تیاری میں صرف کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کان کی مشکلات بڑھ جانے کی وجہ سے لوہے کی قیمت دُگنی بھی ہو جائے تو قینچیوں کی قیمت پر زیادہ اثر نہ ہوگا۔ کیونکہ ان کی قیمت کے تعین میں اس محنت کو دخل ہے جو ان کی تیاری میں صرف ہوتی ہے۔ پس معلوم ہوا کہ جو قومیں اس قسم کی دستکاری میں مصروف ہیںجو مصالح پر اپنا عمل کرتی ہیں، اُن کو اس قانون سے متاثر ہونے کا اندیشہ نہیں ہے۔ کیونکہ اُن کی مصنوعات کی قیمت کم و بیش ان کی دستکاری اور محنت سے متعین ہوتی ہے۔ جس میں مصالح کے خرچ پیداوار کو بہت کم دخل ہے۔ مگر جو ملک زیادہ تر مصالح پیدا کرتے ہیں اور مضوعات کی تیاری عاری ہیں، اُن کی اس قانون کے نتائج پر غور کرنا چاہیے۔ بالخصوص ہندوستان کے لوگوں کو۔ کیونکہ ابھی اس ملک کو صنعتی ملک کے نام سے موسوم نہیں کر سکتے۔ اگر اس ملک کے لوگ زیادہ تر صنعت کی طرف توجہ کریں، تو ان کی مالی حالت روز افزوں ترقی کرے گی اور مفلسی کے عذاب اور دیگر مصائب سے نجات ملنے کی صورت نظر آئے گی۔ کیونکہ اور ملکوں کی طرح اس ملک کو مصالح باہر سے منگوانے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔
ہم نے اوپر بیان کیا ہے جب کہ زمین کی کاشت نقطہ تقلیل تک پہنچ جاتی ہے تو اس کی قابلیت پیداوار کم ہونی شروع ہو جاتی ہے۔ صرف یہی نہیں کہ معمولی کاشت ہی اُس کے اندرونی خواص کو زائل کرتی ہے بلکہ بعض چند ایسے قدرتی اسباب بھی پیدا ہو جاتے ہیں جو اس کی زرخیزی کو انتہا درجہ کا نقصان پہنچاتے ہیں۔ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ علم طبعی کے نتائج کی رو سے کوئی شے عدم محض نہیں ہو سکتی بلکہ صرف اُس کی ماہیت تبدیل ہو جاتی ہے تو اس کاجواب یہ ہے کہ اگرچہ عدم محض محال ہے تاہم کوئی مفید شے بدل کر ایسی ہیئت یا صورت اختیار کر سکتی ہے جو انسان کے لیے بالکل کار آمد نہ ہو۔ مثلاً جب کوئی مکان جل کر خاک ہو جاتا ہے تو بالکل معدوم نہیںہوتا بلکہ ایک مفید ہیئت سے ایک غیر مفید ہیئت اختیار کر لیتا ہے۔ اسی طرح زمین کے مفید اندرونی خواص انسان کے معمولی کاشت یا دیگر مضرت رساں قدرتی اسباب سے حقیقی طور پر فنا نہیں ہو جاتے بلکہ ایسی صورت اختیار کر لیتے ہیںجو ہماری ضروریات کے لحاظ سے غیر مفید ہوتی ہے۔
زمین کے اس خاصے کی بنا پر بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہندوستان چونکہ صنعتی ملک نہیں ہے، اس واسطے یہ دیگر ممالک کے لیے ایک طرح کا ذخیرہ بن گیا ہے، جہاں سے وہ اپنے صنعتی کارخانوں کے لیے مصالح حاصل کرتے ہیں اور پھر اُس مصالح کو اپنی دستکاری کے عمل سے نئی نئی مصنوعات کی صورت میں تبدیل کر کے دیگر ممالک اور ہندوستان میں بھیج کر بے انتہا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ہمارے ملک میں چونکہ قانون تقابل حاصل کے عمل کو روکنے کے اسباب قلیل ہیں۔ لہٰذا جو اشیاء ہندوستان میں دیگر ممالک سے آتی ہیں ان پر قانوناً بہت سا محصول لگنا چاہیے۔ جس کا فائدہ یہ ہو گا کہ دیگر ممالک کے تاجر اپنی صنعتی اشیاء اس ملک میں نہ بیچ سکیں گے۔ اگر بیچیں گے تو اُن کو کچھ فائدہ کی توقع نہ ہو گی۔ کیونکہ زیادہ محصول کی وجہ سے اُن اشیا کی قیمت گراں ہو جائے گی اور یہاں کے لوگ اُن کو خریدنے سے باز رہیں گے۔ اس طرح ہمیں اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے خود اپنا محتاج ہونا پڑے گا اور ہماری صنعت کو ترقی ہوگی۔ اس طریق عمل کو “حفاظت تجارت” یا “تامین تجارت” کے نام سے موسوم کرتے ہیں اور اس کا مقصد یہ ہے کہ تمام ممالک باہمی ایک دوسرے کے دست نگر نہ ہوں۔ بلکہ اپنی ضرورت کی چیزیں اپنے اپنے ملک کے پیدا کردہ مصالح سے خود تیار کریں۔ اس دلیل سے یہ نہ سمجھ لینا چاہیے کہ مندرجہ بالا طریق عمل کا مقصد قوموں کے باہمی تعلقات کو قطع کرنا ہے۔ یہ نتیجہ صحیح نہیں ہے۔کیونکہ تامین تجارت کے مویدوں کا مقصد ہر ملک کے لوگوں کو صنعت کی طرف مائل کرنا ہے نہ کہ اُن کے باہمی تعلقات کو زائل کرنا۔ جو شے کسی ملک میں سرے سے پیدا ہی نہیں ہوتی وہ بمجبوری دیگر ممالک سے حاصل کی جائے گی اور اس طرح تجارتی تعلقات بدستور قائم رہیں گے۔ بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ مصالح پیدا کرنے والوں کو باہمی خرید و فروخت کرنے میں پوری آزادی حاصل ہے۔ اس واسطے کسی قسم کا محصول لگانا گویا انسان کی آزادی پر حملہ کرنا ہے۔ مگر ان کو یہ معلوم نہیں کہ بسا اوقات کسی خاص فرد کا فائدہ عام افراد قوم کے فوائد سے متناقص ہوتا ہے تاہم مذکورہ بالا دلیل میں دو امور نظر انداز کئے گئے ہیں۔ جن پر غور کرنا نہایت ضروری ہے۔
۱۔ اوّل تو یہ کہ نظام قدرت خود بخود اس کمی کو پورا کرتا ہے جو زمین کی قابلیت پیداوار کے رفتہ رفتہ کم ہوتے جانے سے لاحق ہوتی ہے۔ مثلاً بڑی بڑی چٹانوں کا تحلیل ہو کر وسیع قطعاتِ زمین کی صورت میں متبدل ہوتے جانا۔
۲۔ دوئم زمین کے انسانی استعمال میں اس کے کچھ نہ کچھ حصے کا ضائع ہونا ضروری ہے۔ بلکہ بڑے بڑے تجارتی قصبوں کی تعمیر سے بھی یہ بات رُک نہیں سکتی اور کچھ نہیں تو ایسے قصبوں میں کچھ حصہ زمین ان نہروں کی تیاری ہی میں صرف کرنا پڑے گا جن کی وساطت سے کوڑا کرکٹ وغیرہ سمندر میں پھینکا جاتا ہے۔
قصہ کوتاہ یہ بحث بڑی دلچسپ ہے اور اس کے نتائج مختلف ممالک کے حالات پر منحصر ہیں۔ ہم اس پر زیادہ خامہ فرسائی نہیں کرنا چاہتے بلکہ اس کا فیصلہ ناظرین کی رائے پر چھوڑتے ہیں۔

باب۔ ۲
محنت


دولت کی پیدائش کا دوسرا وسیلہ محنت ہے جس سے مراد وہ جسمانی یا غیر جسمانی (دماغی) سعی ہے جو کسی مقصد کے حصول کے لیے کی جاتی ہے۔ قطع نظر اس خوشی یا لذت کے جو اس سعی کے دوران میں حاصل ہو۔ قدرت مصالح یا ہیولیٰ مہیا کرتی ہے۔ مگر محنت اس کی مختلف اقسام پر اپنا عمل کرنے سے یا ان کو مطلوبہ ہیئت میں تبدیل کرنے سے اس ہیولیٰ کو انسانی ضروریات کے پورا کرنے کے قابل بنا دیتی ہے۔ اس قمیص کو ہی لو جو تم پہنتے ہو۔ اس کو موجودہ مفید ضورت میں لانے کے لیے محنت کے مختلف اعمال کا کس قدر طویل سلسلہ درکار ہے۔ اعلیٰ ہذا لقیاس مصنفین اور علماء کی تصانیف جن کا منشاء قوم کی اصلاح کرنا یا علوم کی اشاعت وغیرہ ہو، خالص دماغی محنت کی مثالیں ہیں۔
تہذیب و تمدن کے اقل درجہ کی حالت میں انسان کی ضروریات قدرت کی فیاضی سے خود بخود پوری ہو جاتی ہیں۔ محنت کی احتیاج نہیں ہوتی اور جب تک یہ حالت قائم رہتی ہے، اشیاء میں وہ خاصیت بھی پیدا نہیں ہوتی جس کی قدر کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ انسان دیگر حیوانات کی طرح خود رو پھلوں پر یا شکار پر گزران کرتا ہے۔ اس حالت کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ آبادی کم ہو، قحطوں کا تواتر ہو اور زندگی کو قائم رکھنے کے لیے قبائل انسانی میں باہمی جنگ وجدل کا سلسلہ قائم رہے۔ مگر جب انسان اس وحشیانہ حالت سے ترقی کر کے حالت شبانی تک پہنچتا ہے ، تو اقتصادی معنوں میں محنت کا ظہور ہوتا ہے۔ اس حالت میں بنی آدم قدرت کی فیاضی کے بھروسے ہی نہیں رہتے، بلکہ مختلف جنگلی حیوانوں کو اپنے قبضے میں لاتے ہیں۔ پانی کے غیر مستقل ذخیرے کے لیے نہریں کھودتے ہیں۔ بلکہ آیندہ خشک سالی کی فکر سے خورد و نوش کا سامان جمع کرنا اور اپنے حیوانوں کی حفاظت کرنا بھی سیکھتے ہیں۔ غرض کہ محنت کی مندرجہ بالا صورتوں کی وساطت سے وہ تمام اشیاء دولت بن جاتی ہیں، جو انسان کی وحشیانہ حالت میں اس خاصیت سے معّرا تھیں۔ تمدن کی اس حالت میں آبادی دن بدن زیادہ ہوتی ہے اور خورد و نوش کا سامان صرف کثیر ہی نہیں ہوتا بلکہ بیرونی خطرات سے محفوظ بھی ہو جاتا ہے۔ کیونکہ انسان کی ذاتی محنت سے قحطوں کا تواتر رُک جاتا ہے اور ان کے گزارے کی سبیل یقینی ہو جاتی ہے۔ آخر کار یہ مرحلہ بھی طے ہو جاتا ہے اور انسان ترقی کر کے اس حالت تک پہنچتا ہے جس کو حالت زراعتی کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ خانہ بدوشی چھوٹ جاتی ہے۔ آبادی زیادہ ہوتی جاتی ہے۔ اور محنت کا ہاتھ زمین کے مخفی خزانوں کو غلہ اور دیگر اجناس کی صورت میں نکالنا شروع کرتا ہے۔
اوپر کی سطور سے واضح ہو گیا ہو گا کہ پیدائش دولت کے لیے محنت لازم ہے۔ مگر یاد رکھنا چاہیے کہ ہر محنت دولت آفریں نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ محنت کی دو بڑی اصناف قرار دی گئی ہیں۔ یعنی
۱۔ محنت بار آور
۲۔ محنت غیر بار آور
مقدم الذکر سے مراد وہ محنت ہے جو بالواسطہ یا بالا واسطہ مسلسل طور پر مزید دولت پیدا کرتی رہے اور آخر الذکر سے مراد اُس محنت کی ہے جو مسلسل طور پر مزید دولت پیدا نہ کر سکے۔ مثلاً مفید اور ضروری اشیاء تیار کرنے والے معماروں ، آہن گروں یا سپاہیوں اور استادوں کی محنت بار آور ہے۔ برخلاف اس کے آتش بازی بنانے والے کی محنت غیر بار آور ہے۔ کیونکہ آتش بازی کا دستکاری بجائے اس کے کہ مسلسل طور پر مزید دولت پیدا کرے قومی دولت کو کم کرتا ہے۔ مثال کے طور پر فرض کرو کہ کسی جگہ صرف دو آدمی آباد ہیں۔ ایک کے پاس دس روپے ہیں اور دوسرے کے پاس پانچ۔ یعنی اُن کا کل سرمایہ پندرہ روپے ہے۔ فرض کرو کہ جس شخص کے پاس پانچ روپے ہیں وہ اپنا سرمایہ آتش بازی کی تیاری میں صرف کرتا ہے اور شے مذکور کے تیار ہونے پر اُسے اپنے تماشہ پسند ساتھی کے پاس لے جاتا ہے جو آتش بازی کو دس روپیہ پر خرید لیتا ہے۔ ظاہر ہے کہ دونوں کا سرمایہ جو پہلے پندرہ روپے تھا، اب صرف دس روپے رہ گیا ہے۔ جو آتش باز کے قبضہ میں ہے۔ کیونکہ آتش بازی اپنے مالک کو ایک عارضی خوشی دے کر تھوڑی دیر کے بعد بالکل معدوم ہو جائے گی۔ لہٰذا تمام غیر بار آور محنت جو اسباب تن آسانی پر صرف ہوتی ہے۔ اگرچہ بادی النظر میں سرمایہ داروں کو محنت بار آور کے مانند منافع غیر معلوم ہو تی ہے (جیسا کہ مثال بالا میں ہمارے آتش باز کو اپنی تجارت سے پانچ روپیہ منافع معلوم ہوتا ہے) تاہم انجام کار قومی دولت کی مقدار کو کم کرتی ہے۔ کیونکہ یہ محنت اور سرمایہ جو اس پر صرف ہوتا ہے گویا ایسی اشیاء کی تیاری میں صرف ہوتا ہے جو کچھ عرصہ بعد قدرے معرا ہو کر بالکل معدوم ہو جاتی ہیںاور اس وجہ سے مسلسل طور پر مزید دولت کے پیدا کرنے کا ذریعہ نہیںبن سکتیں۔ اگر غور سے دیکھو گے تو تمھیں معلوم ہوگا کہ نجیلوں اور عشرت پسندوں کا وجود قومی دولت کے لیے یکساں مضرت رساں ہے نہ بخیل بھی عشرت پسندوں کی طرح دولت کو ایک طرح سے فنا ہی کرتا ہے کیونکہ جو دولت صندوق میں بند رہے اور مزید دولت کے پیدا کرنے میں صرف نہ ہو اُس کا عدم اور وجود برابر ہے۔ غرض کہ محنت کا بار آور غیر بار آور ہونا اور سرمایہ کا بار آور یا غیر بار آور طور پر استعمال ہونا مزید دولت پیدا کر سکنے یا نہ کر سکنے کی قابلیت پر منحصر ہے۔ معلم کی محنت بار آور ہے کیونکہ وہ اوروں کو اس قابل بناتا ہے کہ مزید دولت پیدا کریں۔ علیٰ ہذاالقیاس سپاہی کی محنت بھی بالواسطہ بار آور ہے کیونکہ وہ اپنے ملک کی حفاظت کرتا ہے جو مزید دولت پیدا ہونے کی ایک ضروری شرط ہے۔ اسی طرح دیگر دستکاروں یعنی معماروں ، آہنگروں وغیرہ کی محنت بھی بشرطیکہ اسباب تن آسانی پر صرف نہ ہو بار آور ہے۔ کیونکہ اُن کی محنت سے ایسی اشیاء تیار ہوتی ہیں ، جن سے سلسلہ وار مزید دولت پیدا ہوتی رہتی ہے۔ برخلاف گوٹا بنانے والے کی محنت کے کہ اُس کا نتیجہ ایک ایسی شے ہے جو خریدنے والے کو ایک عارضی خوشی یا آسائش تو دیتی ہے لیکن کچھ عرصہ کے بعد فنا ہو کر دولت کی آیندہ پیدائش کے سلسلہ کو یک قلم منقطع کر دیتی ہے۔ مندرجہ بالا امتیاز کی بناء اس امر پر ہے کہ ہر ملک میں بعض دستکار اور سرمایہ دار تو ایسے ہوتے ہیںجو اپنی محنت اور سرمائے کو ضروریات زندگی کے پیدا کرنے میں صرف کرتے ہیں اور بعض صرف اسباب عشرت و تن آسانی ہی کو پیدا کرتے ہیں۔ لیکن یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ تہذیب و تمدن کی ترقی کے ساتھ ساتھ انسان کے حالات زندگی، اس کے خیالات و قویٰ میں ایک قسم کا تغیر آتا رہتا ہے جس سے یہ امکان ہو جاتاہے کہ جو چیز سو سال پہلے اسباب تن آسانی میں سے تصور کی جاتی تھی اب اخلاقی حالات کی وجہ سے ضرورت زندگی میں شمار کی جائے لہٰذا تہذیب و تمدن کے اعلیٰ مدارج میں ضروریات زندگی اور اسباب تن آسانی یا بالفاظ دیگر یوں کہو کہ محنت بار آور اور غیر بار آور میں تمیز کرنا ذرا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس ضمن میں یہ بیان کر دینا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ مندرجہ بالا توضیح پر دو اعتراض ہو سکتے ہیں:۔
۱۔ فرض کرو کہ ایک استاد بیس لڑکوں کو تعلیم دیتا ہے جن میں سے آخر کار دس طلبا معزز عہدوں پر ممتاز ہوئے مگر باقیوں نے مرنوالحال ہونے کی وجہ سے کوئی ملازمت یا تجارت وغیرہ کی۔ ظاہر ہے کہ محنت بار آور کی تعریف کی رو سے استاد کی محنت کا وہ حصہ جو پہلے دس کی تعلیم پر صرف ہوا ہے، بار آور ہے۔ کیونکہ اُس سے مسلسل طور پر مزید دولت پیدا ہو رہی ہے لیکن وہ حصہ جو باقی دس کی تعلیم پر صرف ہوا ہے، غیر بارآور ہے کیونکہ اس سے مسلسل طور پر مزید دولت پیدا نہیں ہوتی۔ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ایک ہی قسم کی محنت ایک حالت میں بار آور اور دوسری حالت میں غیر بار آور ہو؟ اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ کم علم اقتصاد واقعات کے اسباب و علل معلوم کرتا ہے اور اس بات پر بحث کرتا ہے کہ اگر بعض مانع اسباب نہ پیش آئیں تو فلاں واقعہ اس طرح پر ظہور پذیر ہوگا۔ استاد کی محنت دونوں صورتوں میں بارآور ہونے کا میلان رکھتی ہے لیکن چونکہ دوسری صورت میں طلبا کی بے پروائی یاد مگر موانع پیش آ گئے ہیں ، اس واسطے غیر بار آور ہو گئی ہے۔
۲۔ تم شاید یہ کہو گے کہ اگر کسی شے کے بار آور اور استعمال سے یہی مراد ہے کہ اس سے مسلسل طور پر مزید دولت پیدا ہوتی جائے تو جو روپیہ ہم لنگڑوں ، اپاہجوں اور معذوروں کو بطور خیرات کے دیتے ہیں ، وہ بھی غیر بار آور طور پر صرف ہوتا ہے کیونکہ اس سے کوئی مزید دولت پیدا نہیں ہوتی۔ بے شک یہ خیال صحیح ہے اور اسی خیال سے ایک مشہور انگریزی مصنف لکھتا ہے کہ علم الاقتصاد کے اصول اورنتائج انسان کے ذاتی تاثرات کے صریح مخالف ہیں۔ لیکن یہ یاد رہے کہ اگر اس علم کے اصول کی رو سے خیرات کا روپیہ غیر بار آور طور پر صرف ہوتا ہے تو اس سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا ہے کہ خیرات دینی ہی نہیں چاہیے علم الاقتصاد واقعات پر بحث کرتا ہے نہ کہ فرائض انسان پر۔ نظری طور پر کسی امر کا صحیح ہونا اس بات کا مستلزم نہیں ہے کہ وہ امر اس وجہ سے ہمارے فرائض سے ہی خارج ہے۔ فرائض انسان کی تعیین علم الاقتصاد کا کام نہیں ہے۔بلکہ ان کا فیصلہ علم اخلاق کے اصول پر ہوتا ہے۔جو بحیثیت ایک علم ہونے کے علم الاقتصاد سے الگ ہے بلکہ اگر تم غور کر کے دیکھو گے تو معلوم ہوگا کہ نظام تمدن کے بقاء اور اس کے استحکام کے لیے یہ ضروری ہے کہ قومی دولت کا کچھ حصہ فنا بھی ہوتا رہے۔
اس امتیاز کا اصلی مفہوم ذہن نشین کر لینے کے بعد یہ جاننا ضروری ہے کہ کسی ملک میں محنت کی پیداوار کا کم و بیش ہونا مندرجہ ذیل اسباب پر منحصر ہے۔ خواہ وہ ملک حالت شبانی میں، خواہ زراعتی حالت میں، خواہ تہذیب و تمدن کے اس درجہ پر موجب کہ صنعت و تجارت انتہائے عروج پر ہوتی ہیں۔
۱۔ دستکاروں یا محنتیوں کی کارکردگی۔
۲۔ انقسام محنت یا محنت کے مختلف اعمال اور حصص کا مختلف افراد پر تقسیم کرنا اور اس طریق سے اُن کی تخصیص و تنظیم کرنا۔
محنت کی کارکردگی
محنتی کی کارکردگی کئی اسباب پر منحصر ہے۔
اوّل اس کی موروثی ہمت یا قویٰ جو فطرت نے اُسے عطا کئے ہوں۔ قدرت کا عطیہ مختلف اقوام کی حالت میں مختلف ہے۔ بعض قومیں قدرتاً قوی اور مضبوط ہوتی ہیں بعض قدرتاً دُبلی پتلی اور مقابلتاً ضعیف۔ یہی حال افراد کا ہے مگر اس اختلاف کی علت پر بحث کرنا علم الاقتصاد کا کام نہیں ہے۔
دوم۔ محنتی کی غذا کی کیفیت اور کمیت۔
سوم۔ محنتی کا سامان حفظ صحت ، صاف اور ہوا دار مکانوں میں رہنے سے اس کی صحت پر ایک نمایاں اثر ہوگا۔ جس سے اس کی ہنر مندی ترقی کرے گی۔
چہارم۔ محنتی کی فطرتی ذہانت۔ ذہن محنتی بہ نسبت غبی محنتی کے کئی وجوہ سے زیادہ اچھا کارکن ہوتا ہے۔
۱۔ تو اسے اس امر کی ضرورت نہیں ہوتی کہ اُس کی شاگردی کی مدت طویل ہو۔
۲۔ اس پر نگرانی کرنے کی چنداں ضرورت نہیں ہوتی۔
۳۔ وہ اشیاء کی تیاری میں کم نقصان کرتا ہے۔
۴۔ وہ کل کا استعمال جلد سیکھ جاتا ہے۔
۵۔ زندگی کی دوڑ میں بڑھنے کی آرزو ، جو سچی خود داری اور غیرت سے پیدا ہوتی ہے اور اس امر کا یقین کہ پیداوار محنت کی افزائش کے ساتھ ساتھ اس کا حصہ بھی بڑھتا جائے گا۔
مندرجہ بالا اسباب میں سے پہلے تین اسباب طبعی ہیں۔چوتھا عقلی اور پانچواں اخلاقی ہے۔ تم کو معلوم ہے غلاموں کی محنت آزاد محنتیوں کی محنت کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ غلاموں کی محنت کارکردگی کی وقعت سے کیوں معرا ہے؟
صاف ظاہر ہے کہ آزاد محنتیوں کی طرح اسے زندگی کی دوڑ میں آگے بڑھنے اور اپنے ہمراہیوں پر فوقیت لے جانے کی کوئی خواہش ہوتی اور نہ ہو سکتی ہے۔ تازیانہ کا خوف ان قویٰ کو حرکت میں نہیں لا سکتا جن کی تحریک صرف تمنائے دولت اور خود داری کی خلش سے ہوتی ہے۔ آزاد محنتیوں کی صورت میں بھی اُجرت کا قطعی اور یقینی ہونا ان کے لیے انتہا درجہ کا قوی محرک ہوتا ہے اور اگر کسی مالک کا نہیں بلکہ اپنا کام کر رہے ہوں تو اپنی محنت کی کارکردگی کے زیادہ کرنے میں اور بھی کوشش کرتے ہیں۔ وجہ صرف یہی ہے کہ وہ اپنے آپ کو اپنی محنت کی پیداوار کاپورا مالک تصور کرتے ہیں۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے:۔
“حقِ ملکیت ایک اکسیر ہے جو تانبے کو سونا بنا دیتا ہے”۔
یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ بعض ممالک میں قانون ہی اس ڈھب کے وضع کئے جاتے ہیں کہ قوم کے دستکار اُن کے اثر سے دن بدن سُست ہوتے جاتے ہیں۔ کیونکہ بسا اوقات یہ قانون اُن کی اپنی محنت کا پورا فائدہ اٹھانے سے روکتے ہیں۔ کچھ عرصہ گزرا ہے ملک سکاٹ لینڈ میں قوانین متعلقہ مزارعین اس طرح سے وضع کئے گئے تھے کہ ان بے چاروں کی جانکاہی کوہ کندن و کاہ برآوردن کی مصداق تھی۔ یہی وجہ تھی کہ اُن لوگوں کے مزاج میں دن بدن کاہلی ترقی کرتی گئی۔ مگر جب اس قسم کے بیہودہ قوانین منسوخ کر دیئے گئے تو انھوں نے اپنی جبلی چستی اور استقلال کو پھر حاصل کر لیا۔ پس یہ تمام اسباب ہیں جو محنت کی کارکردگی میں اختلاف پیدا کرتے ہیں۔
انقسامِ محنت
کسی قوم کی قوتِ محنت کا دوسرا جزو انقسامِ محنت ہے۔ تہذیب و تمدن کے ابتدائی مراحل میں ہر انسان اپنی ذاتی ضروریات کے پورا کرنے کے لیے سارا کام خود کرتا ہے۔ اپنی جھونپڑی کا معمار بھی آپ ہی ہوتا ہے اور اپنے شکار کے لیے تیر و کمان اور دیگر اوزار بھی آپ ہی تیار کر لیتا ہے۔ مگر اس حالت میں بھی کسی نہ کسی حد تک انقسامِ محنت کا اصول عمل میں ضرور آتا ہے۔ عورت سوت کاتتی ہے۔ پہننے کے لیے کپڑے تیار کرتی ہے کھانا پکاتی ہے۔ لیکن مرد اور کام کرتا ہے جن میں قوت اور چستی کی زیادہ ضرورت ہے رفتہ رفتہ محنت کا انقسام جنسیت کے امتیاز پر مبنی نہیں رہتا۔ بلکہ ذاتی قابلیت کے اختلاف پر مبنی ہو جاتا ہے۔ افراد میں سے کوئی لوہار ، کوئی زرگر، کوئی بڑھئی بن جاتا ہے اور اس طرح آخر کار ہر پیشہ کے مختلف حصے مختلف محنتیوں کے ساتھ مختص ہوتے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ اکثر ممالک میں ذات پیشہ کے لحاظ سے قرار دی جاتی ہے۔ ہندوستان کو ہی لو ہمارے ہاں اصول انقسام محنت کا اثر اس درجہ تک ہوا کہ درزی ، لوہار ، بڑھئی وغیرہ ذاتیں قرار پا گئیں اور اس امتیاز پر اس قدر بے جا زور دیا گیا کہ اس کے مضرت رساں نتائج بالکل نظر انداز کر دئیے گئے۔ اس میںکوئی شک نہیں کہ تہذیب و تمدن کے ابتدائی مراحل میں یہ امتیاز قوموں کے لیے مفید ہو سکتا ہے لیکن کسی شے کے ایک خاص صورت میں مفید ہونے سے یہ نتیجہ نہیں نکل سکتا کہ وہ شے ہر حالت میں مفید ہے۔
انقسامِ محنت سے دولت کی پیدا وار روز افزوں ترقی کرتی ہے۔
۱۔ اس کی وجہ سے شاگردی کی مدت کم ہو جاتی ہے کیونکہ جب محنتی کو کسی پیشے کا صرف ایک خاص حصہ ہی سیکھنا ہو گا تو ظاہر ہے کہ اس کے سیکھنے کی مدت اس مدت سے بہت کم ہوگی جو اس پیشہ کی تمام شاخوں کے سیکھنے میں صرف ہوتی۔
۲۔ ایک خاص شاخ کی مزادلت سے اس کے ہاتھ کی صفائی بڑھ جائے گی۔
۳۔ جب ایک محنتی کسی پیشے کی ایک خاص شاخ کے لیے مختص ہو جائے گا تو اُس کو اس پیشے کی دیگر شاخوں سے کوئی سروکار نہ ہوگا اور عدم انقسام کی صورت میں جو وقت ایک شاخ سے دوسری شاخ کی طرف جانے اور پیشے کے مختلف اعمال کی ادل بدل میں صرف ہوتا تھا، انقسام محنت کی صورت میں بچ جائے گا۔
۴۔ چونکہ ہر محنتی کی توجہ پیشے کی کسی خاص شاخ یا عمل پر مبذول رہا کرے گی ، اس واسطے وہ اپنے مقررہ کام کو سہولت ، آسانی اور صفائی کے ساتھ سر انجام دینے کی راہیں ایجاد کر نے کی کوشش کرے گا۔ اگرچہ دنیا کی بڑی بڑی ایجادات علمی ترقی کا نتیجہ ہیں۔ تاہم اس میںکوئی شک نہیں ہے کہ ان کا بہت سا حصہ اصول انقسام محنت کے اثر سے ظہور میں آیا ہے۔
۵۔ انقسامِ محنت کا ایک نتیجہ یہ بھی ہوگا کہ کام محنتیوں کی قابلیت کے مطابق تقسیم ہوگا لہٰذا بچے اور عورتیں بھی اپنی اپنی قابلیت کے مطابق ملک کی دستکاری سے بہرہ ور ہوں گی۔
مندرجہ بالا سطور سے یہ تو تمھیں معلوم ہوگیا ہو گا کہ انقسامِ محنت کسی ملک کی صنعت کے لیے کہاں تک مفید ہے۔ لیکن اگر اسی اصول کو دنیا کی تمام اقوام و ممالک پر وسعت دی جائے تو یا یوں کہو کہ محنت کی مقامی تقسیم کی جائے تو اس کے فوائد اور بھی نمایاں معلوم ہوں گے۔ ہر ملک وہی شے پیدا کرنے کی قابلیت اسے حصوصیت کے ساتھ حاصل ہے اور اس طرح رفتہ رفتہ وہ ملک اس خاص شے کے پیدا کرنے میں کمال حاصل کرتا جائے گا۔
جو لوگ اصول “تامین تجارت “ کے مخالف ہیں۔ اُن کی بڑی دلیل یہی ہے کہ قوموں کے تجارتی تعلقات پر کسی قسم کی روک پیدا کرنا گوپا لوگوں کو اُن بڑے بڑے فوائد سے محروم کرنا ہے جو محنت کی مقامی تقسیم کا نتیجہ ہیں۔ کیونکہ ہر شخص یہ حق رکھتا ہے کہ اپنی ضرورت کی چیزیں اسی ملک یا بازار سے خرید لے ، جہاں وہ کم سے کم قیمت پر دستیاب ہو سکتی ہیں۔
تم جانتے ہو کہ ہر قوم کے تمدنی اور ملکی حالات کم و بیش مختلف ہیں۔ لہٰذا اُن کی دستکاری میں بھی کم و بیش اختلاف ہے۔ کسی کو کسی شے کی تیاری میں کمال حاصل ہے۔ یا ملکی اور قومی حالات کی وجہ سے ہو سکتا ہے اور کسی کو کسی اور شے کی تیاری میں۔ اگر اس قدرتی امر کو ملحوظ خاطر رکھ کر دیا کی محنت کو اس طور پر مرتب و منظم کریں کہ ہر ملک انہیں اشیا کے پیدا کرنے میں مصروف رہے جن کے تیار کرنے میں اُسے خاص طور پر قابلیت حاصل ہے یا یوں کہو کہ دستکاری کی مختلف شاخیں ایک نہ ایک قوم یا مقام کے ساتھ مختص سمجھی جائیں ، تو ظاہر ہے کہ اس تنظیم سے بے انتہا فوائد منتج ہوں گے۔ محنت کی کارکردگی پر ایک نمایاں اثر ہوگا۔ بنی نوع انسان ایک بڑے جسم کی طرح ہیںکہ مختلف ممالک یا اقوام اس کے اعضا ہیں، جو اپنے اپنے مقررہ فرائض کی انجام دہی سے “بنی آدم اعضائے یک دیگر اند” کا پورا مفہوم ظاہر کرتے ہیں۔ اور اس طرح جسم کی پرورش اور ترتیب کرے ہیں۔ پس قطع نظر ان فوائد کے جو انقسام محنت سے پیدا ہوتے ہیں اور جن کا اُوپر ذکر کیا گیا ہے۔ تنظیم محنت کا اوّل تو یہ فائدہ ہو گا کہ دستکاری کی مختلف شاخوں کی تقسیم سے مختلف پیشہ وروں کے کام کی خوبی کا مقابلہ ہو سکے گا جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ ان کے درمیان ایک قسم کا رشک پیدا ہو جائے گا اور پیشہ ور اس رشک کے جوش میں سعی کرے گا کہ اس کاکام خوبی میں اوروں کے کام سے بہتر ہو۔ علاوہ اس کے تنظیم محنت کی وجہ سے مالکوں یا کارخانہ داروں کی ایک ایسی جماعت پیدا ہو جائے گی، جو اپنی ذاتی منفعت کی خاطر ہمیشہ یہ سوچتے رہیں گے کہ ملک کی دستکاری مفید ترین راہوں میں صرف ہو۔ اگرچہ مالکوں کی ایک علیحدہ جماعت کے قائم ہو جانے سے اوّل اوّل کسی قدر نقصان ہو گا۔ کیونکہ دستکار کو اپنے کام میں وہ ذاتی دلچسپی نہ رہے گی، تاہم مجموعی طور پر اس جماعت کا اثر مفید ہوگا۔
مگر یاد رکھنا چاہیے کہ تنظیم محنت کے لیے یہ ضروری ہے کہ دستکاری کے مختلف مرکزوں کے درمیان پیام رسانی اور ارتباط کے دیگر ذرائع کاپورا انتظام ہو، ورنہ بیگانگی اور عدم تعلق سے بعض اوقات خوفناک نتائج پیدا ہونے کا اندیشہ ہو گا۔
۱۸۶۰ء میں جب کہ ممالک مغربی و شمالی ایک ہیبت ناک قحط کی مصیبت سے پامال ہو رہے تھے، بعض اضلاع میں چاول کا نرخ چار روپیہ فی من تھا مگر بعض اضلاع میں دو روپیہ من سے بھی کم تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مختلف اضلاع کے درمیان تجارتی تعلقات کو قائم رکھنے کے لیے کافی سڑکیں موجود نہ تھیں ، جن کی وجہ سے قحط زدہ اضلاع اُن اضلاع کی پیداوار سے فائدہ اٹھا سکتے جن میں مقابلتاً ارزانی تھی۔ موجودہ حکام ہندوستان کی دور اندیشی سے اب اس ملک کے مختلف حصص میں تجارتی تعلقات پیدا ہونے کا سامان دن بدن زیادہ ہوتا جاتا ہے اور امید کی جاتی ہے کہ آیندہ اس قسم کے دردناک مصائب کا تواتر نہ ہوگا۔ اس ضرورت کے لحاظ سے ایک محقق اس بات پر زور دیتا ہے کہ بستیاں آباد کرنے والوں کے قطعاتِ زمین قریب قریب ہونے چاہئیں ورنہ ہر جماعت صرف وہی اشیاء پیدا کرے گی، جو اُن کی ذاتی ضروریات کے پورا کرنے کے لیے کافی ہوگی۔ جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ اُن کے درمیان تجارتی تعلقات پیدا نہ ہوں گے اور اُن کو ان تمام خطرات کا اندیشہ رہے گا جو عدم سلسلہ آمدو رفت سے پیدا ہوتے ہیں۔
اب تمام مختصر طور پر گزشتہ دو باتوں کی بحث کا نتیجہ تحریر کرتے ہیں تاکہ مندرجہ بالا امور وضاحت کے ساتھ ذہن نشین ہو جائیں۔ باب دوئم میں تمھیں معلوم ہو چکا ہے کہ پیدائش دولت کے قدرتی اسباب ایک بڑے قانون کے تابع ہیںجس کو قانون تقلیل حاصل کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ مگر باب سوم میں ہم نے اس بات کی کوشش کی ہے کہ یہ واضح کریں کہ تنظیم محنت سے پیدائش دولت انتہا درجہ کی ترقی کرتی ہے۔ اگر قانون تقلیل حاصل کی رو سے پیدا وار دولت میں نقطہ تقلیل تک پہنچ کر دن بدن کم ہوتے جانے کا میلان ہے، تو تنظیم محنت فن زراعت کی ترقی اور اس فن کی دیگر متعلقہ ایجادات اور سرمایہ کا زیادہ دور اندیشی سے استعمال کرنا اس کی افزائش کے اسباب ہیں۔
انسان کی آبادی دن بدن بڑھتی جاتی ہے اور تہذیب و تمدن کی ترقی کے ساتھ اس کی ضروریات بھی بڑھتی جاتی ہیں۔ لہٰذا اگر وہ صرف قدرتی اسباب کی پیدائش کے بھروسہ پر رہتا اور اپنی روز افزوں ضروریات کے پورا کرنے کی نئی نئی راہیں نہ نکالتا۔ یا بالفاظ دیگر یوں کہو کہ اپنی عقل کے زور سے قانون تقلیل حاصل کے اثر کا مقابلہ نہ کرتا، تو اس امن و آسائش میں انتہا درجہ کا خلل پیدا ہوتا، بلکہ اس کی نسل کا بقا ہی محال ہو جاتا۔ پس ظاہر ہے کہ اصول تنظیم محنت اور اصول تقلیل حاصل ایک دوسرے کے حریف ہیں جن میں ایک قسم کی جنگ چلی جاتی ہے۔ جس سے پیدائش دولت میںاعتدال قائم رہتا ہے اور اعتدال ہی ہر شے کی جان ہے۔

باب۔ ۳
سرمایہ


نوع انسان کے ابتدائی مراحل تہذیب میں سرمایہ کا وجود مطلق نہ تھا۔ پیداوار دولت کے صرف دو وسائل تھے۔ یعنی محنت اور زمین۔ مگر موجودہ نظام تمدن میں سرمایہ دولت کی پیدائش کے لیے ایسا ہی ضروری ہو گیا ہے۔ جیسا کہ محنت اور دیگر قدرتی اسباب۔ اس لیے دولت کی پیدائش ناممکن ہے، جب تک کہ موجودہ صرف میں سے کچھ حصہ بچا کر مزید دولت کے پیدا کرنے میں استعمال نہ کیا جائے۔ لہٰذا نظام تمدن کی موجودہ صورت میں کسی ملک کا سرمایہ اس ملک کی دولت کا وہ حصہ ہے جو دولت کی آیندہ پیدائش کے لیے الگ رکھا جائے۔ کسی ملک کی دولت کا وہ حصہ جو اسباب تن آسانی پر صرف کیا جاتا ہے یا اسباب تن آسانی کی تیاری میں لگایا جاتا ہے، بادی النظر میں تو سرمایہ دار کو نفع دیتا ہے لیکن چونکہ انجام کار قومی دولت پر اس کا اثر اچھا نہیں ہوتا، اس واسطے علم اقتصاد کے اصول کی رو سے ہم نہیں کہہ سکتے کہ یہ حصہ بطور سرمایہ صرف ہوا ہے بلکہ اس کے استعمال کو غیر بار آور ہی کہا جائے گا۔ بشرطیکہ یقینی اور قطعی طور پر یہ معلوم ہو جائے کہ وہ اشیا جو اس حصہ دولت کی وساطت سے تیار ہوئی ہیں یا خریدی جاتی ہیں، واقعی اسباب تن آسانی میں داخل ہیں۔ غرض کہ سرمایہ بچت کا نتیجہ ہے اور سرمایہ دار کے کم خرچ اور کفایت شعار ہونے پر دلالت کرتا ہے۔
بعض مصنفین کہتے ہیں کہ کسی ملک کی آب و ہوا بھی جہاں تک کہ مزید دولت کی پیدا وار میں مدد دیتی ہے، اس ملک کے سرمائے کا حصہ ہے۔ لیکن چونکہ دولت وہ شے ہے، جو تبادلے میں کوئی معین قدر رکھتی ہو۔ اس واسطے کسی ملک کے مفید قدرتی اسباب مثلاً آب و ہوا یا اس کا جغرافی مقام وغیرہ، اس ملک کے سرمائے میں داخل نہیںتصور کئے جا سکتے، اگرچہ یہ پیدائش دولت کے ممد ضرور ہیں۔ سرمائے کی اصلیت مندرجہ ذیل مثال سے واضح ہو سکتی ہے۔
فرض کرو کہ انسانوں کا ایک قبیلہ سمندر کے کنارے پر آباد ہے اور مچھلی پر گزارا کر تا ہے۔جب مچھلی کثرت سے پیدا ہوتی ہے تو ان کے دن بھی اچھے گزر جاتے ہیں۔ مگر برعکس حالات میں ان لوگوں کو قحط کی مصیبت کا سامنا ہوتا ہے۔ اب فرض کرو کہ ان میں سے ایک آدمی اپنے ہم جنسوں کی نسبت امیرانہ گزارہ کرنے کی خاطر مچھلی کا ایک ذخیرہ جمع کرتا ہے۔ یہ ذخیرہ دولت تو ضرور ہے مگر اس کا سرمایہ ہونا اس کے استعمال پر منحصر ہے۔اگر غیر بارآور طور پر استعمال ہوگا تو بطور سرمایہ صرف نہ ہوگا۔ لیکن اگر مزید دولت کی پیدائش میں صرف ہو گاتو سرمایہ کہلائے گا۔ بالفرض قحط کے موسم میں یہ شخص اپنے ذخیرے کو ساتھ لے کر کسی جنگل کی طرف نکل جاتا ہے اور وہاں جا کر فراغت سے ایک کشتی تیار کرتا ہے جس کی وساطت سے سمندر کے دور و درازحصوں میں اس کی رسائی ہو سکتی ہے، جہاں ساحل کی نسبت زیادہ مچھلی مل سکتی ہے۔ اس صورت میں کشتی مذکور سرمایہ کہلائے گی اور یہ شخص سرمایہ دار ہوگا۔
اب اس شخص کے لیے تین راہیں کھلی ہیں:۔
اوّل۔۔ تو یہ کہ اپنی کشتی خود استعمال کرے اور ماہی گیری کی آمدنی سے اپنے ہم جنسوں کی محنت ایک خاص معاوضے کے بدلے خریدے اور اس طرح آرام میں بسر کرے۔
دوم۔۔ یا اپنی کشتی کسی اور کو اجارے پر دے دے اور خود ہاتھ پر ہاتھ دھرے گھر میں بیٹھا رہے۔
سوم۔۔ یا اپنی کشتی کسی اور کو اجارے پر دے دے اور خود اور کشتیاں تیار کرنے میں مصروف رہے۔ فرض کرو کہ کشتی بنانے والا تیسری راہ اختیار کرتا ہے اور اسے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی صنعت کے گاہک بہت ہیں۔ جوں جوں وہ زیادہ کشتیاں تیار کرے گا توں توں اُس کا ہاتھ بھی صاف ہوتا جائے گا اور وہ دن بدن اس قابل ہوتا جائے گا کہ اُجرت کے معاہدے پر اپنے دیگر ہم جنسوں کو بھی اپنے ساتھ کام میں لگائے۔ کیونکہ خریداروں کی کثرت کی وجہ سے وہ اکیلا اتنی کشتیاں نہیں تیار کر سکے گا۔ اب اس کی روز افزوں ترقی دیکھ کر اوروں کو بھی کشتیاں بنانے کے تحریک ہوگی اور کشتی گروں میں ایک قسم کی تجارتی رقابت ہوجائے گی اور منافع کی شرح کم ہوتی جائے گی۔ آخر کار یہاں تک نوبت پہنچے گی کہ کشتیوں کی مزید مانگ نہ رہے گی اور اس وجہ سے سرمایہ دار کمی منافع کے خیال سے کشتی گری کو چھوڑ کر معماری کے کام پر اپنا سرمایہ صرف کرنے لگیں گے یا قبیلے کی دیگر ضروریات کا سامان مہیا کریں گے۔ اس طرح جوں جوں قبیلے کی ضروریات بڑھتی جائیں گی یا یوں کہو کہ جوں جوں قبیلہ مذکور تہذیب و تمدن میں ترقی کرتا جائے گا توں توں اس کا سرمایہ بھی مختلف صورتیں اختیار کرتا جائے گا۔
مثال مندرجہ بالا سے معلوم ہوتا ہے کہ سرمایہ اول اول ذخیرے کی صورت میں ظاہر ہوا کیونکہ کشتی بنانے والے کے لیے یہ ضروری تھا کہ پہلے ایام کشتی گری کے لیے اپنی خوردو نوش کا سامان مہیا کرے۔ اس کے بعد سرمایہ کشتی گری کے اوزاروں کی صورت اور بالآخر اس مصالح کی صورت میں جس سے کشتیاں تیار ہوتی ہیں ، منتقل ہو گیا۔ غرض کہ ہم مختصر طور پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ کسی قوم کا سرمایہ اس قوم کی دولت کا وہ حصہ ہے جو دولت کی نئی نئی صورتیں پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور جس کی تقسیم مندرجہ ذیل طریقہ پر ہو سکتی ہے۔
۱۔ وہ سرمایہ جو مزید دولت کی پیدائش کے ایام میں سرمایہ داروں اور محنتیوں کی خوردو نوش میں صرف ہو۔
۲۔ اوزار یعنی مختلف پیشوں کے ہتھیار۔ آلات اور کلیں وغیرہ
۳۔ مصالح۔ جس میں دولت کی وہ تمام صورتیں شامل ہیں جو سامان معاش اور اوزاروں کے علاوہ ہوں۔
مقدم الذکر صورت میں اسے سرمایہ دائر کہتے ہیں کیونکہ یہ ایک ہیئت سے منتقل ہو کر دوسری ہیئت اختیار کر لیتا ہے۔ مثلاً محنتیوں کی اُجرت ان کی اشیاء خورد ونوش کی چیزیں قویٰ حیات کی صورت میںتبدیل ہو جاتی ہیں۔ موخر الذکر دو صورتوں میں اسے سرمایہ قائم کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ کیونکہ سرمایہ مذکور ایک مستقل اور غیر متبدل ہیئت اختیار کر لیتا ہے جس سے رفتہ رفتہ مزید دولت پیدا ہوتی رہتی ہے۔ اگرچہ تہذیب و تمدن کی عام حالتوں میں سرمایہ انہی تین صورتوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔لیکن زمانہ حال کے مہذب ممالک میں اشیاء مادیہ کے علاوہ اعتبار اور حقوق مجردہ مثلاً حق نالش وغیرہ بھی سرمایہ کے طور پر مستعمل ہوتے ہیں۔ زمانہ حال میں ہزار ہا سوداگر اپنے ذاتی اعتبار پر تجارتی اشیا خرید کرتے اور ان کی فروخت سے نفع اٹھاتے ہیں۔ علیٰ ہذا القیاس زمانہ حال کی تجارت کا بہت بڑا حصہ حقوق نالش اور دیگر حقوق مثلاً حق تصنیف وغیرہ کی خریدو فروخت کے متعلق ہے۔
دنیا میں بہت سے ملک ہیں جن کی قدرت نے صنعت و حرفت اور دستکاری کے دیگر اقسام کے لیے نہایت موزوں پیدا کیا ہے۔ لیکن سرمائے کی کمی یا عدم موجودگی کے باعث ان کی تجارت چمک نہیں سکتی۔ ہمارے ہندوستان کو بھی اس مصیبت کا سامنا ہے۔ یہاں کی تجارت بیشتر مغربی سوداگروں کے ہاتھوں میں ہے جو اپنے سرمایہ کو ہندوستانی تجارت کی مختلف شاخوں میں لگا کر نفع عظیم حاصل کرتے ہیں۔ لیکن اس سے یہ نہ سمجھ لینا چاہیے کہ غیر ملکی سوداگروں کا ہمارے ملک میں سرمایہ لگانا ہمارے لیے مضر ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ اگر سرمایہ ہمارا اپنا ہوتا تو نفع جو اس سے پیدا ہوتا ہے اور جو موجودہ صورت میں غیر ملکی سوداگروں کے ہاتھوں میں جاتا ہے، ہمارے ملک میں ہی رہتا ہے۔ لیکن ظاہر ہے کہ ان مغربی سوداگروں کے سرمائے کی وساطت سے بالخصوص نیل، غلہ، شکر ، کافی اور سونے کی پیدائش کے وسائل پہلے کی نسبت بہت ترقی کر گئے ہیں۔ یا یوں کہو کہ ان لوگوں نے اپنی سرگرمی اور ہمت سے ہماری سرزمین کے مخفی خزائن کے دروازے کھول کر ہمارے لیے آیندہ تجارت کی راہیں کھول دی ہیں۔ بشرطیکہ ہمارے پاس سرمایہ موجود ہو۔ اس بیان سے ظاہر ہے کہ سرمایہ کسی ملک کے وسائل پیدائش کی ترقی ، دستکاری اور تجارت کی مختلف شاخوں کے قیام کے لیے کہاں تک ضروری ہے۔ لہٰذا ہمیں معلوم کرنا چاہیے کہ وہ کون کون سے اسباب ہیں جن سے یہ زیادہ ہو سکتا ہے۔
۱۔ یہ بیان ہوچکا ہے کہ سرمایہ بچت کو نتیجہ ہے اور سرمایہ دار کی کفایت شعاری پر دلالت کرتا ہے۔ لہٰذا تعلیم یا دیگر حالات جو کسی ملک کے لوگوں کو کفایت شعار بنانے کے ممد ہیں، سرمائے کی زیادتی کاپہلا سبب ہیں۔ دولت بچانے کی خواہش لوگو ں کے حقوق کی حفاظت اور شرح سود کی کمی بیشی پر منحصر ہے۔ البتہ جو قومیں سود لینا خلاف مذہب تصور کرتی ہیں، ان پر یہ محرک اثر نہیں کر سکتا۔
۲۔ پیداوار دولت کی مقدار کے زیادہ ہونے سے بھی سرمایہ کی مقدار بڑھتی ہے۔ اگر کسی ملک میں چالیس ہزار من غلہ پیدا ہوتا ہے اور اس میں سے دس ہزار من بطور سرمایہ جمع کر لیا جاتا ہے، تو ظاہر ہے کہ ساٹھ ہزار من غلہ پیدا ہونے کی صورت میں زیادہ مقدار بطور سرمایہ جمع ہونی ممکن ہو سکے گی۔
۳۔ تجارت اور تبادلہ سے بھی سرمائے کی مقدار بڑھتی ہے کیونکہ ان دونوں صورتوں میں پیدا وار دولت کی مقدار بڑھتی ہے جس سے (دیکھو مسئلہ نمبر ۲) سرمائے کی مقدار میں زیادتی ہوتی ہے۔

باب۔۴
کسی قوم کی قابلیت
پیدائش دولت کے لحاظ سے


کسی قوم کی قابلیت پیدائش دولت کے لحاظ سے اس قوم کی زمین ، محنت اور سرمائے کے حسن استعمال اور ان کے مفید طریقوں میں صرف ہونے پر انحصار رکھتی ہے۔خواہ زمین کی کاشت نقطہ تقلیل تک نہ پہنچی ہو، خواہ پہنچ گئی ہو۔ محنتی کی ہنر مندی ،ذہانت، فن زراعت کی ترقی ، تنظیم محنت ، سرمائے کو زیادہ دور اندیشی سے نئی نئی مفید صورتوں میں صرف کرنے اور اسی قسم کے دیگر اسباب سے دولت کی پیداوار انتہا درجے کی ترقی کرتی ہے یہاں ایک بڑا ضروری اور اہم اقتصادی سوال پیدا ہوتا ہے کہ پیداوار دولت زمین، محنت اور سرمائے کی قوت پیداوار سے متعین ہوتی ہے، تو کیا وجہ ہے کہ کوئی قوم اس قدر دولت پیدا نہیں کر سکتی جو اُس کے وسائل پیدائش کے مطابق ہو؟ یا بالفاظ دیگر یوں کہو کہ وسائل پیدائش میں خواہ کسی قدر قوت ہو دولت کی پیداوار اس قوت کے لحاظ سے کم رہتی ہے۔ یعنی اس قدر پیدا نہیں ہوتی جس قدر کہ ہونی چاہیے۔ اس اختلاف کا باعث کیا ہے۔
اس سوال کا جواب علم الاقتصاد کے تمام حصص کے مطالعہ کے بغیر محال ہے۔ دولت کے صرف یا استعمال کے بیان میں تمھیں معلوم ہوگا۔ بعض دفعہ دولت کا استعمال قوم کی قوت سرمایہ اور محنت کو انتہا درجے کا نقصان پہنچا دیتا ہے۔ اسی طرح تقسیم دولت کے بیان میں تم معلوم کرو گے کہ بعض دفعہ دولت اپنے پیدا کنندوں کے درمیان ایسے بے اصول طور پر تقسیم ہوتی ہے کہ بعض افراد کو ایک مستقل نقصان پہنچ جاتا ہے۔ علیٰ ہذا القیاس تبادلے کے باب میں اس امر کے اسباب واضح ہوں گے کہ بعض دفعہ پیدائش دولت کیوں رُک جاتی ہے یا دستکاری کی چلتی گاڑی میں کیوں روڑا اٹک جاتا ہے جس سے پچھلے سالوں کی پیدا کردہ دولت ان بے کاری کے دنوں میں صرف ہو جاتی ہے۔ لہٰذا مندرجہ بالا سوال کا شافی جواب اس وقت تک نہیں دیا جا سکتا جب تک علم الاقتصاد کے تمام حصص کا غور سے مطالعہ نہ کر لو۔ یہاں ہم صرف اُن اسباب کا ذکر کرنا چاہتے ہیں ، جو پیدائش دولت کے سدراہ ہیں جیسا کہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں۔ اس امر کا ایک سبب تو یہ ہے کہ قدرتی طور پر زمین کی زرخیزی (بشرطیکہ انسان اپنی عقلمندی کے زور سے قانون تقلیل حاصل کے اثر کا مقابلہ نہ کرتا رہے) دن بدن کمی کی طرف میلان رکھتی ہے۔ لیکن اس کے علاوہ اور بھی اسباب ہیں جو ذیل میں درج کئے جاتے ہیں:۔
۱۔ محنت اور سرمایہ کسی حد تک ناقابل انتقال ہیں۔ تمام مہذب قوموں میں محنت اور سرمایہ دونوں کچھ اس طرح خاص خاص صورتیں اختیار کر لیتے ہیں کہ اگر اُن کو ایک صورت سے دوسری صورت میں منتقل کرنا چاہیں تو کئی قسم کی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔ مثلاً جس تاجر نے لاکھوں روپیہ کی رقم کلوں پر صرف کر دی اُس کے واسطے یہ امر کس طرح ممکن ہے کہ اپنا کثیر سرمایہ بغیر خرچ اور دیگر نقصان کے کسی اور صورت میں منتقل کر دے یا جس دستکار نے ایک خاص پیشہ بڑی جانفشانی سے اور روپیہ خرچ کر کے سیکھا ہے۔ اس کے واسطے کس طرح ممکن ہے کہ اُس پیشے کو چھوڑ کر کسی اور پیشے کو اپنا ذریعہ معاش بنائے؟
۲۔ محنت اور سرمائے کا ناعاقبت اندیشی سے استعمال کیا جانا۔ اگر ان ہر دو وسائل کو دور اندیشی سے استعمال نہ کیا جائے تو ان کی قوت پیدائش میں ایک نمایاں فرق محسوس ہوتا ہے۔ ممکن ہے کہ کسی کارخانے کے مالک کی وفات پر اس کا جانشین اپنی خامی اور ناتجربہ کاری کے باعث دور اندیشی سے کام نہ لے اور اس طرح اس کی بد انتظامی کی وجہ سے وسائل مذکور کی قوت پیدائش میں ایک معتدبہ کمی پیدا ہو جائے۔ تم کو معلوم ہے کہ موجودہ زمانے میں ضروریات کے تقاضے سے تمام مہذب ملکوں میں محنت اور سرمائے کا انتظام افراد کی ایک خاص جماعت کے ہاتھوں میں ہے جس کو جماعت مالکان یا کارخانہ داراں کہتے ہیں۔ اس جماعت کا وجود سرمائے اور محنت کے مفید انتظام کے لیے ایسا ہی ضروری ہے جیسے فوج کے لیے اعلیٰ افسروں کا وجود۔ جس قدر اصول انقسام پر زیادہ عمل ہوتا جاتا ہے اسی قدر مالک یا کارخانہ دار کا وجود نہ صرف تنظیم، محنت اور دستکاری کو مفید راہوں میں لگانے کے لیے بلکہ دستکاروں کے درمیان حسن انتظام قائم رکھنے کے لیے زیادہ ضروری ہوتا جاتا ہے۔ مالک کے سوا اس امر کا فیصلہ کون کر سکتا ہے کہ کون سی شے تیار کی جائے گی۔ اور کس قیمت پر فروخت کی جائے گی؟ غرض کہ دنیا کی موجودہ دستکاری اس بات کی طرف میلان رکھتی ہے کہ اس کا انتظام دن بدن ایک خاص جماعت افراد کے ہاتھوں میں آتا جائے۔
بعض ماہرین علم الاقتصاد کی رائے ہے کہ پیدائش دولت کے نظام میں مالک یا کارخانہ دار کا وجود ضروری نہیں ہے، بلکہ ان حکما کے خیال میں اس کی موجودگی دستکاروں اور کارخانہ داروں کے درمیان ایک قسم کی بے جا تجارتی رقابت پیدا کر دیتی ہے جس کے نتائج پیدائش دولت کے حق میں مضرت رساں ہوتے ہیں۔ اس وقت کے رفع کرنے کی کئی راہیں بتائی گئی ہیں۔ منجملہ ان کے ایک یہ ہے کہ ایک ہی پیشے کے دستکار مشترک سرمائے سے مل کر کام کیا کریں۔اس میں کچھ شک نہیں کہ اس قسم کی باہمی معاونت کئی حیثیتوں سے مفید ہے۔ مثلاً اگر یہ معرض عمل میں آجائے تو
۱۔ دولت کی وہ مقدار جو موجودہ اقتصادی حالات میں مالک کی جیب میں جاتی ہے، دستکاروں کے قبضے میں آئے گی۔
۲۔ دستکار ہر طرح سے خود مختار ہوگا اور دولت کی جو صورت چاہے گا پیدا کرے گا۔
۳۔موجودہ حالات تمدن میں بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ دستکار مالکوں سے زیادہ اجرت لینے پر ضد کرتے ہیں اور اگر ان کو اجرت کی مطلوبہ مقدر نہ ملے تو کام کاج چھوڑ دیتے ہیں۔ لیکن اگر اس طریق کو عمل میں لایا جائے تو ایسا ہر گز نہ ہو گا۔ کیونکہ جس فریق سے ضد پیدا ہو جانے کا امکان ہے وہ فریق ہی نہ رہے گا۔
۴۔ دستکار کو کفایت شعار کی تحریک ہو گی اور اپنا کام تندہی سے کرے گا۔یہ طریق معاونت عملاً دو صورتیں اختیار کر سکتا ہے:۔
اول۔ وہ صورت جس میں دستکار متحد ہو کر کسی خاص تجارتی شاخ میں آمدنی پیدا کرنے کی غرض سے کام کریں۔
دوم۔ وہ صورت جس میں دستکار اپنی حاصل کردہ دولت باحسن وجود صرف کر سکیں۔مثلاً چند دستکار مل کر کھانے پینے کی چیزوں کی ایک دکان کھولیں اور آپس میں یہ عہد کر لیں کہ وہ اپنی ضرورت کی چیزیں معمولی منافع پر اسی دکان سے خرید کیا کریں گے۔ اس طریق سے ایک تو یہ فائدہ ہوگا کہ کہ ضرورت کی چیزیں کسی قدر سستی مل جایا کریں گی اور علاوہ اس کے مصارف دکان وغیرہ نکال کر جو سال بھر کے بعد منافع ہوگا، وہ سب دستکاروں پر ہر ایک کے حصے کے مطابق تقسیم ہو جایا کرے گا۔ مقدم الذکر صورت میں کچھ بہت بڑی کامیابی کی امید نہیں ہو سکتی، کیونکہ دستکار متحد ہو کر وہ تجارتی قابلیت نہیں دکھاتے ، جو کارخانہ داروں میں بالخصوص پائی جاتی ہے۔ اُن میں سے اکثر صرف کل کی طرح کام کرنا جانتے ہیں اور اس تجارتی مذاق سے قطعاً معرا ہوتے ہیں ، جس کے ذریعے سے کارخانہ دار تجارت کے جذر و مد کو ایک نگاہ سے معلوم کر لیتے ہیں، البتہ مؤخر الذکر میں کامیابی کی امید ہو سکتی ہے۔ خصوصاً ہندوستان میں جہاں اس قسم کے اتحاد کی سخت ضرورت ہے۔
سوم۔ اس مختصر سی گریز کے بعد جاننا چاہیے کہ پیدائش دولت کا تیسرا مانع بعض قدرتی حوادث سے دولت کا برباد ہو جانا ہے۔ مثلاً آندھی کے طوفان سے جہازوں کی تباہی ، آتش زدگی اور ریلی کے دیگر حادثات وغیرہ
اس باب کے ضمن میں ایک اور ضروری مسئلے کی تحقیق بھی لازم ہے۔ تم جانتے ہو کہ مختلف ممالک میں پیدا وار دولت کی مقدار مختلف ہوتی ہے بلکہ اگر ایک ہی ملک کی تاریخ پر نظر ڈالو تو معلوم ہوگا کہ مختلف زمانوں میں اس ملک کی پیداوار دولت کی مقدار مختلف رہی ہے۔ بسا اوقات دو ملک تہذیب و تمدن کے ایک ہی درجے پر ہوتے ہیں اور ان کے دیگر حالات بھی قریباً قریباً یکساں ہوتے ہیں۔ تاہم مذکورہ بالا اختلاف اس صورت میں بھی موجود ہوتا ہے۔ اس واقعہ پر غور کرنے سے دو ضروری سوال پیدا ہوتے ہیں۔
۱۔ وہ کون سے اسباب ہیں جن سے یہ اختلاف پیدا ہوتا ہے؟
۲۔ یہ اسباب کون سے اقتصادی قوانین کے تابع ہو کر عمل کرتے ہیں؟
پیدائش دولت ایک پیچیدہ عمل ہے جس کے بالعموم تین مدارج ہو سکتے ہیں:۔
الف۔ وہ محنت جو کسی مادی شے پر قبضہ حاصل کرنے میں عارض ہوتی ہے۔ مثلاً جنگل سے درختوں کا کاٹنا۔
ب۔ وہ محنت جو اُس قدرتی شے میں ایسے تغیرات پیدا کرنے پر صرف ہوتی ہے جو اس کو انسانی استعمال کے قابل کر دیتے ہیں۔ مثلاً لکڑی کی چوکیاں تیار کرنا۔
ج۔ وہ محنت جو مصنوعات کو ایک مقام سے دوسرے مقام پر لے جانے میں صرف ہوتی ہے۔

صاف ظاہر ہے کہ جس ملک میں محنت نسبتاًزیادہ مساعد حالات میں صرف کی جائے گی یا جہاں محنتیوں کی تعداد یا ان کی محنت کی کارکردگی زیادہ ہوگی وہاں پیدائش دولت کا عمل نہایت نتیجہ خیز ہوگا۔ مختلف ممالک کا مقابلہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ
۱۔ بعض ممالک میں محنت کے واسطے حالات نسبتاً زیادہ مساعد ہوتے ہیں۔ مثلاً کہیں قدرت نے اپنی فیاضی سے کوئلے کی وسیع کانیں رکھ دی ہیں اور کہیں مفید دھاتوں کے بیش بہا خزانے زمین کے اندر پوشیدہ کر دئیے ہیں۔ علیٰ ہذا القیاس بعض ممالک میں کئی اشیا قدرتی طور پر پیدا ہوتی ہیں۔ حالانکہ دیگر ممالک انہی اشیا کو محنت شاقہ سے حاصل کرتے ہیں۔ مگر یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اس قسم کے فوائد ہمیشہ یکساں نہیں رہتے۔ مغلوں کے زمانے میں دریائوں کا ایک فائدہ اور فائدوں کے علاوہ یہ بھی تھا کہ مختلف شہروں اور قصبوں میں تجارتی اور دیگر تعلقات کا سلسلہ انہی کی وساطت سے جاری تھا۔ ہمارے زمانے میں یہ سب کام ریل گاڑی کی وساطت سے سر انجام پاتے ہیں۔ مزید برآں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ قدرت کے مختصر خزائن سے ہم صرف اسی صورت میں مستفید ہو سکتے ہیں، جب کہ ہم کو ان کا علم ہو۔ تہذیب و تمدن کی ترقی کے ساتھ ساتھ اشیا مادیہ کے مخفی خواص اور زمین کے پوشیدہ اسرار روز بروز زیادہ معلوم ہوتے جاتے ہیں اور انسان اُن سے مستفید ہو کر بے انتہا فائدہ اٹھاتا جاتا ہے۔ جن قوموں کو یہ علم نہیں، ضرور ہے کہ وہ پیدائش دولت میں اُن اقوام سے پیچھے ہوں جن کو ان اسرار کا علم ہے۔ معدنیات کو ہی لو۔ جس ملک کے لوگوں کو یہ معلوم ہی نہیں کہ معدنیات کس طرح دریافت ہوا کرتی ہیں ان کو کچھ فائدہ نہیں پہنچ سکتا، خواہ ان کے ملک کی زمین قیمتی دھاتوں کے خزانوں سے معمور ہو۔
۲۔ بعض ممالک میں دستکاروں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے جو پیدائش دولت پر ایک نمایاں اثر ڈالتی ہے۔ ہمارے ہندوستان میں دستکاروں کی تعداد کثیر ہے۔ صرف سرمائے کی کسر ہے ورنہ پیدائش دولت میں ہم اور قوموں سے اس قدر پیچھے نہ ہوتے۔ کمیت کے علاوہ مختلف ممالک کے دستکاروں کی عادات جبلی طور پر قوانین صحت کے خلاف ہوتی ہیں۔ کہیں پانی اور صاف ہوا دستیاب نہیں ہو سکتی۔ کہیں اور اس قسم کے طبعی اسباب ہوتے ہیں جن سے دستکاری کی کیفیت پر اثر پڑتا ہے۔ علیٰ ہذا القیاس جسمانی قوت کے اختلاف کے علاوہ مختلف مقامات کے دستکاروں کی ہنر مندی ، سمجھ اور دور اندیشی میں بھی فرق ہوتا ہے۔ بعض اقوام قدرتاً دیگر اقوام کی نسبت زیادہ ذکی اور چُست ہوتی ہیں۔ بعض قدرتاً سُست اور آرام طلب۔ اس قسم کے نقائص کا دور کرنا ملک کے مصلحوں اور معلموں کا فرض ہے۔
۳۔ محنت کے محرکات میں بھی بالعموم اختلاف ہوتا ہے۔ فطرتاً ہر انسان دولت کا خواہشمند ہے اور یہ فطری خواہش محنت کا سب سے بڑا محرک ہے۔ لیکن بعض اوقات دیگر محرکات زیادہ زبردست ثابت ہوتے ہیں اور دولت کی خواہش کو انسان کی زندگی پر پورا پورا اثر کرنے سے روکتے ہیں۔ بعض مذاہب میں دولت کی تحقیر ایک مسلم اصول ہے، جو ضرور ہے کہ ان مذاہب کے مخلص پیرئوں پر اپنا اثر کرے۔ بالعموم مشرقی اقوام کے لوگ تقدیر کے اس قدر قائل ہیں کہ کل کی فکر کرنا جانتے ہی نہیں اور توکل کے بھروسے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہتے ہیں۔ یہاں یہ اعتراض ہو سکتا ہے کہ دولت کی خواہش ایک خاص حد تک ہی محرک محنت ہو سکتی ہے۔ کیونکہ محنت سے اصل مدعا یہی ہوتا ہے کہ تمام ضروریات پوری ہو جائیں۔ جب تمام ضروریات پوری ہو گئیں تو پھر یہ محرک اپنا عمل نہیں کر سکتا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ جب انسان کی ضروری حاجات پوری ہو جاتی ہیں، تو قدرتاً جدید ضروریات پیدا ہو جاتی ہیں۔ مثلاً مکان کو آراستہ کرنے اور دیگر آسائش کے سامان کی خواہش۔ علم و ادب اور دیگر علمی مشاغل سے لذت اٹھانے کی خواہش بھی اسی ضمن میں شامل ہے۔ یہ محرکات ثانی ہیںجو مختلف اقوام کی حالت میں اور تہذیب و تمدن کے مختلف مدارج میں مختلف طور پر اپنا اثر کرتے ہیں۔ اسی طرح ذاتی ضروریات کے پورا ہونے پر قدرتاً ہر انسان کو اولاد کے لیے کچھ نہ کچھ پیچھے چھوڑ جانے کا بھی خیال پیدا ہوتا ہے جو محنت کا ایک مزید محرک ہے۔
۴۔ مختلف ممالک کے دستکاروں کے اخلاقی حالات مختلف ہوتے ہیں۔ دستکار کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ دیانت دار ہو۔ کام چور نہ ہو اور اپنی طبیعت کے غیر نافع جذبات پر قدرت رکھتا ہو۔ جس قدر عاقبت اندیشی اور دیانت داری اس میں ہوگی۔۔۔۔ جس قدر اپنے مقررہ فرض کی انجام دہی کا خیال اس میں ہوگا۔ اس قدر اس کی محنت قومی دولت کو زیادہ کرے گی۔ سُست اور آرام طلب دستکار اپنے ملک اور قوم کے لیے ایک مضرت رساں وجود ہے۔کیونکہ اس کا وجود قوم کی دولت کو دن بدن گھٹاتا ہے۔ تعلیم و تربیت کا سب سے ضروری فرض یہی ہے کہ عوام میں دیانت داری چستی، عاقبت اندیشی اور دیگر ضروری اوصاف پیدا ہوں اور ان کے دلوں پر یہ بات نقش ہو جائے کہ تمام قوم کا فائدہ بحیثیت مجموعی اور کسی خاص فرد قوم کا فائدہ متغائر چیزیں نہیں ہیں بلکہ ایک دوسرے سے وابستہ ہیں اور جو دستکار اپنے حیوانی جذبات کی پیروی کر کے اپنے جسمانی اور روحانی قویٰ کو نقصان پہنچاتا ہے ، وہ نہ صرف اپنی ذات پر بلکہ اپنے ملک اور قوم پر بھی ظلم کرتا ہے۔
۵۔ مختلف ممالک میں دستکاروں کی محنت کی کارکردگی مختلف ہوتی ہے اور اکثر ممالک میں اس کارکردگی کو زیادہ کرنے اور سرمائے کے زیادہ دور اندیشی سے استعمال کئے جانے کے وسائل اختیار رکئے گئے ہیں۔ کہیں طریق اشتراک مروج ہے کہیں طریق معاونت (جس کا ذکر پہلے ہو چکا ہے) سے کام لیا جاتا ہے اور کہیں دیگر اقسام کے تجارتی اتحاد پر عمل کیا جاتاہے۔ ہمارے ہندوستان میں بھی طریق اشتراک یعنی مشترک سرمائے سے کام کرنا اب مروج ہوتا جاتا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ طریق ان ممالک کے لیے نہایت مفید ہے جہاں مجموعی طور پر سرمائے کی مقدار کم ہو۔ اگر کوئی شخص سو روپیہ سرمائے کے ساتھ کوئی تجارت شروع کرے تو اس کو کچھ منافع کی توقع نہ ہو گی۔ لیکن سو سو روپیہ سرمائے والے ہیں آدمی مل کر کام شروع کریں تو بہت زیادہ منافع کی امید ہو گی۔ یہ اسباب اختلاف مختلف ممالک میں حقیقتاً موجود تو ہیں لیکن ان کا اثر دیگر اسباب کی عمل سے زائل ہو رہا ہے۔
ہم نے اپنے پہلے سوال کاجواب دے دیا ہے۔ اب ہم یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ مندرجہ بالا اسباب اختلاف کون سے اقتصادی قوانین کے تابع ہو کر عمل کرتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان اسباب میں سے بعض مثلاً سبب نمبر ۱ کا عمل کسی قانون کلیہ کے تابع نہیں ہے تاہم بعض کا عمل قوانین کے تابع ہے۔ مثلاً دستکاروں کی تعداد اور اُس کے متعلقہ اسباب کا عمل قانون کلیہ آبادی کی تحت میں ہے اور علیٰ ہذا القیاس محنت کی کارکردگی وغیرہ کا عمل قانون سرمایہ کے احاطہ اثر میں داخل ہے۔ ماہرین علم الاقتصاد نے اس بارے میں تین کلیہ قوانین دریافت کئے ہیں جن کو ہم سلسلہ وار بیان کرتے ہیں۔
قانون آبادی
اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی قوم کے افراد کے زیادہ ہونے سے اس قوم کے دستکاروں کی تعداد بڑہتی ہے۔ مگر اس وقت یہ امر محل بحث نہیں ہے۔ ہم قانون آبادی پر اس تعلق کے لحاظ سے نگاہ ڈالنا چاہتے ہیں جو افزائش افراد اور پیداوار دولت کے درمیان ہے۔ محققین کہتے ہیں کہ یہ قانون تین قضایا پر منقسم ہو سکتا ہے۔
اوّل۔ یہ کہ آبادی ہمیشہ بڑھنے کا میلان رکھتی ہے اور اس کی افزائش اس امر کا خیال نہیں کرتی کہ آیا مزید آبادی کے گزارے کے لیے کافی سامان معیشت موجود ہوگا یا نہیں۔ حکماء نے تخمینہ لگایا ہے کہ بڑے بڑے قحط اور وبائیں نہ آئیں تو آبادی تیس سال میں دوگنی ہو جائے گی۔
دوم۔ اگر زمین کے کسی قطعہ میں آبادی اس طرح دُگنی ، تگنی ہوتی جائے اور دیگر اسباب اس کی افزائش کی سدراہ نہ ہوں(مثلاً وبا، قحط، جنگ اور شادیوں ک کمی وغیرہ) تو ایک خاص میعاد کے بعد قطعہ مذکور کی پیداوار وہاں کے آدمیوں کے لیے مشکل سے کافی ہوگی اور بالآخر مطلق کفایت نہ کرے گی یا بالفاظ دیگر یوں کہو کہ آبادی کی مفروضہ افزائش کا سلسلہ جاری نہیں رہ سکے گا۔
سوم۔ ہمارا گزشتہ تجربہ جو ہم کو صنعت و حرفت کی ترقی کا مشاہدہ کرنے سے حاصل ہوا ہے، اس امر کی تصدیق نہیں کر سکتا کہ فن زراعت کی آئندہ ترقی سے ہم اپنی آبادی کی مفروضہ افزائش کے مطابق خوراک کی زیادہ مقدار پیدا کر سکیں گے۔
قضیہ نمبر ۲ پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ قانون تقلیل حاصل بھی جس کا ذکر ہم پہلے کر آئے ہیں قانون آبادی کے ساتھ گہرا تعلق رکھتا ہے اور ان دونوں کے اجتماع سے یہ نتیجہ قائم ہوتا ہے کہ آبادی کے ایک خاص حد بڑھ جانے کے بعد زرعی دستکاروں کی مزید آبادی سے محنت کی قابلیت پیداوار کم ہوتے جانے کا میلان رکھتی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ جس قدر آبادی زیادہ ہو گی اور ایک حد معین سے بڑھتی جائے گی (یہ حد معین مختلف ممالک کی صورت میں مختلف ہو سکتی ہے کیونکہ مختلف اقوام و ممالک میں صنعت و حرفت و فن زراعت اور دیگر ایجادات کی ترقی کے مدارج مختلف ہیں۔ مثلاً ممکن ہے کہ ایک چھوٹا سا ملک اپنے ایجادات زرعی کے بل پر ۲۰ کروڑ آبادی کا متحمل ہو سکے اور ایک ملک جو اس سے وسعت میں بہت زیادہ ہو لیکن ایجادات میں کم ہو اُس سے آدھی آبادی کا بھی متحمل نہ ہو سکے) اسی قدر زمین مزروعہ کی کاشت نقطۂ تقلیل تک جلد پہنچے گی جس کا نتیجہ جو کچھ پیداوار دولت پر ہوگا ظاہر ہے۔
محنت کی کارکردگی
محنت کی کارکردگی کے اختلافات اور ان کے اثر کے متعلق کوئی کلیہ قانون وضع نہیں ہو سکتا کیونکہ دستکاروں کے طبعی ، عقلی اور اخلاقی اوصاف کے فرق بیان کرنے اور ان کے محرکات محنت کی تشریح کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم کو تہذیب و تمدن کے خفی در خفی اسباب کا پورا پورا علم ہو، جو موجودہ صورت میں نا ممکن ہے۔ لہٰذا ہم یہ معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ مختلف ممالک کے درمیان مختلف افراد کے ذاتی سرمائے کی افزائش جس پر پیداوار دولت کا ایک حد تک انحصار ہے کس قانون کے تحت میں ہے۔ یا بالفاظ دیگر یوں کہو کہ قانون افزائش سرمایہ شخصی کیا ہے؟ اس امر کے متعلق محقق مل ایک قانون وضع کرتا ہے کہ سرمایہ جمع کرنے کی خواہش شرح سود کے ساتھ نسبت مستقیم رکھتی ہے۔ جس ملک میں شرح سود زیادہ ہو گی وہاں کے لوگوں کو روپیہ جمع کرنے کی تحریک زیادہ ہو گی اور جہاں شرح سود کم ہو گی وہاں جمع کی تحریک مطلق نہ ہو گی یا نہایت کم ہو گی۔ مگر یاد رکھنا چاہیے کہ مل کا یہ قانون کامل طور پر صحیح نہیں ہے۔ کیونکہ جمع کرنے کی تحریک صرف شرح سود کی مقدار سے ہی نہیں ہوتی، بلکہ اس کے اور بھی کئی ایک اسباب ہیں۔ بلکہ بعض دفعہ تو ایسا ہوتا ہے کہ شرح سود کے کم ہو جانے سے جمع کرنے کی تحریک زیادہ ہو جاتی ہے۔ کیونکہ شرح مذکور کی کمی کی صورت میں ضروری ہے کہ زیادہ رقم بطور سود لینے کی غرض سے زیادہ سرمایہ دیا جائے جس کا پہلے جمع ہونا لازم ہے۔
۳۔ قانون سرمایہ شخصی تو کسی قدر وضاحت سے بیان ہو سکتا ہے لیکن قانون سرمایہ قومی (سرمایہ قومی سے مراد پیدائش دولت کے وہ وسائل ہیں جو کسی قوم کی گزشتہ محنت سے پیدا ہوتے ہیں۔ مثلاً پرانے تعمیر شدہ مکانات ، سٹرکیں وغیرہ) کا وضاحت کے ساتھ بیان کرنا بہت مشکل ہے۔ کسی فرد واحد کی نسبت تو ہم کسی قدر رائے لگا سکتے ہیں کہ اس کاسرمایہ کس اصول کے مطابق کم و بیش ہوتا ہے مگر کسی قوم کے سرمائے کی نسبت بحیثیت مجموعی اس قسم کا قانون وضع کرنا نہایت دشوار ہے۔ ظاہر ہے کہ سرمایہ قومی کی زیادتی سے محنت کی مانگ یا یوں کہو کہ اجرت کی مقدار بڑھتی ہے اور اس طرح مختلف ممالک کی پیداوار دولت میں اختلاف پیدا ہوتا ہے۔ لیکن یہ معلوم کرنا دشوار ہے کہ سرمایہ مذکور کا اصلی اصول کیا ہے۔ اگر کسی طرح سے کوئی اصول معلوم بھی ہو جائے تو اس سے صحیح مستخرج نہیں ہو سکتے۔ کیونکہ بسا اوقات اور بالخصوص زمانہ حال میں اکثر قومیں اتنا سرمایہ خود نہیں استعمال کرتیں بلکہ دیگر اقوام کو مستعار دے دیتی ہیں۔ اگرچہ سرمائے کو اس طرح پر مستعار دے دینے سے اُن اقوام کو دنیا کی پیداوار محنت میں زیادہ حصہ ملتا ہے۔ لیکن اس سے اُن قوموں کی ذاتی محنت کی قابلیت پیداوار میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔ سوائے اس کے کہ ان کی خارجی تجارت کے فوائد میں کسی قدر زیادتی ضرور ہو جاتی ہے۔ مزید برآں اکثر اوقات بعض ممالک کے ارکانِ سلطنت جنگ وغیرہ کے اغراض کے لیے قوم سے قرض لیتے ہیں، جس سے قومی سرمائے میں کمی عارض ہوتی ہے۔ علیٰ ہذا القیاس رفاہ عام مثلاً تعلیم و حفظان صحت وغیرہ کے کاموں پر جو محنت صرف ہوتی ہے اُس سے کسی خاص فرد کو کوئی نفع نہیں ہوتا بلکہ اُن کا فائدہ عام بلا خصوصیت ہوتا ہے۔ نیز وہ محنت جو اکثر افراد حب وطن کے خیال سے نظام سلطنت کی حفاظت اور اس کی اندرونی قوت کو برقرار رکھنے کے لیے کرتے ہیں اکثر مالی فائدہ کی آمیزش سے معرا ہوتی ہے۔ غرض کہ ان وجود سے کسی ملک کے سرمایہ قومی کی کمی بیشی کا کوئی وسیع اور کامل اصول قائم کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔