علم الاقتصاد/حصہ سوم
تبادلہ دولت
با ب اوّل
مسئلہ قدر
بعض مصنفین کہتے ہیں کہ تبادلہ دولت علم الاقتصاد کا کوئی خاص حصہ نہیں ہے۔ مگر یہ رائے تجارت اور تبادلے میں امتیاز نہ کرنے سے پیدا ہوتی ہے۔ علاوہ اس کے منطقی وضاحت اس امر کی مقتضی ہے کہ اس مضمون کو علم الاقتصاد کا ایک علیحدہ حصہ سمجھا جائے تاکہ مختلف اقتصادی مسائل آپس میں مخلوط نہ ہو جائیں۔ اس حصے کا مقصد تناسب تبادلہ یا ان شرائط پر بحث کرنا ہے جن کی رو سے اشیاء کا باہمی تبادلہ ہوتا ہے جو ایک معین قدر کھتی ہے۔ ظاہر ہے کہ جب وہ چیزوں کا تبادلہ کیا جاتا ہے تو ایک شے کی ایک خاص معین مقدار دوسری شے کی ایک خاص معین مقدار کے عوض میں دی جاتی ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ مقدار معین کیوں ہوتی ہے۔ کم و بیش کیوں نہیں ہوتی؟ علم الاقتصاد کے اس حصے کا مقصد اسی سوال کا جواب دینا ہے۔
تبادلہ انقسام محنت سے پیدا ہوتا ہے۔ اگر ہر شخص اپنی اپنی ضروریات کی چیزیں پیدا کرنے میں مصروف ہوتا تو تبادلے کی ضرورت کبھی لاحق نہ ہوتی۔ لیکن جب ان کے مشاغل میں اختلاف پیدا ہوتا ہے یا یوں کہو کہ مختلف انسان یا اقوام دولت کی مختلف صورتوں کے پیدا کرنے میں مصروف ہوتی ہیں، تو تبادلے کا دستور خود بخود پیدا ہو جاتا ہے۔مختصر طور پر یوں کہو کہ تبادلہ اتحاد کی ایک صورت ہے جو اختلاف مشاغل سے پیدا ہوتی ہے جب ایک شخص غلہ پیدا کرتا ہے ، دوسرا مکی یا آلو اور تیسرا کپڑا تیار کرتا ہے تو ظاہر ہے کہ ضرورت ان سب کو باہمی تبادلے پرمجبور کرے گی۔ اس وقت یہ سوال پیدا ہوگا کہ غلہ کی کسی قدر مقدار دس گز کپڑے یا دومن آلو کے عوض دی جائے گی؟ جس قدر اصول انقسام محنت کا عمل وسیع ہوتا جائے گا اسی قدر تبادلے کا دائرہ بھی وسیع ہوتا جائے گا۔ لیکن چونکہ ایسی صورت میں افراد کو اپنی اپنی ضرورت کی اشیاء کا باہمی تبادلہ کرنے میں دقت ہوگی یا کم از کم ان کے وقت کا کچھ حصہ اس تبادلے میں ضائع ہوگا، اس واسطے قدرتاً تبادلے کا کام افراد کی ایک خاص جماعت کے زیر اہتمام آتا جائے گا۔ جس کو علم الاقتصاد کی اصطلاح میں افراد تبادلہ کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ یہی لوگ ہیںجن کی وساطت سے تجارت کی گاڑی چلتی ہے اور دور دراز ممالک کے باشندوں کے درمیان رابطہ اتحاد پیدا ہوتا ہے اور تبادلہ اشیاء کے ساتھ تبادلہ خیالات بھی ہوتا رہتا ہے۔
غرض ہمارا مقصد اس حصے میں یہ معلوم کرنا ہے کہ تبادلے میں اشیاء کی خاص خاص مقدار کن اصولوں کے لحاظ سے متعین ہوتی ہے۔ کیا وجہ ہے کہ ہندوستانی غلے کی ایک خاص مقدار کے عوض میں چینی چائے کی ایک خاص مقدار یا جاپانی چھاتوں کی ایک خاص تعداد دی جائے؟ یہ مقدار یا یہ تعداد کم و بیش کیوں نہ ہو؟ مختصراً اشیاء میں قوت تبادلہ کن کن شرائط سے پیدا ہوتی ہے؟ اور اس کے اسباب و وجود کیا کیا ہیں؟
قدر کی تعریف اس کتاب کے پہلے حصہ میں لکھی جا چکی ہے۔ یعنی قدر قوت تبادلہ کا نام ہے یا اس قدر و قوت کا نام ہے جو کسی شے کی وساطت سے اس شے کے قابض کو حاصل ہوتی ہے اور جس کو تبادلے میں دے کر وہ شخص بلا لحاظ جبرو اکراہ یا تاثرات ذاتی اوروں کی پیدا وار محنت کو حاصل کر سکتا ہے مگر سوال یہ ہے کیوں ایک شے اپنے قابض کو یہ قدرت یا قوت دیتی ہے اور دوسری نہیں دیتی ؟ کیوں ایک شے کے قبضے سے اوروں کی پیدا وار محنت پر ہفتوں مہینوں بلکہ سالوں تک یہ قدرت حاصل رہتی ہے اور دوسری شے کے قبضے سے یہ قدرت مطلق حاصل نہیں ہوتی یا اگر ہوتی ہے تو نہایت قلیل عرصے کے لیے؟ یہ سوال علم الاقتصاد کے نہایت ضروری سوالوں میں سے ہے۔ لہٰذا طالب علم کا فرض ہے کہ ا س کے ہر پہلو پر غور کر کے اس کو اچھی طرح سے ذہن نشین کر لے۔
ظاہر ہے کہ تبادلے کے لیے کم از کم دو اشیاء کا ہونا لازم ہے۔ جب ہم کہتے ہیں کہ کسی شے کا تبادلہ ہو سکتا ہے تو ہمارا مفہوم یہ ہوتا ہے کہ اس کا تبادلہ کسی اور شے کے ساتھ ہو سکتا ہے اور جب ہم یہ کہتے ہیں کہ فلاں شے کی قدر تبادلے میں اتنی ہے تو بالواسطہ یا بلاواسطہ ہم کسی اور شے یا اشیاء کی قدر کی طرف اشارہ کرتے ہیں، جن کے عوض میں شے مذکور دی جا سکتی ہے۔ عام طور پر یہ دوسری شے جس کے عوض میں کوئی شے دی جا سکے زر نقد ہے، جس کو دنیا کی مہذب اقوام نے اشیاء کی قدر کا پیمانہ قرار دیا ہے۔ پس کسی شے کی قدر سے حقیقت میں مراد اس کی قیمت سے یا زر نقد کی اس مقدار سے ہے جو اس شے کے عوض میں دی جائے۔ اس مقام پر قدر اور قیمت کا ذہن نشین کر لینا نہایت ضروری ہے۔ لہٰذا ہم اسے واضح کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ فرض کرو کہ ایک شخص کے پاس چار من غلہ ہے جس کے عوض میں اسے ۲۷ من کوئلہ مل سکتا ہے۔ اس صورت میں یہ سمجھا جائے گا کہ ۴ من غلے کی قدر ۲۷ من کوئلے کی قدر کے برابر ہے۔ اس مثال سے معلوم ہوتا ہے کہ قدر کے مفہوم میں اشیاء کامقابلہ داخل ہے اور قدر ایک اضافی اصطلاح ہے۔ ایک شے کی قدر دو طرح سے کم و بیش ہو سکتی ہے۔ یا تو اس کی ذاتی قدر میں کمی بیشی ہونے سے یا دیگر اشیاء کی قدر میں تغیر پیدا ہو جانے سے۔ اس سے معلوم ہوا کہ تمام اشیاء کی قدر ایک ہی وقت میں نہیں بڑھ سکتی۔کیونکہ ایک شے کی قدر کی زیادتی اور دوسری کی قدر کی کمی لازم و ملزوم ہیں۔ یہ کہنا کہ ایک ہی وقت میں اشیاء کی قدر کم و بیش ہو سکتی ہے ایسا ہی ہے جیسے کوئی کہہ دے کہ چھ اشخاص میں سے ہر ایک اپنے باقی پانچ ہمراہیوں کی نسبت زیادہ تیز رفتار ہے۔ الغرض کسی شے کی قیمت اس کی قدر کی ایک خاص صورت کانام ہے جب کسی شے کی قدر کا تخمینہ ان قیمتی دھاتوں کے ساتھ اس کا مقابلہ کرنے سے کیا جائے جو شائستہ اقوام میں بطور معیار قدر مستعمل ہوں، تو کہا جاتا ہے کہ اس شے کی قیمت معلوم ہو گئی ہے۔ گو تمام اشیاء کی قدر ایک ہی وقت میں کم و بیش نہیں ہو سکتی تاہم نہ اُن کی قیمت کا گھٹنا بڑھنا ممکن ہے۔
مندرجہ توضیع سے معلوم ہو گیا ہو گا کہ مسئلہ قدر حقیقت میں ان اسباب کا دریافت کرنا ہے جن پر اشیا کی قدر ایک معین معیار کے لحاظ سے منحصر ہوتی ہے۔ ان معنوں میں کوئی شے قدر نہیں رکھ سکتی جب تک اس میں دو خواص نہ ہوں۔ اوّل افادت دوئم وقت حصول۔ افادت سے مراد یہ ہے کہ اس شے میں کسی انسانی ضرورت یا خواہش کو پورا کر سکنے کی خاصیت موجود ہے۔ یہ گویا ایک قسم کا امتحان ہے کہ جب تک کوئی شے پہلے اس امتحان میں کامیاب نہ ہو لے قدر رکھنے والی اشیاء کی فہرست میں داخل نہیں ہو سکتی۔ لیکن اس فہرست میں کوئی خاص درجہ یا مقام حاصل کرنا اس شے کی وقت حصول پر موقوف ہے۔ پس ظاہر ہے کہ جس قدر کسی شے میں انسانی ضروریات کو پورا کر سکنے کی خاصیت ہو گی اسی قدر اس شے کی قدر بھی زیادہ ہوگی۔ اسی افادت کی کمی بیشی کی وجہ سے اشیاء کی طلب یعنی مانگ میں اختلاف پیدا ہوتا ہے۔ کیونکہ جس قدر کسی شے میں افادت زیادہ ہوگی اسی قدر اس کی مانگ بھی زیادہ ہوگی اور جس قدر افادت کم ہو گی اُسی قدر اُس کی مانگ بھی کم ہوگی۔ خریداران اشیاء کا معاوضہ زیادہ دیں گے جن کی ان کو ضرورت ہے۔ مگر جن اشیاء کی ان کو ضرورت نہیں ہے ،ان کا معاوضہ اوّل تو دیں گے ہی نہیں یا اگر دیں گے تو بہت کم دینے پر راضی ہوں گے۔ بعض محققین علم اقتصاد نے انسانی فطرت کے اس میلان کو ظاہر کرنے کے لیے اصطلاح افادت انتہائی استعمال کی ہے۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اصطلاح مذکور نہایت مفید ہے کیونکہ اس کے استعمال سے تبادلے کی تحریک اور اس کے فوائد کی توضیح ہوتی ہے۔ اس کا مفہوم واضح کرنے کی غرض سے ہم ایک مثال پیش کرتے ہیں۔ فرض کرو کہ آٹے کا ایک سیر ایک آدمی کی بقائے حیات کے لیے ضروری ہے۔ ظاہر ہے کہ اس ایک سیر میں زیادہ افادت ہوگی۔ لیکن اس شخص کے نزدیک آٹے کے دوسرے اور تیسرے سیر میں وہ افادت نہ ہوگی۔ جو پہلے سیر میں تھی۔ کیونکہ وہ مقدار اس کی بقائے حیات کے لیے لازم تھی۔ اس مثال میں مقدار تو وہی ایک سیر ہے۔ لیکن ہر سیر کی افادت آٹے کو استعمال کرنے والے کے لحاظ سے مختلف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ شخص آٹے کے تیسرے سیر کو اس قیمت پر خریدنا پسند نہیں کرے گا، جس قیمت پر کہ اُس نے پہلے سیر کو خریدا تھا۔ پس کسی کی افادت انتہائی سے مراد اس شے کی آخری یا اختتامی حصے کی افادت ہے جس کو مشتری قیمت کی اس کم سے کم مقدار کے عوض میں خرید کرتا ہے، جو اُس شے کا بائع منظور کر سکتا ہے۔ مثال بالا میں آٹے کے تیسرے سیر یعنی اختتامی یا انتہائی حصے کی قیمت اس کی افادت سے متعین ہو گی۔ چونکہ مثال مذکور میں خریدار کو آٹے کے تیسرے سیر کی ضرورت نہیں ہے اس واسطے اوّل تو وہ خریدے گا ہی نہیں اور اگر خریدے گا بھی تو اس بات پر مصر ہوگا کہ قیمت کی کم سے کم مقدار ادا کرے۔ آخر کار قیمت کی اس کمتر مقدار پر سودا ہو گا جس کو بائع شے منظور کر سکتا ہے۔ اس توضیح سے ظاہر ہے کہ خریداروں کے لحاظ سے اشیاء کی معمولی قیمت ان کی افادت انتہائی سے متعین ہوتی ہے۔ بعض محققین کے نزدیک یہی افادت قدر اشیاء کا اصل اصول ہے۔ مگر یاد رکھنا چاہیے کہ ہر شے کی قدر اس شے کی افادت پر منحصر نہیں ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ جس شے میں قدر ہوگی اس میں افادت بھی ضرور ہو گی لیکن برعکس صحیح نہیں ہے۔ یہ کچھ ضرور نہیں ہے کہ ہر مفید شے کوئی خاص قدر بھی رکھتی ہو۔ ہوا پانی وغیرہ مفید اشیاء ہیں، مگر ان کی قدر کچھ نہیں ہے کیونکہ قدرت خود بخود بغیر انسانی کوشش کے ان کو کثرت سے مہیا کر دیتی ہے۔ اس کے علاوہ ایک ہی شے بعض اشخاص کے لیے مفید ہوتی ہے اور بعض کے لیے کچھ فائدہ نہیں رکھتی۔ علیٰ ہذا القیاس بعض اشیاء خاص خاص مقامات میں افادت رکھتی ہیں بعض میںنہیں۔ مزید برآں بعض اشیاء میں مطلق افادت نہیں ہوتی ، لیکن ان کی قدر بڑی ہوتی ہے مثلاً ہیرے جو اہرات وغیرہ۔ غرض کہ افادت قدر کا ماخذ نہیں قرار دی جا سکتی اس کے لیے ہمیں کوئی اور کلیہ اصول معلوم کرنا چاہیے۔
بعض محققین کی رائے ہے کہ افادت کے علاوہ قدر کے لیے وقت حصول بھی ضروری ہے۔ یعنی ان کے نزدیک کسی شے کا مفید ہونا اور نیز مشکل سے ہاتھ آنا اس کی قدر کا باعث ہوتاہے۔ اس رائے کو صحیح تسلیم کرنے والے وقت حصول کی تین صورتیں بیان کرتے ہیں۔
۱۔ اوّل یہ کہ اشیاء کی رسد محدود ہو۔ مثلاً گزشتہ مصوروں کی بنائی ہوئی تصویر یں یا دیگر کمیاب چیزیں۔ کیا اس صورت میں اشیاء کی قدر اس محنت پر منحصر ہوگی، جو ابتداً ان پر صرف ہوئی تھی؟ نہیں؛ اگر یہ صحیح ہے کہ انسان بالعموم اپنی محنت ایسی اشیاء کے معاوضے میں نہیں دیتا جن پر کچھ محنت نہ صرف ہوئی ہو اور نیز بالآخر مجموعی طور پر اشیاء کی قدر قریباً قریباً اس محنت کے مطابق ہوگی جو ان پر ابتداً ء صرف ہوئی تھی۔ تاہم حق یہ ہے کہ کسی شے کی قدر اس امر پر منحصر نہیں ہے کہ اس شے کی تیاری میں ابتداً کتنی محنت صرف ہوئی تھی بلکہ یہ اس امر پر منحصر ہے کہ وہ شے اب بغیر محنت کے حاصل نہیںہو سکتی۔ اگر کوئی شاہ نامہ فردوسی کے اپنے ہاتھوں کا لکھا ہوا مل جائے تو اس کی قدر اس محنت کانتیجہ نہ تصور کرنی چاہیے جو ابتداً اس کی تحریر میں صرف ہوئی تھی بلکہ اس کا انحصار اس امر پر ہوگا کہ اکثر لوگوں کو اس نسخہ کی ضرورت ہے اور اب ایسا تیا ر نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا ابتدائی محنت بھی کسی شے کی قدر کا ملخذ نہیں قرار دی جا سکتی۔ مندرجہ بالا دلیل کے علاوہ اس دعویٰ کے ثبوت میں ذیل کے دلائل بھی دیئے جا سکتے ہیں:۔
الف۔۔۔ اگر محنت کو قدر کا اصل باعث سمجھا جائے، تو قدر کی کمی بیشی محنت کی کمی بیشی پر منحصر سمجھنی چاہیے۔ مگر یہ بات صریحاً تجربے کے خلاف ہے۔ جس وسیع زمین پر لاہور جیسا عظیم الشان شہر آباد ہے۔ اس کی قدر اندازے سے زیادہ ہے لیکن یہ زمین کسی طرح محنت کا نتیجہ نہیں ہے۔
ب۔۔۔ اگر محنت کو قدر کا اصل باعث سمجھا جائے تو جن دو چیزوں پر مساوی محنت صرف ہوئی ہے، اُن کی قدر بھی مساوی ہونی چاہیے۔ مگر تجربہ اس کے خلاف ہے۔ اگر ایک ٹکڑا سونے اور ایک ٹکڑا لوہے کا، دونوں مساوی محنت سے حاصل ہوں، تو کیا ان کی قدر بھی مساوی ہوگی؟ ہرگز نہیں۔
ج۔۔۔ اگر محنت کو قدر کا اصل باعث سمجھا جائے، تو ہر شے کی قدر اس محنت سے متناسب ہوگی، جو اس شے کے حاصل کرنے میں صرف ہوئی ہے۔ مگر یہ صحیح نہیں۔ فرض کرو کہ ایک شخص کو خوش قسمتی سے زمین کی سطح پر پڑا ہوا سونے کا ایک ٹکڑا مل جاتا ہے۔ ایک اور شخص کو ایسا ہی ٹکڑا ہفتہ بھی زمین کھود کھود کر ملتا ہے۔ علیٰ ہذالقیاس ایک اور شخص ہے جس کو اس قسم کا ٹکڑا مہینے کی محنت کے بعد ملتا ہے۔ اس اصول کی رو سے چاہیے کہ جس شخص کو مہینے کی محنت کے بعد سونے کا ٹکڑا ملا ہے اس شخص کا سونا اس شخص کے سونے سے بہت زیادہ بیش قیمت ہو جس کو بغیر محنت کے زمین پر پڑا ہوا مل گیا تھا۔
د۔۔۔ اگر محنت کو قدر کا باعث سمجھا جائے تو جس شے پر محنت صرف کی گئی ہے چاہیے کہ اُس کی قدر دوامی اور مساوی ہو۔ مگر یہ صریحاً غلط ہے۔ تجربہ شاہد ہے کہ ایک ہی شے کی قدر مختلف مقامات میں مختلف ہوتی ہے۔ بلکہ بعض جگہ کئی اشیاء کی قدر کچھ بھی نہیں ہوتی، حالانکہ ان پر محنت بھی صرف کی گئی ہو۔ افریقہ کے وحشیوں کے درمیان ایک سنسکرت پڑھانے والے پنڈت یا عربی کی تعلیم دینے والے مولوی کا علم کیا قدر رکھ سکتا ہے؟ اگر ہندوستان کے مسلمان ترکی ٹوپیاں پہننا یک قلم ترک کردیں تو اس اصول کی رو سے ضرور ہے کہ اُن کی قدر بدستور قائم رہے اگرچہ اُن کی مانگ مطلق نہ ہو۔
ر۔۔۔ اگر محنت کو قدر کا ماخذ سمجھا جائے تو محنت کی قدر کا کیا ماخذ ہوگا؟
۲۔ دوسری صورت وقت حصول کی یہ بیان کی جاتی ہے کہ کسی شے کی تیاری میں محنت اور سرمائے کی ضرورت ہو۔ اس ضمن میں جو اشیاء داخل ہیں ان کی قدر یا قیمت ان اشیاء کے مصارف پیدائش سے متعین ہوگی۔ یہ غلطی بھی اسی غلطی کا ایک نتیجہ ہے کہ اشیاء کی قدر کا ماخذ محنت ہے۔ جیسا کہ ہم نے اوپربیان کیا ہے۔ قدر کا انحصار ابتدائی محنت پر نہیں ہوتا بلکہ یہ اس بات پر موقوف ہے کہ موجودہ حالت میں وہ شے بغیر محنت اور سرمائے کے حاصل نہیں ہو سکتی۔ بعض کوئلے کی کانوں میں اوپر کی تہوں کاکوئلہ نہایت عمدہ ہوتا ہے اور نیچے کی تہوں کا کوئلہ اچھا نہیں ہوتا، بلکہ اس میں مٹی اور راکھ وغیرہ ملی ہوئی ہوتی ہے۔ ظاہر ہے کہ اوپر کا کوئلہ نکالنے میں مصارف کی مقدار کم ہوگی اور نیچے کا کوئلہ نکالنے میں چونکہ محنت زیادہ صرف ہوئی ہے ،اس واسطے مصارف کی مقدار بھی زیادہ ہوگی۔ لیکن اگرچہ اشیاء کی قدر مصارف پیدائش پر منحصر ہے تو چاہیے کہ کوئلے کی قیمت اوپر کے کوئلے کی قیمت سے زیادہ ہو۔
۳۔ تیسری صورت وقت حصول کی یہ ہے کہ بعض اشیاء اس قسم کی ہوتی ہیں جن کو ایک معین میعاد کے اندر تیار کیا جا سکتا ہے۔ بشرطیکہ جن لوگوں کو ان کی ضرورت ہے ، وہ اس عرصہ تک انتظار کریں۔ اس صورت میں اشیاء کی قیمت ان مصارف سے متعین ہوتی سمجھی جائے گی جو ان کے از سر نو تیار کرنے میں عائد ہوتے ہوں۔ مگر یہ بات ہمیشہ صحیح نہیں ہوتی کیونکہ ایک نہایت قدیم زمانے کی کل کو ان مصارف سے کوئی نسبت نہیںہے جو اس کے نئے سرے سے تیار کرنے میں عائد ہوتے ہیں۔ کل تو ویسی تیار ہو سکتی ہے مگر چونکہ یہ پرانی کل آثار قدیمہ میں سے تصور کی جائے گی، اس واسطے اس کی قدر یا قیمت بہت زیادہ ہو گی۔
پس معلوم ہوا کہ اشیا کی قدر یا قیمت (کیونکہ قیمت بھی قدر ہی کی ایک صورت ہے) افادت محنت ابتدائی یا اُن مصارف پر جو اُن کی از سر نو تیار کرنے میں عائد ہوں، منحصر نہیں ہے۔ اگرچہ یہ تینوں قدر کی عوارضات ضرور ہیں تاہم اس کی ماخذ نہیں قرار دی جا سکتی۔ پھر وہ کون سا کلیہ اصول ہے جس پر اشیا کی قدر کا دارومدار ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ قدر اشیا قانون طلب و رسد کے عمل پر انحصار رکھتی ہے جس کی توضیح ذیل میںدرج کی جاتی ہے۔
سہولت کے لیے ہم پہلے قانون طلب کا مفہوم واضح کریں گے، بعد میں قانون رسد کا اور پھر دونوں توضیحات کو یکجا کرکے ایک وسیع قانون قائم کریں گے۔ طلب سے مراد کسی شے کی اس خاص مقدار ہے جو کسی خاص قیمت پر خرید کی جائے۔ اس تعریف میںہم نے یہ فرض کر لیا ہے کہ اس مقدار کی قیمت کا ادا کرنے والا حقیقی طور پر اس قیمت کو ادا کر سکنے کی قوت رکھتا ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ طلب اور خواہش حصول مرادف نہیں تصور کئے جا سکتے۔ کیونکہ ہر شخص ہر شے کے حاصل کرنے کی خواہش ظاہر کرتا ہے؛ اگرچہ اشیاء مذکورہ کے خرید کر سکنے کی قوت اس میں نہ ہو۔ اس کے علاوہ تعریف مندرجہ بالا میں الفاظ “خاص قیمت” بھی ضروری ہیں۔ کیونکہ قیمت کے تغیر سے شے طلوب کی مقدار میں بھی تغیر مطلوب ہو گا۔ قانون طلب کے ذریعہ تغیر قیمت سے وابستہ مقدار مطلوب کے تغیر کی توضیح ہوتی ہے۔ یعنی جب کسی شے کی قیمت کم ہو جاتی ہے تو (بشرطیکہ زر نقد کی قوت خریدار اس کی وہ رقم جو خریداروں کے قبضے میں ہے مساوی رہے)اس کی مقدار مطلوب بڑھ جاتی ہے اور برعکس اس کے جب قیمت زیادہ ہو جاتی ہے تو مقدار مطلوب کم ہو جاتی ہے۔ ہم نے کہا ہے “بشرطیکہ زر نقد کی قیمت خرید اور اس کی وہ رقم جو خریداروں کے قبضے میں ہے مساوی رہے”۔ اس قید کا ہونا ضروری ہے کیونکہ جوں جوں کسی شخص کے وسائل آمدنی ترقی کریں گے یا یوں کہو کہ جس قدر کوئی شخص زیادہ دولت مند ہوتا جائے گا، اسی قدر اس میں اشیاء کو زیادہ قیمت کے عوض میں خرید کر سکنے کی قوت بڑھتی جائے گی اور جس قدر اس کے وسائل آمدنی کم ہوتے جائیں گے یا جوں جوں وہ رقم جو اُس کے پاس ہے کم ہوتی جائے گی ، اسی قدر اس کی قوت خرید بھی کم ہوتی جائے گی۔ اگر پہلی صورت میں وہ ایک شے کو دس روپیہ کے عوض میں خرید کر سکتا تھا تو دوسری صورت میں پانچ روپیہ کو بھی نہ خرید کر سکے گا۔ اگرچہ ضرورت دونوں صورتوں میں ایک سی ہی کیوں نہ ہو۔ پس اس قانون کو مختصراً یوں بیان کر سکتے ہیں کہ اشیاء کی مقدار مطلوب کمی قیمت سے بڑھتی ہے اور زیادتی قیمت سے کم ہوتی ہے۔ مثلا ً اگرچھاتوں کی قیمت بڑھ جائے تو بہت سے خریدار جو پہلے چھاتے استعمال کیا کرتے تھے اب ان کا استعمال ترک کر دیں گے۔ اور صرف وہی لوگ اُن کو خرید کریں گے جو زیادہ قیمت کے متحمل ہو سکتے۔ لہٰذا چھاتوں کی مقدار مطلوب کم ہو جائے گی۔ اگر قیمت کم ہو جائے تو بہت سے لوگ جو پہلے چھاتوں کو استعمال کرتے تھے۔ اب کمی قیمت کی وجہ سے استعمال کرنے لگ جائیں گے۔ لہٰذا ان کی مقدار مطلوب میں زیادتی ہو جائے گی۔
علیٰ ہذالقیاس رسد سے مراد کسی شے کی اس خاص مقدار سے ہے جو کسی خاص قیمت کے عوض میں فروخت کئے جانے کے لیے پیش کی جائے اور قانون رسد کو عام الفاظ میں اس طرح بیان کر سکتے ہیں کہ جس قدر قیمت بڑھتی جاتی ہے اسی قدر (بشرطیکہ زر نقد کی قوت خرید اور اس کی وہ رقم جو خریداروں کے قبضہ میں ہو مساوی رہے) مقدار اشیاء فرد ختنی بڑھتے جانے کا میلان رکھتی ہے۔ جب کسی شے کی قیمت زیادہ ملے گی تو ہر تاجر اُسی کی تیاری پر سرمایہ صرف کرے گا اور اگرکم ملے گی تو کوئی شخص اُس شے کی تیاری پر سرمایہ صرف نہ کرے گا۔ لہٰذا مقدار مطلوب پہلی صورت میں بڑھے گی اور دوسری صورت میں کم ہو گی۔
اب ہر دو قوانین مذکورہ پر غور کرنے سے معلوم ہو گا کہ چونکہ ان دونوں میں ایک قسم کا اختلاف ہے اس واسطے تبادلہ اشیاء کے لیے ضروری ہے کہ ان کی طلب و رسد میں ایک مساوات پیدا ہو ورنہ تبادلہ محال ہوگا اور جب تبادلہ محال ہوگا تو قدر کی تعیین کس طرح ہو گی۔ لہٰذا مختلف اقتصادی اسباب کے اثر سے اشیاء کی طلب اور رسد میں خود بخود ایک مساوات پیدا ہو جاتی ہے۔ جس کو بطور قانون کے اس طرح قائم کیا جا سکتا ہے کہ ہر منڈی میں اشیاء کی قیمت ان کی مقدار مطلوب اور مقدار فروختنی کی مساوات سے متعین ہوگی۔ اگر مانگ زیادہ ہوگی اور رسد کم ، تو اشیاء کی قیمت معمول سے زیادہ بڑھ جائے گی۔ علیٰ ہذا القیاس اگر مانگ کم ہو گی اور رسد زیادہ تو قیمت مذکور معمول سے کم ہو جائے گی۔ پس اشیاء کی قیمت صحیحہ (اس اصطلاح کا مفہوم ابھی واضح ہو جائے گا) کی تعیین کے لیے یہ ضروری ہے کہ طلب اور رسد میں مساوات پیدا ہو۔۔۔۔ یعنی اشیاء کی طلب ان کی رسد کے مساوی ہو۔
اس قانون کے معانی کو زیادہ وضاحت سے بیان کرنے کی خاطر ہم مثال کے طور پر ایک جزیرہ فرض کرتے ہیں جہاں ایک ہزار کسان آباد ہیں۔ فرض کرو کہ ان لوگوں کو اپنے کھیتوں کے لیے کھاد کی ضرورت ہے اور ہر کسان کھاد کے پانچ چھکڑوں کے عوض میں غلے کے دس پیمانے دینے کو تیار ہے۔ اس حساب سے گویا کھاد کے پانچ ہزار چھکڑے مطلوب ہیں جن کی قیمت فی چھکڑا دو پیمانے غلہ ہو۔ مگر ممکن ہے کہ قیمت مذکور پر کھاد کی رسد پانچ ہزار چھکڑوں سے زیادہ ہو یا کم۔ بعض آدمی شاید اس قیمت پر کھاد فروخت کرنے کی نسبت ماہی گیری پر گزارا کرنا زیادہ فائدہ مند تصور کریں۔ اس طرح اگر کسان زیادہ قیمت نہ دیں گے تو کھاد کی رسد مطلق نہ ہو گی اور اگر ہو گی تو بہت کم ، جو ان سب کے درمیان تقسیم ہو گی۔ لیکن اگر بعض کسان زیادہ قیمت دینے پر راضی ہو جائیں گے ، تو قیمت کی زیادتی کی وجہ سے وہ لوگ ماہی گیری ترک کر دیں گے جو پہلے کھاد مہیا کرتے تھے اور کھاد کی رسد پھر زیادہ ہو جائے گی۔ برخلاف اس کے اگر کسی قدرتی سبب سے کھاد کی رسد زیادہ ہو جائے تو ، تو جب تک اس کی طلب میں اس قدر زیادتی نہ ہو گی، تمام کھاد بیچنے والے ایک دوسرے کی نسبت مقابلتاً قیمت کو کم کرتے جائیں گے۔ کیونکہ ہر ایک کی خواہش یہی ہو گی کہ میرا ذخیرہ جلد بک جائے۔ قدرتاً ہر شخص کو اپنا فائدہ متصور ہوگا، خواہ دوسرے کا نقصان ہی کیوں نہ ہو۔
مثال بالا سے قانون طلب و رسد کا مفہوم تو واضح ہو گیا۔ لیکن ابھی اس سوال کا جواب دینا باقی ہے کہ طلب و رسد میں مساوات کی طرح پیدا ہوتی ہے۔ ہم نے ابھی اصطلاح مقابلہ کا استعمال کیا ہے جس کے مفہوم کا ذہن نشین کر لینا نہایت ضروری ہے۔ کیونکہ اس مقابلے کے اثر سے ہی طلب و رسد کے درمیان مساوات قائم ہوتی ہے۔ لہٰذا یہ بیان کرنے سے پیشتر کہ مساوات مذکورہ مقابلہ کے عمل سے کس طرح قائم ہوتی ہے۔ پہلے اس کا مفہوم واضح کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔ اس اصطلاح سے مراد اس مقابلے یا تجارتی رشک سے ہے جو کسی شے کے خریداروں اور بیچنے والوں کے درمیان ہوتا ہے۔ کیونکہ ہر شخص کا مدعا یہی ہوتا ہے کہ کم سے کم مقدار دے اور اس کے عوض میں زیادہ سے زیادہ مقدار حاصل کرے۔ مقابلہ کا عمل باہمی اتحاد، رواج اور انسانی اثرات کے منافی ہے۔ کیونکہ ہر شخص قدرتاً اپنی ذات کے لیے کام کاج کرتا ہے۔ جہاں چاہے اپنے مال کو فروخت کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔ رواج کی پابندی اس کو کسی خاص مقام میں بیچنے پر مجبور نہیں کر سکتی اور نیز قدرتاً ہر شخص کو اپنی ذاتی منفعت متصور ہوتی ہے۔ کسی دوسرے کے نقصان وغیرہ کی اسے کچھ پروا نہیں ہوتی۔ یہ ہے مقابلے کا اقتصادی مفہوم۔ اب اس کا اثر سمجھنے کے لیے ذرا مثا مندرجہ بالا پر غور کرو۔ ہم نے اُوپر بیان کیا ہے کہ کھاد بیچنے والا مقابلے کی وجہ سے قیمت کم کرتے جائیں گے۔ اگر فی چھکڑا غلے کے دو پیمانے دئیے جائیں، تو صاف ظاہر ہے کہ طلب اور رسد غیر مساوی ہوںگے۔ کیونکہ کھاد فروختنی کی مقدار تو دس ہزار چھکڑا ہے لیکن مانگ صرف پانچ ہزار چھکڑوں کی ہے۔ اگر قیمت اس سے بھی کم ہو جائے تو رسد شاید ۹ ہزار چھکڑے رہ جائے گی۔ کیونکہ بہت سے کھاد بیچنے والے کھاد مہیا کرنے کا کام چھوڑ کر کسی اور کام میں لگ جائیں گے۔ فرضاً اگر کسان یہ سمجھ کر کہ مقررہ مقدار کی نسبت زیادہ کھاد ڈالنے سے زمین کے محاصل یا پیداوار میں سے کھاد کی اس زیادہ مقدار کی قیمت نکل آئے گی اور اس خیال سے اور کھاد خریدنا شروع کر دیں، تو کھاد کی طلب جہاں پہلے پانچ ہزار چھکڑا تھی ، اب شاید چھ ہزار چھکڑا ہو جائے گی۔ علیٰ ہذاالقیاس اگر قیمت اور کم ہو جائے تو رسد اور بھی کم ہو جائے گی۔ پہلے رسد ۱۰ تھی اور طلب ۵۔ پھر رسد ۹ ہو گئی اور طلب ۶۔ اسی طرح طلب شاید ۷ ہو جائے اور رسد ۸۔ غرض کہ دونوں مقداریں مقابلے کے اثر سے ایک دوسرے سے قریب ہوتی جائیں گی۔ فرض کرو کہ اس وقت جب کہ طلب اور رسد کی درمیانی نسبت ۷:۸ کی ہے۔ کھاد کی قیمت فی چھکڑا ۲؍۱ پیمانہ گیہوں پر ٹھہر گئی۔ اب یہ بات کہ طلب اور رسد کے درمیان پوری مساوات کسی ایسی قیمت پر ہو گی جو قیمت مذکورہ سے بہت کم یا کسی قدر کم ہو، دو امور پر منحصر ہے۔
۱۔ کھاد کی اس مقدار کی افادت انتہائی پر جو سات ہزار چھکڑوں سے زائد ہوگی۔
۲۔ کھاد بیچنے والوں کی کوئی اور فائدہ مند پیشہ اختیار کر سکنے کی استطاعت پر۔ فرضاً اگر کوئی کسان ۲؍۱ ۲پیمانہ گیہوں فی چھکڑا کے حساب سے ۱۰ چھکڑے خرید کرے تو یہی قیمت مقرر ہو جائے گی، بشرطیکہ کوئی کھاد بیچنے والا قیمت مذکور سے کم قیمت پر کھاد مہیا کرنے پر راضی نہ ہو۔ لیکن اگر اس کسان کو ۴؍۱ ۲پیمانہ گیہوں فی چھکڑا کے حساب سے کھاد مل جائے تو وہ شاید پانچ چھکڑے اور خرید کر لے۔ اگر ایسا ممکن ہو تو۴؍۱ ۲ پیمانہ گیہوں سے ہی کھاد کی افادت انتہائی متعین ہو گی اور یہی اس کی قیمت فی چھکڑا قرار پا جائے گی۔ اسی طرح اگر اس کو ۲ پیمانہ گیہوں فی چھکڑا کے حساب سے اور کھاد مل سکے تو افادت انتہائی اسی نرخ سے متعین ہو گی۔ علیٰ ہذاالقیاس ۲؍۱ ۱ پیمانہ گیہوں فی چھکڑا کے حساب سے اور کھاد مل سکے تو یہی قیمت قرار پائے گی۔ الغرض ممکن ہے کہ کسان اس طرح کھاد کے بیس چھکڑے خریدلیوے۔ لیکن ظاہر ہے کہ کھاد کے مختلف حصص کی افادت مختلف ہے۔ اگر یہ کسان بیس چھکڑے کھاد کے ایک ہی دفعہ لیتا تو ہر چھکڑے کے لیے اسے مساوی قیمت ادا کرنی پڑتی اور یہ قیمت ۲؍۱ ۱ پیمانہ گیہوں فی چھکڑا کے حساب سے ہوتی۔کیونکہ منڈی میں(بشرطیکہ مقابلہ پورے طور پر اپنا عمل کر رہا ہو) ایک ہی قسم کی اشیاء کی قیمت ان کی افادت انتہائی سے متعین ہوتی ہے اور بالعموم مساوی ہوتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض اسباب اشیا کی قیمت میں اختلاف پیدا کرتے ہیں۔ لیکن ان بواعث پر ہم آگے چل کر غور کریں گے۔ فی الحال ہم یہ معلوم کرناچاہتے ہیں کہ کسی شے کی قیمت صحیحہ اس قیمت سے کیوں مختلف ہوتی ہے جس پر وہی شے تجارت کی منڈی میں فروخت ہوتی ہے؟
لفظ منڈی کی کئی تشریحات کی گئی ہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ ہر تجارتی شے کی ایک نہ ایک منڈی ضرور ہوتی ہے۔ مثلاً لوہے کی منڈی ، چائے کی منڈی وغیرہ۔۔؟ علیٰ ہذاالقیاس ایک ہی قصبے میں اشیا کا تبادلہ کرنے والوں کے مختلف فریق ہوتے ہیں۔ جن کے درمیان ممکن ہے کہ ایک ہی قسم کی اشیاء کی قیمت مختلف ہو۔ پس لفظ منڈی سے مراد وہ تمام افراد ہیں جن کی طلب یا رسد کسی خاص مقام میں کسی خاص شے کی قیمت پر اثر کرے۔ اگر مقابلہ پورے طور پر اپنا عمل کر رہا ہو تو کسی شے کی قیمت ہمیشہ اس کے مصارف پیدائش کے قریب ہو گی۔ یعنی شے مذکور کی رسد اس حصہ کے مصارف پیدائش پر جو نہایت نامساعد حالات میں پیدا کیا گیا ہے اور یہ قیمت گویا اس شے کی افادت انتہائی کا پیمانہ ہو گی یعنی اس حصے کی افادیت انتہائی کا جس کو خریدار اس خاص قیمت پر بغیر اندیشہ نقصان کے خریدنا قبول کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ قیمت ان مساعی اور تکالیف کا معاوضہ ہوگی جو اس کے پیدا کرنے والوں کو نہایت نامساعد حالات میں کام کرنے کی وجہ سے لاحق ہوئی ہیں۔ لیکن چونکہ تمام خریدار اس شے کی مساوی قیمت ادا کریں گے، اس واسطے ظاہر ہے کہ جن لوگوں نے اسے نامساعد حالات میں پیدا کیا ہے ان کو فائدہ ہو گا۔ یعنی ان کا اجران تکالیف و مساعی سے زیادہ ہوگا جو اس کی تیاری کے ساتھ وابستہ ہیںاور جن لوگوں نے اسے نامساعد حالات میں پیدا کیا ہے ان کا اجر بمشکل ان کی مساعی اور تکالیف کے برابر ہوگا۔ مثلاً فرض کرو کہ چند شخص نہایت مساعد حالات میں کام کرتے ہیں۔یا یوں کہو کہ ایک ایسی کان کھودتے ہیں جس پر معمولی محنت اور سرمایہ صرف کرنے سے عمدہ لوہا بافراط نکل آتا ہے۔ظاہر ہے کہ یہ لوگ ان لوگوں کی نسبت بدر جہا فائدے میں رہیں گے جو اسی کام کو نامساعد حالات میں کرتے ہیں یا بالفاظ دیگر ایسی کان کھودتے ہیں جس سے لوہا نکالنے میں بہت سی محنت اور کثیرسرمایہ درکار ہے۔ مقدم الذکر فریق کے فائدے کی وجہ یہ ہے کہ خریدار دونوں کانوں کے لوہے کو مساوی قیمت پر ہی خریدنا قبول کریں گے جس سے پہلا فریق فائدہ میں رہے گا اور دوسرے فریق کو بمشکل اپنے اصل مصارف ہی پلے پڑیں گے۔
اگر لوہا بیچنے والوں کے درمیان مقابلہ پورے طور پر اپنا عمل کر رہا ہو تو لوہے کی قیمت رفتہ رفتہ اس کے مصارف پیدائش کے قریب آ جائیں گے۔ یہی قیمت جو مقابلے کی وجہ سے مصارف پیدائش کے قریب ہو جاتی ہے علم الاقتصاد کی اصطلاح میںقیمت صحیحہ کہلاتی ہے۔ لیکن چونکہ مقابلہ کبھی پورے طور پر عمل نہیں کرتا۔ اس واسطے منڈی میں ہر تجارتی شے کی ایک خاص قیمت ہوتی ہے جس کو اصطلاح میں قیمت متعارف کہتے ہیںاور یہ قیمت قیمت صحیحہ سے کم و بیش مختلف ہوتی ہے کیونکہ اس سے بالعموم کسی شے کے مصارف پیدائش کا اندازہ نہیں ہو سکتا۔ اگرچہ خریدار کے لیے اس شے کی افادت انتہائی کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے۔ قیمت متعارف اور قیمت صحیحہ کا یہ اختلاف مندرجہ ذیل وجود پر مبنی ہے۔
۱۔ کسی شے کے ذخیرے کی مقدار پر جو منڈی میں موجود ہو۔ یاد رکھنا چاہیے کہ ذخیرہ اور رسد مرادف الفاظ نہیں ہیں۔ ذخیرے سے مراد کسی شے کی اس تمام مقدار سے ہے، جو ایک خاص وقت پر منڈی میں موجود ہواور رسد سے مراد کسی شے کی اس مقدار سے ہے جو فروخت کے لیے پیش کی جا سکتی ہو۔ اگرچہ منڈی میں حقیقتہً موجود نہ ہو۔ لہٰذا ممکن ہے کہ رسد ذخیرے کا ایک تھوڑا سا حصہ ہو۔ مثلاً جب کسی شے کی قیمت کم ہو تو دکاندار قدرتاً اس شے کا سارا ذخیرہ نہیں بلکہ اس کا تھوڑا سا حصہ فروخت کے لیے پیش کریںگے، جو اس صورت میں رسد کہلائے گا۔ جب قیمت برھے گی وہ پہلے کی نسبت ذخیرے کی زیادہ مقدار فروخت کے لیے پیش کریں گے۔ غرض کہ قیمت کی زیادتی کے ساتھ ذخیرہ رسد کی صورت میںمنتقل ہوتا جائے گا۔ برخلاف اس کے یہ بھی ممکن ہے کہ کسی منڈی میں رسد کی مقدار ذخیرے کی مقدار سے زیادہ ہو۔ مثلاً تجارتی دلال عموماً اشیاء کی ایک کثیر مقدار غلہ ، روٹی وغیرہ مہیا کرنے کا خریداروں سے معاہدہ کرتے ہیں، حالانکہ حقیقت میں مقدار معہودہ اس وقت اوّل تو ہوتی ہی نہیں یا اگر ہوتی ہے تو بہت کم۔ چونکہ خریداروں کی طلب اشیاء کی روزانہ پیداوار سے نہیں بلکہ ان کے ذخیرے سے پوری ہوتی ہے، اس واسطے ممکن ہے کہ اس ذخیرے کی کمی بیشی اشیاء کی قیمت متعارف اور قیمت صحیحہ کے درمیان اختلاف پیدا کردے۔ مثلاً اگر کسی سال کمی رسد کی وجہ سے غلے کی قیمت زیادہ ہی ہے، تو دوسرے سال اس کی کاشت زیادہ ہوگی اور اس مزید ذخیرے کی وجہ سے جو اس طرح پیدا ہوگا ممکن ہے کہ قیمت معمول سے بھی کم ہو جائے۔ لیکن بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ اگر غلے کی رسد کم ہے تو اس کی جگہ مکی بکنی شروع ہو جائے۔ اس صورت میں غلے کے ذخیرے کی کمی بیشی اس کی قیمت متعارف پر کچھ اثر نہیں کر سکتی۔ علیٰ ہذاالقیاس بعض اشیاء ذخیرہ کھا سکتی ہیں۔ بعض میں ذخیرہ کئے جانے کی قابلیت نہیں ہوتی۔ یہ سبب بھی ذخیرے کی قیمت متعارف پر اثر کرتا ہے۔مثلاً بعض اشیاء مچھلی وغیرہ (جو ذخیرہ نہیں کھا سکتی) کی قیمت منڈی میں صبح کچھ ہوتی ہے شام کچھ۔
۲۔ محنت کی تنظیم اور کلوںکا استعمال جس کی وجہ سے محنت کے لیے کسی اور پیشے اور سرمائے کے لیے کسی اور صورت میں منتقل ہو جانا مشکل ہو جاتا ہے۔ قیمت صحیحہ اور قیمت متعارف کے اختلاف کا دوسرا سبب ہے۔ محقق مارشل فرماتے ہیں کہ :
جن پیشوں میں سرمایہ قائم کا استعمال کثرت سے ہوتا ہے ان میں اشیاء کی قیمتیں بہت تغیر پذیر ہوتی ہیں۔
تمھیں یاد ہوگا کہ طلب و رسد کی توضیح کرتے ہوئے ہم نے کھاد مہیا کرنے والوں کی مثال لی تھی۔ ایسی مثال لینے سے ہماری غرض یہ تھی کہ پیشہ مذکور میں قیمت صحیحہ اور قیمت متعارف کے اختلاف کا یہ دوسرا سبب کچھ اثر نہیں کر سکتا۔ کیونکہ یہاں نہ بڑی کلوں کی ضرورت ہے نہ بڑے ہنر مند پیشہ وروں کی، جن کی محنت کسی دوسرے پیشے میں منتقل ہو سکتی ہو۔
۳۔ بسا اوقات رسم و رواج اور قانون سے بھی اشیاء کی قیمت متعارف متعین ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ پیشہ وروں کے عادات اور ان کے طبائع بھی بعض دفعہ قیمت کی کمی بیشی پر بہت بڑا اثر رکھتی ہیں۔ جب کسی پیشے کے دستکاروں کی یومیہ اُجرت ایک دفعہ مقرر ہو گئی، پھر سالوں تک بالعموم وہی اُجرت مقرر رہتی ہے۔ خواہ دستکاروں کی تعداد پہلے کی نسبت زیادہ ہی کیوں نہ ہو جائے۔ تم نے سنا ہوگا نکاح پڑھانے والے مولوی اپنی خدمت کے عوض بالعموم ۴؍۱ ۱روپیہ ہی لیا کرتے ہیں۔ ایسی صورتوں میں افادت انتہائی کا اصول معطل ہو جاتا ہے اور قیمت رواج سے متعین ہوتی ہے۔ باپ اپنے مریض بیٹے کی زندگی بچانے کے لیے کئی ہزار روپے دینے کے لیے بھی تیار ہوگا۔ مگر رواج کے اثر سے اسے حکیم کو وہی دو روپے نذرانہ دینے ہوتے ہیں۔
قیمت متعارف اور قیمت صحیحہ کے درمیان جو اختلاف ہوتا ہے اس کے بعض اخلاقی وجوہ بھی ہیں۔ مثلاًبعض دفعہ دکاندار افزائش قیمت کی توقع میں اپنا ذخیرہ اشیاء فروخت کے لیے منڈی میں لاتے ہی نہیں۔ اگرچہ نفع کی امید میں ان کو بسا اوقات نقصان ہی کیوں نہ ہوجائے۔ خوردہ فروشی کی صورت میں ان اخلاقی وجوہ پر غور کرنا اور بھی ضروری ہے۔ ہم نے اُوپر بیان کیا تھا کہ اگرچہ ایک ہی منڈی میں ایک ہی قسم کی اشیاء کی قیمت مساوی ہوتی ہے، تاہم بعض اسباب اس مساوات کے خلاف عمل کرتے ہیں۔ بالعموم خریدار ایسے ہوشیار نہیں ہوتے کہ اشیاء خریدنے کی اصل وقعت کو سمجھتے بوجھتے ہوں۔ اس واسطے دکاندار انہیں سادہ لوح سمجھ کر وصو کا بھی دے دیا کرتے ہیں اور اس طرح اپنی اشیاء کو دُگنی چوگنی قیمت پر بیچ لیتے ہیں۔ چونکہ ہر دکاندار اس طرح نہیں کرتا، اس لیے کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک ہی منڈی میں ایک ہی قسم کی قیمت میں مساوات قائم نہیںرہتی اس لحاظ سے بعض مصنفین کی رائے ہے کہ خوردہ فروشی کی صورت میں اشیاء کی قیمت مقابلے سے نہیں بلکہ رواج سے متعین ہوتی ہے اور اس وجہ سے یہ امر معمولاً مسلم ہے کہ خوردہ فروشوں کو اصول عدل و اخلاق کی رو سے اپنی اشیا کی قیمت اس قدر لینی چاہیے کہ تجارتی لحاظ سے کم قیمت نہ کی جا سکتی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ بعض اہل الرائے کے نزدیک خوردہ فروشی اقتصادی اصول پر نہیں بلکہ اخلاقی اصول پر مبنی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ خاص خاص حدود کے اندر یہ بات صحیح ہے۔ لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ تجارت کا یہ حصہ بھی مقابلے کے اثر سے معرا نہیں ہے۔
باب دوم
تجارت بین الاقوام
گزشتہ باب میں ہم نے تعین قدر پر بحث کی ہے۔ اور اس بات کو ثابت کیا ہے کہ اشیاء تجارتی کی قدر قانون طلب و رسد کے عمل پر منحصر ہے۔ مگر اس باب میں ہم یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ آیا یہ قانون تجارت کی ہر صورت میں صادق ہے؟ ممکن ہے کہ جب تبادلہ اشیاء ایک ہی ملک کے مختلف حصوں کے درمیان ہوتا ہو تو تعیین قدر اسی قانون کے تابع ہو۔ مگر جب یہ تبادلہ مختلف ممالک اور اقوام کے درمیان ہوتا ہو تو اختلاف حالات کی وجہ سے تعیین قدر کا کوئی اور قانون ہو۔ اس کتاب کے حصہ اوّل میں ہم نے بیان کیا تھا کہ اختلاف حالات کی وجہ سے علمی اصول میں تغیر آ جانا ممکن ہے۔ لہٰذا اب ہمارا مقصد اس امر کی تحقیق کرنا ہے کہ آیا تجارت کی ہر دو مندرجہ بالا قورتوں میں قدر اشیاء کی تعیین ایک ہی اصول کے تابع ہے یا مختلف اصولوں کے تحت۔ مگر پیشتر اس کے کہ اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کی جائے یہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ تجارت بین الاقوام کی عام خصوصیات اور اس کے فوائد سے تمھیں آگاہ کیا جائے۔ بعض محققین کی رائے میں تجارت بین الاقوام اس تجارت سے مختلف نہیں ہے جو ایک ہی ملک کے مختلف حصوں کے درمیان ہوتی ہے۔ لہٰذا اس کے لیے کسی نئے اصول کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ وہی پہلا قانون طلب و رسد یہاں بھی صادق آئے گا۔ یہ حکماء تجارت بین الاقوام پر مختلف اعتراض پیش کرتے ہیں جن میں سے چند ایک مندرجہ ذیل ہیں:۔
۱۔ تجارت کبھی مختلف اقوام کے درمیان ہوتی ہی نہیں بلکہ افراد کے درمیان ہوتی ہے جب یہ کہا جاتا ہے کہ انگلستان اور ہندوستان باہم تجارت کرتے ہیں، تو اس کا مفہوم یہ ہوا کرتا ہے کہ ہر دو اقوام میں سے خاص خاص افراد ہیں جو آپس میں تبادلہ اشیاء کرتے ہیں۔ لہٰذا تعیین قدر کا جو قانون تجارت بین الافراد کی صورت میں صحیح ہے وہی تجارت بین المالک کی صورت میں بھی صحیح ہوگا۔
۲۔ تجارت کی ہر صورت کے لیے تعیین قدرکا ایک منفرد اصول ہونا چاہیے ، جو تمام حالات پر حاوی ہو۔ یہ بات علمی اصول کے خلاف ہے کہ ایک ہی قسم کے واقعات کی توجیہ کے لیے مختلف قوانین وضع کئے جائیں۔
۳۔ زمانہ حال میں ایجادات کی وجہ سے فاصلہ اور بُعد موانع تجارت نہیں رہے۔ اس واسطے تجارت بین الاقوام یا بین الممالک کو تجارت کی دیگر صورتوں سے متمیّز کرنا صحیح نہیں ہے۔
اس میں کچھ شک نہیں کہ مختلف ممالک کی تجارتی اغراض میں ایک قسم کی یگانگت ضرور ہے۔ تاہم اقوام و ممالک کا اختلاف ایک ایسا صریح واقعہ ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ کسی ایک ملک کی صورت میں یہ صحیح ہے کہ اس کے مختلف حصص کے درمیان محنت اور سرمایہ یا یوں کہو کہ دستکار اور سرمایہ یایوں کہو کہ دستکار اور سرمایہ دار بلا روک ٹوک ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہو سکتے ہیں۔ بلکہ اقتصادی لحاظ سے لفظ قوم کی تعریف ہی یہ کی گئی ہے کہ یہ تجارتی اشیاء کے پیدا کرنے والوں کو ایک ایسا مجموعہ ہے جس کے مختلف اجزا کے درمیان محنت اور سرمایہ بلا روک ٹوک حرکت کر سکتے ہوں۔ اس تعریف کی رو سے لفظ قوم کے مفہوم میں دو شرائط داخل ہیں۔
۱۔ ہر ایک مجموعہ کے افراد کے درمیان سرمایہ اور محنت ایک مقام سے دوسرے مقام میں بلا قید منتقل ہو سکنا۔
۲۔ ایک مجموعے کے دستکاروں یا کارکنوں کا دوسرے مجموعے کی طرف منتقل نہ ہو سکنا۔ یعنی ایک ملک کے دستکاروں یا سرمایہ داروں کا دوسرے ملک میں جا سکنا۔
مندرجہ بالا اعتراضات کا اصل منشاء زیادہ تر یہی ثابت کرنا ہے کہ خصوصاً زمانۂ حال میں ایک ملک کے دستکار اور سرمایہ دار دوسرے ممالک میں آسانی سے جا سکتے ہیں۔ کیونکہ فاصلے کی دقتیں جو زمانہ قدیم میں حائل تھیں، اب مختلف اقسام کی ایجادات و تسہیل سفر کی وجہ سے مفقود ہو گئی ہیں۔ ہم اس بات کو کسی حد تک تسلیم کرتے ہیں۔ لیکن باوجود اس بات کے یہ بھی صحیح ہے کہ سرمائے اور محنت کے ایک مجموعہ افراد یا قوم کی طرف جا سکنے میں چند ایسی مشکلات ہیں جن پر غور کرنا ضروری ہے۔
اوّل۔ جغرافی اعتبار سے مختلف ممالک کے درمیان فاصلہ ہوتا ہے جس کی مقدار بعض دفعہ بہت بڑی ہوتی ہے۔
دوم۔ مختلف ممالک کی طرز حکومت مختلف ہوتی ہے۔ کہیں مطلق العنان حکومت ہے کہیں جمہوری۔
سوم۔ مختلف ممالک و اقوام کے مذاہب ، اصول معاشرت و رسوم وغیرہ مختلف ہوتے ہیں۔ غرض کہ اگرچہ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ مختلف اقوام کے درمیان سرمایہ اور محنت حرکت کر ہی نہیں سکتے۔ تاہم یہ صاف ظاہر ہے اس حرکت میں دقت ضرور ہے۔ اور یہی دقت تجارت بین الاقوام کو تجارت کی دیگر صورتوں سے متمیّز کرتی ہے۔ تم جانتے ہو کہ اگر کسی ملک کے مختلف حصص کے درمیان سرمایہ اور محنت بلا روک ٹوک حرکت نہ کر سکتے ہوں تو اس ملک میں تجارتی مقابلہ مفقود ہوگا۔ اوریہ ظاہر ہے کہ مقابلے کی موجودگی یا عدم موجودگی سے تجارتی اشیاء کی قدر میں تغیر آ جاتا ہے۔جس سے اگرچہ قانون طلب و رسد باطل نہیں ہو جاتا ، تاہم متاثر ضرورہوتا ہے۔ ہم نے ابھی بیان کیا ہے کہ مختلف ممالک کے درمیان سرمایہ اور محنت ازادانہ حرکت نہیں کر سکتے۔ پس مندرجہ بالا اصول کے مطابق تجارت بین الاقوام کی صورت میں مقابلے کی عدم موجودگی کی وجہ سے قانون طلب و رسد کو متاثر ہونا چاہیے۔ موجودہ تحقیقات سے ہمارا مقصد یہ معلوم کرنا ہے کہ مندرجہ بالا سبب سے یہ قانون کس طرح اور کہاں تک متاثر ہوتا ہے؟ اس سوال کا جواب آگے چل کر دیا جائے گافی الحال ہم تجارت خارجی کے چند فوائد بیان کرنا چاہتے ہیں۔
تجارت بیرونی یا تجارت بین الاقوام کے ذریعہ سے ہم وہ اشیاء حاصل کر سکتے ہیں، جو ہمارے ملک میں پیدا نہ ہوتی ہوں۔ یا تو اس وجہ سے کہ ہمارے ملک کی آب و ہوا ان اشیاء کی پیدائش کے لیے ناموافق ہے یا لوگوں میں صنعت و حرفت کی قابلیت ہی نہیں ہے کہ ان اشیاء کو تیار کر سکیں۔ غرض کہ تجارت خارجی سے ہر ملک دیگر ممالک کی پیدا کردہ اشیاء سے بہرہ ور ہو سکتا ہے۔ علاوہ اس کے اس طریق عمل سے محنت اور سرمائے کی کارکردگی بہت بڑھ جاتی ہے۔ مثلاً انگلستان میں لوہا اور کوئلہ اس کثرت سے پایا جاتا ہے کہ وہاں اس کی پیدائش کے لیے دیگر ممالک کی نسبت محنت اور سرمایہ کم صرف ہوتا ہے۔لیکن اس ملک میں ایسی زمین بہت کم ہے جو قابل زراعت ہو۔ وہاں کا غلہ وہاں کے باشندوں کے لیے بھی کافی نہیں ہے اور اگر غلے کی پیدا وار کو زیادہ کرنے کی کوشش کی جائے، تو بہت سی ناقص زمینیں کاشت کرنی پڑیں گی، جس سے غلے کی قیمت بہت گراں ہو جائے گی۔ دیگر ممالک مثلاً فرانس و ہندوستان وغیرہ میں غلہ بافراط پیدا ہوتا ہے۔ اس لیے اگر انگلستان اپنی اشیاء کا مبادلہ اُن ممالک کے غلہ سے کرے تو سب کو فائدہ ہوگا۔ ایک زمانے میں یہ خیال مروج تھا کہ بیرونی تجارت سے جو فوائد ہوتے ہیں ان کا تخمینہ اس زر نقد سے لگایا جاتا ہے جو ایک ملک سے دیگر ممالک کی طرف منتقل کیا جائے۔ اس بنا پر ہر ملک کے لوگ یہی تقاضا کرتے تھے کہ اشیاء برآمد میں زیادتی ہو اور اشیاء درآمد میں کمی کی جائے۔ کیونکہ اوّل الذکر کی زیادتی سے زر نقد ہاتھ آتا ہے اور موخرالذکر کی زیادتی سے ہاتھ سے جاتا ہے۔ اس غرض کے حصول کے لیے بہت سی تجاویز عمل میں لائی جاتی تھیں۔ برآمد کی مقدار بڑھانے کے لیے انعام دئیے جاتے تھے اور درآمد کی مقدار کو کم کرنے کے لیے طرح طرح کے محصول لگائے جاتے تھے۔ اس طرح مختلف ممالک کے درمیان بجائے اتحاد کے اختلاف پیدا ہوتا تھا۔ اس طریق عمل کو نظام تجارت کے نام سے موسوم کیا جاتا تھا۔ لیکن اب ایک مدت سے اس کا اصل مغالطہ کھل گیا ہے۔ جس کی توضیح ذیل کی مثال سے ہو سکتی ہے۔ فرض کرو کہ انگلستان اور فرانس کی باہمی تجارت سے صرف یہی مراد ہے کہ انگلستانی لوہے کا مبادلہ فرانس کے غلے سے ہوتا رہے۔ نیز فرض کرو کہ فرانس میں ۲۷ من لوہا پیدا کرنے کے لیے اس قدر محنت اور سرمایہ درکار ہے جس قدر بیس من غلے کے لیے۔ مگر ولایت میں اس قدر سرمایہ اور محنت درکا ر ہے جس قدر دس من غلہ کے لیے۔ اس لیے لوہے کی قدر بلحاظ غلے کے فرانس میں انگلستان کی نسبت دگنی ہے۔ اب اگر انگلستان اور فرانس اور دونوں اشیاء کا باہمی مبادلہ کریں تو دونوں کے حق میں مفید ہوگا۔ اگر فرانس ولایت کے ہر ۲۷ من لوہے کے واسطے ۱۵ من غلہ مبادلے میں دے تو انگلستان کو ۵ من غلہ منافع میں رہے گا۔ علیٰ ہذا القیاس فرانس کو بھی فائدہ ہوگا۔ کیونکہ فرانس ۲۷ من لوہا خود پیدا کرے تو اسے اسی قدر محنت اور سرمایہ صرف کرنا پڑے گا جس قدر ۲۰ من غلے کے پیدا کرنے کے لیے درکار ہے۔ مفروضہ صورت میں اس کو صرف ۵ من غلہ دینا پڑے گا۔ اس لیے دونوں فائدے میں رہیں گے اور کسی کا بھی نقصان نہ ہوگا۔
اس مثال سے یہ واضح ہوتا ہے کہ خارجی تجارت کے فوائد حاصل کرنے کے لیے یہ ضروری شرط ہے کہ اشیاء متبادلہ کی قدر اضافی ہر دو ممالک میں مختلف ہو، ورنہ تجارت مذکور کا کچھ فائدہ نہ ہوگا، بلکہ اخراجات بار برداری ضائع ہوں گے۔ مذکورہ اختلاف خارجی تجارت کی مقام شرط ہے اور اصطلاحاً اختلاف مصارف متقابلہ کہلاتا ہے۔ لیکن بعض اہل الرائے کہتے ہیںکہ خارجی تجارت کی اس مقدم شرط سے دو مفرت رساں نتیجے پیدا ہوتے ہیں جن سے گریز نہیںکیا جاسکتا۔
۱۔ اگر خارجی تجارت اختلاف مصارف متقابلہ پرمبنی ہے تو ممکن ہے کہ بعض ممالک کو دیگر ممالک سے ایسی اشیاء حاصل کرنے میں فائدہ ہو جن کو وہ خود نسبتاً کم مصارف پرپیداکرسکتے ہیں۔
۲۔ ممکن ہے کہ بعض ممالک خاص خاص اشیاء کا پیدا کرنا ترک کر دیں جن کے لیے وہ قدرتاً یا دیگر اسباب کی وجہ سے نسبتاً زیادہ موزوں ہیں اور یہ سمجھیں کہ ان خاص اشیاء کو دیگر ممالک سے تبادلے میں حاصل کرنا زیادہ مفید ہے۔ ان ہر دو نتائج کا مفہوم ایک مثال سے واضح کیا جا سکتا ہے۔ فرض کرو کہ الف اور ب دو مختلف ممالک ہیں اور ن اور ق دو اشیاء ہیں جن کے پیدا کرنے کے لیے ہر ملک بجائے خود ایک خاص قابلیت رکھتا ہے نیز فرض کرو کہ الف کی قوت پیداوار ۲ ن یا ۳ ق ہے اور ب کی ۱ ن یا ۲ ق ہے ظاہر ہے کہ اگر دونوں کے درمیان کوئی تبادلہ نہ ہو تو کل پیداوار ۳ن+ ۵ ق ہو گی۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ ن ق سے قدر میں زیادہ ہے۔ کیوں کہ ملک الف میں دونوں کے پیدا کرنے کے لیے اس قدر محنت اور سرمایہ درکار ہے جس قدر ۳ ق کی پیدائش کے لیے اور ملک ب میں ایک ن کی پیدائش کے لیے اس قدر سرمایہ درکار ہے جس قدر ۲ ق کے لیے۔ لہٰذا ملک الف کے لیے تجارتی لحاظ سے بھی مناسب ہے کہ وہ صرف ن ہی پیدا کرے اور ب کے لیے یہی مناسب ہے کہ وہ صرف ق ہی پیدا کرے۔ اس کے علاوہ یہ بھی ظاہر ہے کہ ملک الف کو دونوں اقسام کی اشیاء کی پیدائش میں سہولت ہے اور نیز ق کی پیدائش میں بہ نسبت ن کے اس کو زیادہ سہولت ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ ان نتائج کو کسی حد تک تسلیم کرنا پڑتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ تمام خارجی تجارت اس قسم کی نہیں ہوتی جیسی کہ مثال بالا میں فرض کی گئی ہیں۔ بالعموم ہر ملک ایسی اشیاء ہی تبادلے میں لیتا ہے جن کا پیدا کرنا قدرتی طور پر یاد یگر اسباب کی وجہ سے اس ملک کے لیے مشکل ہو۔ پس خارجی تجارت کا سب سے پہلا فائدہ یہ ہے کہ اس سے ہر ملک مستفید ہوتا ہے۔ علاوہ اس کے کئی دیگر فوائد بھی اس سے پیدا ہوتے ہیں جو مختصراً مندرجہ ذیل ہیں:۔
۱۔ خارجی تجارت کی وساطت سے ہر ملک کو بغیر کاوش کے ایسی اشیاء دستیاب ہو سکتی ہیں جن کو یہ بغیر دقت کے پیدا نہ کر سکتا۔
۲۔ خارجی تجارت انقسام محنت کی ایک صورت ہے جس سے ہر ملک ان اشیاء کی تیاری میں اپنا سرمایہ صرف کرتا ہے جن کے پیدا کرنے کے لیے وہ خصوصیت سے موزوں ہے اور جن کی تیاری سے فائدہ کی زیادہ سے زیادہ مقدار حاصل ہو۔
۳۔ خارجی تجارت کی وساطت سے اشیاء کی فروخت کے لیے منڈیاں پیدا ہوتی رہتی ہیں۔
۴۔ خارجی تجارت کی وساطت سے مختلف اقوام کے دستکار اپنی اپنی ہنر مندی میں بے انتہا ترقی کر سکتے ہیں۔
۵۔ خارجی تجارت سے مختلف اقوام کا میل جول ہوتا ہے جس سے کئی ایک تمدنی اور اخلاقی فوائد پیدا ہوتے ہیں۔
خارجی تجارتی کی عام خصوصیات اور فوائد بیان کرنے کے بعد اب ہم اصل سوال کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ یعنی وہ کون سے شرائط ہیں جن کے لحاظ سے خارجی تجارت کا منافع تبادلے کے مختلف فریقوں کے درمیان تقسیم ہوتا ہے؟ یا بالفاظ دیگر یوں کہو کہ خارجی تجارت کی خصوصیات ان اشیاء کی قدر پر کس طرح اثر کرتی ہیں جو اس تجارت کا مقصود ہیں؟ یا مختصراً شرح تبادلہ کن اسباب سے متعین ہوتی ہے؟
تجارت بین الافراد کی صورت میں یہ معلوم کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ فریقین تبادلہ کے درمیان شرح تبادلہ کیا ہو گی۔ اس مشکل کی وجہ یہ ہے کہ ہمیں پورے حالات معلوم نہیںہوتے اور نہ ہو سکتے ہیں۔ بھلا ہمیں کس طرح علم ہو سکتا ہے کہ ایک خاص فرد کو کسی خاص شے کی کس قدر شدید ضرورت ہے۔ لیکن تجارت بین الاقوام کی صورت میں اقوام کی ضروریات کا اندازہ کس قدر ہو سکتا ہے۔ لہٰذا تجارت کی اس خاص صورت میں بھی بشرطیکہ مختلف ممالک کے درمیان سرمایہ ، محنت اور تجارتی اشیاء بلا روک ٹوک آ جا سکتی ہوں۔ تعین قدر کا وہی پہلا اصول صحیح معلوم ہوتا ہے یعنی شرح تبادلہ تجارت بین الاقوام کی صورت میں بھی اس مساوات پر منحصر ہے جو مختلف اقوام کی طلب و رسد اشیاء کے درمیان ہو۔ مثلاً وہ ملک ہیں الف اور ب۔ مقدم الذکر لوہا پیدا کرتا ہے اور موخرالذکر شراب۔ ظاہر ہے کہ اگر الف کو شراب کی زیادہ ضرورت ہے اور ب کولوہے کی اس قدر ضرورت نہیں ہے، تو شراب کی تھوڑی سی مقدار کے عوض میں ب کو بہت سی مقدار لوہے کی دینی ہوگی۔ اس واسطے یہ ممکن ہے کہ کوئی ملک دیگر ممالک سے ایسی اشیاء حاصل کرتا رہے جن کو یہ خود نسبتاً کم مصارف پر پیدا کر سکتا ہے۔ بشرطیکہ اس کا اپنا سرمایہ اور محنت ایسی اشیاء کے پیدا کرنے میں صرف ہوتے رہیں۔ جن کے پیدا کرنے کے لیے یہ خصوصیت سے موزوں ہے۔ پس ایسی اشیاء کی قدر جن کو ہم دوسرے ملک سے تبادلے میں حاصل کرتے ہیں ان مصارف پرمنحصر نہیں ہے، جو ان اشیاء کو اپنے ملک میں پیدا کرنے سے ہمیں ادا کرنے پڑتے اور نہ یہ ان مصارف پر منحصر ہے جو اس ملک کو ادا کرنے پڑتے ہیں جہاں یہ پیدا کی جاتی ہیں۔ بلکہ یہ قدر ان اشیاء کے مصارف پیدائش پر منحصر ہے جو ہمیں ان کے عوض میں (کرایہ بار برداری کو ملحوظ رکھ کر) دیگر ممالک کو تبادلے میں دینے پڑتے ہیں۔ مثلاً اُوپر کی مثال میں ملک الف میں شراب کی قدر اس لوہے کے مصارف پیدائش پر منحصر ہے جو شراب مذکور حاصل کرنے کی غرض سے تبادلے میں دیا جاتاہے۔
عام صورتوں میں تو یہ صحیح ہے کہ شرح تبادلہ قانون طلب و رسد کی رو سے ہی متعین ہوتی ہے مگر جیسا کہ ہم پہلے بیان کر آئے ہیں۔ تجارت بین الاقوام میں چند ایک ایسی خصوصیات ہیں جن سے یہ قانون متاثر ہوتا ہے۔
اوّل یہ کہ بعض اوقات فریقین تبادلہ آپس میں اتفاق کر کے ایک خاص شرح تبادلہ مقرر کر لیتے ہیں۔
دوم۔ اگر اشیاء متبادلہ کی پیداوار قانون تقلیل حاصل کے تابع ہو، تو جب ان کی پیدا وار ایک ملک میں نقطہ تقلیل تک پہنچ جائے گی تو دیگر ممالک ضرورت سے مجبور ہو کر اسی شے کو پیدا کرنے کی کوشش کریں گے۔ نتیجہ یہ ہو گا کہ تجارت بین الاقوام کا دائرہ دن بدن تنگ ہوتا جائے گا۔ جس سے شرح تبادلہ پر ایک نمایاں اثر ہوگا۔
سوم، بعض حالات یعنی بُعد مسافت اور کثرت مصارف بار برداری وغیرہ کی وجہ سے مختلف اقوام کے درمیان تجارتی مقابلہ مفقود ہوتا ہے اور ظاہر ہے کہ اس کی موجودگی یا عدم موجودگی سے اشیاء تجارتی کی قدر میں تغیر آ جاتا ہے۔ مثال کے لیے فرض کرو کہ فرانس میں نہایت عمدہ کاغذ تیار ہوتا ہے جو ہندوستان اپنی اشیاء کے تبادلے میں اس سے لیتا ہے۔ نیز فرض کرو کہ دیگر ممالک بعض وجوہ سے اس صنعت میں فرانس کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اس صنعت سے فرانس خاصتہً فائدہ اٹھائے گا۔ مگر جب اور قومیں فرانس کا مقابلہ کرنے کو آمادہ ہو جائیں گی اور کاغذ تیار کریں گی، تو ظاہر ہے کہ کاغذ کی قدر میں فرق آجائے گا اور ہندوستان کو اس مقابلے کی وجہ سے فائدہ ہو گا۔
چہارم۔ بعض اوقات ایسے موانع پیش آ جاتے ہیں کہ دو مختلف ممالک کے تجار کو تبادلہ اشیاء میں مشکلات ہوتی ہیں مثلاً کثرت مصارف باربرداری ، دلالوں کی دلالی اور محصول درآمد و برآمد۔ ان اسباب سے اشیاء کی قدر میں تغیر آ جاتا ہے اور تجار کے فائدے میں کمی ہو جاتی ہے۔ لہٰذا یہ اسباب بھی شرح تبادلہ پر اپنا اثر کئے بغیر نہ رہیں گے۔ غرض کہ اس قسم کے بعض اسباب اور بھی ہیں جو شرح تبادلہ پر اثر کرتے ہیں۔ مگر یاد رکھنا چاہیے کہ قانونِ کلیہ طلب و رسد ان اباب کے اثر سے باطل نہیں ہو جاتا۔ ہاں اس کا عمل ان کے اثر سے متاثر ضرور ہوتا ہے۔ ابھی حال ہی کا ذکر ہے ولایتی شکر ہمارے ملک میں اس کثرت سے آنی شروع ہو گئی کہ ایک روپے کی پانچ سیر بکنے لگی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہمارے ملک میں لوگوں نے گنوں کی کاشت ہی چھوڑ دی۔ کیونکہ ولایتی شکر دیسی شکر سے مقابلتاً سستی ملتی تھی۔ یہ حالت دیکھ کر سرکار ہند نے ولایتی شکر پر اب اس قدر محصول درآمد لگا دیا ہے کہ یہ ہماری دیسی شکر سے سستی نہ بک سکے گی۔ اس مثال سے صاف ظاہر ہے کہ ہمارے ملک میں ولایتی شکر کی تعیین قیمت قانون طلب و رسد کا اس قدر دخل نہیں ہے جس قدر کہ سرکار دولت مدار کے حاکمانہ فعل کا۔
اس ضمن میں یہ بیان کر دینا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ جب دو ممالک آپس میں تجارت کرتے ہیں تو بسا اوقات ایک ملک دوسرے ملک کا زیر بار ہو جاتا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ زیر بار شدہ ملک کی اشیاء برآمد و درآمد کے درمیان مساوات قائم نہیں رہتی۔ کیونکہ اس کو نہ صرف اپنی درآمد کے عوض میں اشیاء بھیجنی پڑتی ہیں۔ بلکہ اپنے قرض کی ادائیگی میں یا تو اپنی اشیاء برآمد میں زیادتی کرنی پڑتی ہے یا مزید روپیہ ادا کرنا پڑتا ہے۔اس وجہ سے ایک ملک میں روپیہ کی مقدار بڑھتی جاتی ہے اور دوسرے میں کم ہوتی جاتی ہے۔ جہاں روپے کی مقدار بڑھتی ہے وہاں اس کی قدر کم ہوتی ہے اور اشیاء کی قیمت بڑھتی ہے۔ لہٰذا وہاں اشیاء کی فروخت سے زیادہ فائدہ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کی برآمد اس کی درآمد سے بہت زیادہ ہے۔ چونکہ ہم اپنی ضروریات کے لیے انگلستان کے محتاج ہیں اس واسطے ہم زیر بار ہیں۔ علاوہ اس کے ہم کو سلطنت ہند کے مصارف، حکام کی تنخواہیں اور فوجی اخراجات وغیرہ ادا کرنے پڑتے ہیں۔ لہٰذا ہمارا ملک دن بدن زیادہ سے زیادہ زیر بار ہوتا جاتا ہے۔ مزید برآں ہمارے ملک میں کئی وجوہ کے باعث (مثلاً خارجی حملہ آوروں کا ہندوستان کی قدیم جمع کردہ دولت کو لوٹ کر لے جانا، اخیر کے مغلیہ بادشاہوں کی عیاشی ، عوام کی ناعاقبت اندیشی اور کمی تعلیم کی وجہ سے روپیہ کی اصل حقیقت سے بے خبری وغیرہ) سرمائے کی مقدار کم ہے۔ انگلستان کے قبضے میں سرمائے کی بے انتہا مقدارہے، اس واسطے ہمارے مالک میں رفاہ عام کے کاموں مثلاً آب باشی وغیرہ میں بھی اس ملک کا سرمایہ صرف ہوتا ہے جس سے انگلستان فائدہ عظیم اٹھاتا ہے۔ اگرچہ ہم کو بھی اس سے فائدہ پہنچتا ہے، جس کی تشریح اس کتاب کے کسی اور باب میں کی گئی ہے۔
چونکہ انگلستان کے مصارف ہمیں پونڈوں میں ادا کرنے پڑتے ہیں، اس واسطے چاندی کی قدر میں تنزل آ جانے کی وجہ سے ہمیں اور بھی نقصان ہوا کرتا تھا۔ لیکن اب اجرائے سکہ طلائی کے باعث اس مشکل کا اندیشہ نہیں رہا۔ مگر ہمارے نقصان کی اصل وجہ یہ ہے کہ ہمارا ملک صنعت و حرفت کے میدان میں بہت پیچھے ہے اور اہل ملک بسبب کمی تعلیم کے اس ضرورت کو محسوس نہیں کر سکتے۔ ہم صرف وہی اشیاء پیدا کرتے ہیں جو قانون تقلیل حاصل کے زیر اثر ہیں اور صنعتی اشیاء کے لیے دیگر ممالک کے مختاج ہیں۔ گزشتہ چند سالوں سے ہم نے جاپان کی تقلید کر کے صنعت کی طرف کچھ توجہ کی ہے۔ امید ہے کہ یہ تحریک مفید ثابت ہوگی اور اہل ملک کے لیے ہر پہلو سے نتیجہ خیز ہوگی۔ اگرچہ ہم فی الحال اس قابل تو نہیں کہ ہمارے ملک کی تیار کردہ اشیاء یورپ کے بازاروں میں بک سکیں۔ تاہم ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہمارے ہندوستانی بھائی بارہ لاکھ کے قریب مختلف بیرونی جزائر مثلاً ماریشس ، گائینا، فجی ، ٹرینیڈاڈ وغیرہ میں آباد ہیں، جن کے ساتھ تجارتی تعلقات قائم کرنے سے ہمارے ملک کے تاجر بے انتہا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
باب ۳
زر نقد کی ماہیت اور اس کی قدر
تبادلہ اشیاء انقسام محنت کا لازمی نتیجہ ہے۔ مختلف ممالک بالعموم دہی اشیاء پیدا کرتے ہیں جن کی پیدائش کے لیے ان کی آب و ہوا اور دیگر حالات بالاختصاص موزوں ہوتے ہیں اور اپنی ذاتی ضرورت کی چیزیں ان اشیاء کے تبادلے میں دیگر ممالک سے حاصل کر لیتے ہیں۔ اس قسم کے تبادلے کے لیے یہ ضروری ہے کہ اشیاء کی قدر کا ایک خاص معیار معین کیا جائے۔ کیونکہ محض مبادلے سے کام نہیں چل سکتا۔ اگر کسی کفش ساز کو ٹوپی کی ضرورت ہو تو ظاہر ہے کہ اسے کسی ایسے کلاہ ساز کی تلاش کرنی چاہیے جس کو جوتی کی ضرورت ہو ورنہ اس کی ضرورت کاپورا ہونا ممکن ہے۔ لہٰذا کسی خاص شے کا تعین بطور معیار قدر ضروری ہے، جس کو ہر فرد تبادلے میں قبول کر سکے۔ مختلف زمانوں اور مختلف قوموں میں اس غرض کے لیے مختلف اشیاء استعمال کی گئی ہیں۔ مثلاً نمک، چاول ، چائے وغیرہ۔ مگر چونکہ ان کے استعمال میں صدہا دقتیں تھیں، اس واسطے ضرورت نے خود بخود ایک ایسی شے دریافت کر لی جو اس غرض کو بوجھ احسن پورا کر سکتی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس غرض کو پورا کر سکنے کے لیے کوئی اس قسم کی شے ہونی چاہیے جو
۱۔ ذاتی قدر رکھتی ہو۔
۲۔ آسانی سے منتقل ہو سکتی ہو۔
۳۔ پرانی ہو جانے سے اس کی قدر میں تغیر نہ آ سکتا ہو۔
۴۔ چھوٹے چھوٹے حصوں میں منقسم ہو سکتی ہو۔
۵۔ تھوڑی مقدار میں قدر زیادہ رکھتی ہو۔
۶۔ اس کی قدر بالعموم یکساں رہتی ہو۔
۷۔ اس کا کھرا کھوٹا ہونا جلدی پرکھا جا سکتا ہو۔
۸۔ اس کے سکے آسانی سے بن سکتے ہوں۔
غور کرنے سے معلوم ہوگا کہ یہ تمام اوصاف بطریق احسن چاندی اور سونے میں پائے جاتے ہیں۔ لہٰذا دنیا کی مہذب قوموں نے انہی دودھاتوں کو بطور معیار قدر اختیار کر لیا ، جس سے تبادلے کی دقتیں مفقود ہو گئیں۔ ذرا خیال تو کرو اگر حروف نہ ہوتے، تو خیالات انسانی کے اظہار میں کس قدر دقت ہوتی۔ سونے چاندی کو اشیاء سے وہی علاقہ ہے جو حروف کو ہمارے خیالات سے ہے۔ لہٰذا اس معیار کا دریافت ہونا تمدن انسانی کی تاریخ میں ایجاد حروف سے کم وقعت نہیں رکھتا۔
فرض کرو کسی شراب فروش کو روٹی کی ضرورت ہے اور وہ ایک نان فروش سے کہتا ہے کہ مجھ سے شراب لے لو اور مبادلے میں مجھے روٹی دے دو۔ مگر ممکن ہے کہ نان فروش کو یا تو شراب کی ضرورت ہی نہ ہو یا اگر ہو تو اتنی شراب کی ضرورت نہ ہو جس کی قدر روٹی کی قدر کے مساوی ہو۔ شراب فروش روٹی لے لیتا ہے اور مبادلے میں نان فروش کو اس قدر شراب دے دیتا ہے جس قدر کہ اس کو ضرورت ہے اور بقایا حساب کو بے باق کرنے کے لیے مذکورہ بالا معیار قدر کی کچھ مقدار ادا کر دیتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر نان فروش کو شراب کی مطلق ضرورت نہ ہوتی تو شراب فروش کو معیار قدر کی زیادہ مقدار ادا کرنی پڑتی۔ اب فرض کرو کہ نان فروش کو شراب کی مطلق ضرورت نہیں ہے بلکہ اسے کپڑے کی ضرورت ہے۔ معیار قدر کی وہ مقدار جو اس نے شراب فروش سے حاصل کی ہے جیب میں ڈال کر بزازکی دکان پر جاتا ہے اور وہاں سے وہ شے حاصل کرتا ہے جس کی قدر اس روٹی کی قدر کے مساوی ہے جو اُس نے شراب فروش کے پاس فروخت کی تھی یا بالفاظ دیگر یوں کہو کہ جو شے اس کو شراب فروش کی طرف سے واجب الادا تھی وہ بزاز نے مہیا کر دی۔ لفظ واجب الادا پر غور کرو کیونکہ اس لفظ میں زر نقد کی پوری حقیقت یا ماہیت مخفی ہے۔ مثال بالا سے واضح ہوتا ہے کہ جب مبادلہ غیر مساوی ہو تو معیار قدر یا زر نقد کی ضرورت پڑتی ہے۔ گویا زر نقد یا معیار قدر اس حق کو علامت ہے جو مبادلہ غیر مساوی کی صورت میں ایک فریق کو دوسرے فریق پر حاصل ہے۔ زمانہ حال میں اس معیا قدر کو زر نقد سے تعبیر کرتے ہیں اور دنیا کی تمام مہذب اقوام نے اس کو اس قسم کے حقوق کی علامت قرار دیا ہے۔ پس زر نقد اس حق کی علامت ہے جو اس شخص کو حاصل ہے جس نے کسی اور شخص کو کوئی شے دی ہے یا اس کی کوئی خدمت کی ہے اور اپنی خدمت یا شے کے مبادلے میں شخص مذکور سے کوئی مساوی القدر شے حاصل نہیں کی یا کوئی مساوی القدر خدمت نہیں لی۔ اس تعریف سے یہ اصول قائم ہوتا ہے کہ زر نقد کی وہ مقدار جو کسی ملک میں متداول ہو حقوق کی اس مقدار کی علامت ہے جو زر نقد کی عدم موجودگی کی صورت میں اس ملک کے درمیان واجب الادا ہوتی یا بطور نتیجہ یوں کہو کہ جس ملک میں یہ حقوق نہیں ہیں وہاں کسی معیار قدر کے تداول کی ضرورت نہیں ہے۔
زر نقد کی ماہیت کی مزید توضیح کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم اعتبار یا ساکھ کے ساتھ اس کا مقابلہ کریں۔ ساکھ کیا ہے؟ فرض کرو کہ مجھے ایک شے کی ضرورت ہے، لیکن اس کی خرید کے لیے میرے پاس روپیہ موجود نہیں ہے۔ اگر اس شے کے بیچنے والوں کی نگاہوں میں میں ایک معتبر آدمی ہوں تو وہ لوگ میرے اعتبار پر مجھ کو میری ضرورت کی چیز دے دیں گے۔ گویا میں اپنے اعتبار کی وساطت سے وہ شے حاصل کر لوں گاجو زر نقد کی وساطت سے حاصل ہوتی۔ بالفاظ دیگر یوں کہہ کہ وعدہ ادائیگی بھی وہی کام دے سکتا ہے جو زر نقد دتیا ہے جس طرح زر نقد کی ادائیگی ایک قسم کے حق کا تحویل کرنا ہے اس طرح اعتبار کی وساطت سے اشیاء ضرورت کا حاصل کرنا بھی ایک حق کا تحویل کرنا ہے۔ یعنی جس شخص سے میں نے کوئی شے اعتبار پر لی ہے۔ اگر عندالطلب یا کسی مقررہ معیاد کے بعد اس کو کوئی مساوی القدر شے اس شے کے تبادلے یا مبادلے میں نہ دوں گا تو اس شخص کو یہ حق ہو گا کہ وہ قانونی چارہ جوئی کرکے مجھ سے وہ رقم یا شے وصول کرلے۔ مختصراً یوں کہو کہ زر نقد کی طرح اعتبار بھی قوت خرید کا نام ہے اور دونوں ایک قسم کے حقوق ہیں۔ اس تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ زر نقد اور اعتبار کی ماہیت ایک ہی ہے اور زر نقد اعتبار ہی کی ایک وسیع اور عام تر صورت کا نام ہے۔ لیکن باوجود اس امر کے ان کے درمیان ایک باریک فرق ہے، جس کا سمجھنا نہایت ضروری ہے۔ علم الاقتصاد میں تمام زر نقد اعتبار ہے۔ لیکن اس قضیے کا عکس سادہ یعنی تمام زرنقد ہے صحیح نہیں ہے۔ کوئی شخص کسی دکاندار کو اس بات پر مجبور نہیں کر سکتا کہ وہ کسی شے کو زر نقد کے عوض میں یا اعتبار پر فروخت کر ے۔ پس جب کوئی شخص کسی شے کے عوض میں زرنقد یا روپے کی کوئی مقدار لیتا ہے تو حقیقت میں یہ اعتبار ہی کی ایک صورت ہوتی ہے۔ کیوں کہ اگر اسے یقین نہ ہو کہ میں اس زرنقد کے عوض میں اور اشیاء لے سکوں گا۔ تو وہ اس زرنقد کو کبھی قبول نہ کرے۔ مگر فرض کرو کہ ایک سودا ہوا ہے۔ یعنی ایک شخص نے کسی دوسرے شخص سے کوئی شے قرض خریدی ہے۔ عدل اس امر کا متقاضی ہے کہ مقروض کو اس بات کی اجازت ہو کہ وہ اپنے قرض خواہ کو اپنے قرض کی ادائیگی میں کوئی شے قبول کرنے پر مجبور کر سکے۔ اگر قرض خواہوں کو یہ اختیار ہوتا کہ اپنے قرضوں کی ادائیگی میں جو شے چاہیں قبول کریںتو خیال کرو کسی قدر دقت کا سامنا ہوتا۔ پس ہر ملک کا قانون یہ اصول وضع کرتا ہے کہ اگر کسی نے کچھ قرض لیا ہو تو مقروض اپنے قرض کی ادائیگی میں اپنے قرض خواہ کو کوئی خاص شے قبول کرنے پر مجبور کر سکتا ہے۔ یہ خاص شے جس کو ادائیگی قرض کی صورت میں مقروض قرض خواہ کو قبول کرنے پر مجبور کر سکتا ہے،اصطلاحاً نقد قانونی کہلاتی ہے۔ اس سے یہ نتیجہ ظاہر ہے کہ بعض صورتوں میں بعض اشیاء نقد قانونی ہیں اور بعض میں نہیں۔ انگلستان میں سکہ طلائی ہر صورت میں نقد قانونی ہے۔ لیکن چاندی کا سکہ صرف ۴۰ شلنگ تک ہی نقد قانونی ہے یعنی اگر قرض ۴۰ شلنگ سے زیادہ ہو تو قرض خواہ کو اختیار ہے کہاس سکے کو قبول نہ کرے۔ اگر اس سے کم ہو تو مقروض اسے قانوناً مجبور کر سکتا ہے کہ وہ سکہ سیمیں کو اپنے قرض کی ادائیگی میں قبول کرے۔ مندرجہ بالا تحقیقات سے واضح ہوتا ہے کہ زر نقد تجارت اقوام میںتین ضروری مقاصد کو پورا کرتا ہے۔
۱۔ تبادلہ اشیاء کا ایک وسیلہ ہے۔ جوں جوں تجارت اقوام زیادہ پیچیدہ صورتیں اختیار کرتی جاتی ہے توں توں زر نقد کے استعمال کا یہ مقصد زیادہ واضع اور نمایاں ہوتا جاتا ہے جیسا کہ ہم اُوپر لکھ آئے ہیں تبادلہ اشیاء کے لیے اس کا وجود ایسا ہی ضروری ہے جیسا اظہار خیالات کے لیے زبان کا استعمال۔ تمام ملکوں میں ٹکسالیں قائم ہیں جہاں ارکانِ سلطنت کے اہتمام سے سونے چاندی کے سکے بنائے جاتے ہیں اور ان کی ہر دو طرف وہاں کے شاہی نشانات وغیرہ لگائے جاتے ہیں اور ان سکوں کے بل پر دنیا کی تجارت کا دھندا چلتا ہے۔
۲۔ زرنقد کا دوسرا مقصد پہلے مقصد سے بطور نتیجے کے پیدا ہوتا ہے۔ یعنی یہ اشیاء کی قدر کا معیار ہے۔ لیکن یہاں ایک اور ضروری سوال پیدا ہوتا ہے۔یعنی زرنقد کی ذاتی قدر کس امر پر منحصر ہے؟ اس سوال کا جواب دینے سے پیشتر یہ ضروری ہے کہ ہم اصطلاح “زرنقد کی قدر” کا مفہوم ذہن نشین کر لیں۔ کیونکہ مل صاحب نے اس اصطلاح کے سمجھنے میں ایک غلطی کھائی ہے، جو اوروں کو بھی دھوکے میں ڈال سکتی ہے۔ تم کو معلوم ہے کسی شے کی قیمت سے مراد اس شے سے ہے جس کا اندازہ زرنقد یا اعتبار سے کیا جاتاہے پر زرنقد کی قدر سے مراد کسی اور شے سے ہے جو اس زرنقد کے عوض میں دی جائے۔ مثلاً کوئی مادی شے یا خدمت ملازمین یا کوئی اور حق ملکیت کا یا کوئی قرضہ وصول کرنے کا۔ اگر زرنقد کی ایک خاص مقدار کے عوض میں کسی شے کی بہت سی مقدار ملے توظاہر ہے کہ زرنقد کی قدر زیادہ ہے۔کیونکہ اس کے عوض میں دیگر اشیاء کی زیادہ مقدار حاصل ہوتی ہے۔ لیکن اگر اس کے عوض میں دیگر اشیاء کی کم مقدار حاصل ہوتو ظاہر ہے کہ زرنقد کی قدر کم ہے۔ پس معلوم ہوا کہ زرنقد کی قدر اور قیمت اشیاء کے درمیان نسبت معکوس ہے یعنی اگر زرنقد کی قدر زیادہ ہو تو قیمت اشیا کم ہوتی ہے اور اگر قیمت اشیاء زیادہ ہو تو زرنقد کی قدر کم ہوتی ہے۔ لیکن مادی اشیاء کی طرح حقوق (مثلاً کسی شخص سے کوئی خاص رقم وصول کرنے کا حق وغیرہ) قرضے اوراعتبارات بھی تجارت کے دائرہ میں لائے جا سکتے ہیں۔ مثلاً فرض کرو کہ الف نے ب سے پانچ سو روپے قرض لیے ہیں۔ ممکن ہے کہ ج الف کو پانچ سو روپے سے کچھ کم رقم ادا کر کے اس سے حق وصولی قرضہ خرید لیوے اور میعاد مقررہ کے بعد یا عندالطلب ب سے پانچ سو روپے وصول کر لیوے۔ لہٰذا ان حقوق اور اعتبارات کی خرید و فروخت کے لیے بھی ویسا ہی پیمانہ مقرر ہے جیسا مادی اشیاء کی خرید و فروخت کے لیے جیسے غلہ کے لیے من کا پیمانہ ، کپڑے کے لیے گز کا۔ اسی طرح سہولت کے لیے زر نا مسکوک کو بھی مختلف پیمانوں میں تقسیم کیا جاتا ہے جن کو سکے کہتے ہیں۔ علیٰ ہذاالقیاس قرضوں اور اعتبارات کی خرید و فروخت کے لیے بھی ایک پیمانہ مقرر ہے۔ یعنی مبلغ سو روپے وصول کرنے کا حق جواب سے ایک سال بعد واجب الادا ہوگا۔ زر نقد کی وہ مقدار جو کسی قرض کا ایک پیمانہ خریدنے کے لیے ادا کی جائے۔ اس پیمانے کی قیمت نقد کہلاتی ہے اور اس کی خرید و فروخت کا بھی وہی حال ہے جو اور اشیاء کا۔ یعنی ایک پیمانہ قرض خرید کرنے کے لیے زر نقد کی مقدار یا قیمت نقد جس قدر کم ادا کرنی پڑے گی اسی قدر زرنقد کی قدر زیادہ ہوگی اور جس قدر زیادہ دینی پڑے گی اسی قدر اس کی قدر کم ہو گی۔ غرض کہ قرضوں اور دیگر حقوق کی خریدو فروخت میں بھی مندرجہ بالا اصول ہی صحیح ہے۔ یعنی زرنقد کی قدر اور قیمت اشیاء کے درمیان نسبت معکوس ہے۔ لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ قرضوں کی خرید و فروخت کی صورت میں معمولاً زرنقد کی قدر کا اندازہ قرضے کی اس مقدار سے نہیں کیا جاتا جو اس کے عوض میں خریدی جا سکے۔ چونکہ زرنقد قدرتاً منافع پیدا کرتا ہے۔ اس واسطے ظاہر ہے کہ کسی ایسے قرضے کی قیمت نقد جو اب سے ایک سال بعد واجب الادا ہوگا، اس قرضے کی اصل مقدار سے کم ہونی چاہیے ورنہ خریدنے والے کو فائدہ ہی کیا ہوگا۔ پس زرنقد کی قدر موجودہ یا قیمت نقد منفی اصل زر یا مقدار قرضہ برابر اس منافع کے ہے جو اس قرضے کے خرید نے سے ہوتا ہے۔ اس فرق کو متی کاٹا کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ اب صاف ظاہر ہے کہ جس قدر کسی قرضے کی قیمت نقد بڑھتی یا کم ہوتی ہے اسی قدر متی کاٹا بھی کم ہوتا یا بڑھتا ہے۔ لہٰذا قرضوں کی خرید وفروخت کے متعلق یہ اصول قائم ہوا کہ زرنقد کی قدر اور متی کاٹا کے درمیان نسبت مستقیم ہے، یعنی قیمت نقد کم ہو تو متی کاٹا زیادہ ہوگا اور قیمت نقد زیادہ ہو تو متی کاٹا کم ہوگا۔ مندرجہ ذیل اصول تجارت کی سب شاخوں یعنی قرضوں اور دیگر حقوق کی خرید و فروخت اور اشیاء مادیہ کی خرید و فروخت پر حاوی ہے۔
زرنقد کی قدر قیمت اشیاء کے ساتھ نسبت معکوس رکھتی ہے اور متی کاٹا کے ساتھ نسبت مستقیم۔
اب تمہاری سمجھ میں آگیا ہوگا کہ اصطلاح زرنقد کی قدر کے دو مفہوم ہیں۔ اشیاء مادیہ اور حقوق وغیرہ کی خرید و فروخت میں تو اس سے مراد قیمت شے یا حق وغیرہ کی اس مقدار سے ہے جو اس کے عوض میں حاصل کی جا سکے اور قرضوں کی خرید وفروخت میں اس کا مفہوم وہ متی کاٹا یا منافع ہے جو کسی شخص کو کوئی قرضہ خریدنے سے حاصل ہو۔
اس توضیح کے بعد ہم اپنے اصل سوال کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ اسی سوال کی وجہ سے زرنقد کی بحث تبادلے کی ذیل میں آتی ہے، ورنہ دیگر اشیا کی طرح اس کا ذکر بھی باب پیدائش دولت میں کیا جاتا۔ صاف ظاہر ہے کہ زرنقد کی قدر دیگر اشیاء کی قدر کی طرح قانون طلب و رسد کے عمل سے متعین ہوتی ہے۔ تم جانتے ہو دنیا کی تجارت زرنقد کے بل پر ہی چلتی ہے۔ پس جس قدر استعمال زرنقد کے مواقع زیادہ ہوں گے، اسی قدر اس کی مانگ یا طلب بھی زیادہ ہوگی۔ ہاں جب زرنقد کا کام اور وسائل سے لیا جائے مثلاً چکوں وغیرہ سے، تو اس کی طلب کم ہو جاتی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ زرکاغذی کا استعمال زر نقد کے مواقع استعمال کو کم کرتا ہے۔ کہیں اس غلطی میںنہ پڑ جانا کہ زرنقد کی مانگ یا طلب کا انحصار کسی قوم کی دولت یا اس کی سالانہ پیداوار دولت کی مقدار پر ہے۔ کیونکہ یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر قسم کی دولت تجارت کے دائرے میں آئے۔ علیٰ ہذاالقیاس اشیاء متبادلہ کی مقدار کو بھی اس مانگ سے کچھ واسطہ نہیں۔ کیونکہ بعض اشیاء کا تبادلہ صرف ایک ہی دفعہ ہوتا ہے اور بعض کا کئی کئی دفعہ ہوتا ہے۔ مزید برآں خصوصاً زراعتی ملکوں میں بسا اوقات افراد اپنا کام زرنقد کی وساطت کے بغیر مبادلہ اشیاء سے ہی چلا لیتے ہیں۔ تم شاید یہ کہو گے کہ جب کسی ملک کا سکہ کھوٹا ہو کر یا کسی اور وجہ سے کم حیثیت ہو کر اپنا اعتبار کھو بیٹھتا ہے، تو وہاں کے لوگ اس سکے سے احتراز کرنے کی خاطر مبادلہ اشیاء سے کام چلا لیتے ہیں یا ضرورت کی اشیاء ایک دوسرے سے بدل کر سکوں کے استعمال سے بچ جاتے ہیں۔ یہ خیال صحیح ہے مگر کسی ملک میں یہاں تک نوبت نہیں پہنچ سکتی کہ زرنقد کا استعمال بالکل جاتا رہے۔ ہر ملک میں بشرطیکہ وہاں کے لوگ وحشی ہ ہوں ، کچھ نہ کچھ بطور زرنقد کے ضرور مستعمل ہوتاہے۔ پس زرنقد کی طلب کسی قوم کی دولت یا اس کی پیداوار اور دولت یا اشیاء متبادلہ کی مقدار سے کوئی تعلق نہیں رکھتی۔ بلکہ اس کا انحصار زرنقد کے مواقع استعمال پرہے، جو خود مختلف ممالک کی تنظیم ، محنت اور دیگر حالات پر منحصر ہیں۔ اس کے علاوہ یہ بھی ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے کہ زرنقد کی مانگ یا طلب محض خیالی امر ہی نہیں ہے، بلکہ یہ ایک حقیقت ہے۔ تم دیکھتے ہو، لوگ روپے کے عوض میں اپنی اشیاء فروخت کرتے ہیں۔ چیزیں دیتے ہیں اور ان کے عوض زرنقد قبول کرتے ہیں۔ رسد اشیاء کی ایک معین مقدار کی صورت میں جس قدر زیادہ اشیاء زرنقد کے عوض میں ملیں گی، اسی قدر زرنقد کی قدر زیادہ ہو گی یا یوں کہو کہ اشیاء کی قیمتیں کم ہوگی اور جس قدر کم اشیاء زرنقد کے عوض میں ملیں گی،اسی قدر زرنقد کی قدر کم ہوگی۔ یا یوں کہو کہ اشیاء کی قیمتیں زیادہ ہو جائیں گی۔
زرنقد کی رسد گویا ایک قسم کی قوت ہے جو زرنقد کے تجارتی مقاصد کو پورا کرتی ہے اور جو اس کی مقدار اور سرعت انتقال سے متاثر ہوتی ہے۔ جس قدر زرنقد کی مقدار زیادہ ہوگی اور جس قدر عجلت سے یہ مقدار دست بدست پھر سکے گی، اسی قدر تجارتی مقاصد باحسن وجوہ اتمام پائیں گے۔ اگر زرنقد کی رسد کم ہو جائے تواشیاء کی قیمتیں کم ہو جائیں گی کیونکہ رسد کی کمی سے زرنقد کی قدر بڑھ جائے گی۔ علیٰ ہذاالقیاس اگر رسد زیادہ ہو جائے تو اشیاء کی قیمتیں زیادہ ہو جائیں گی کیونکہ اس صورت میں زرنقد کی قدر کم ہو جائے گی اور اس کے عوض میں اشیاء کی زیادہ مقدار ہاتھ لگے گی۔
اب زرنقد کے متعلق ایک اور ضروری امر دریافت کرنا چاہتے ہیں۔ یعنی مختلف ممالک اور اقوام کے درمیان زرنقد کی مساوی تقسیم کس طرح ہوتی ہے؟ زرنقد خود بخود ایک ملک سے دیگر ممالک میں منتقل ہوتا ہے اور اس وجہ سے اس کی تقسیم مساوی طور پر ہو جاتی ہے۔ فرض کرو کہ کسی ملک (الف) میں زرنقد کی مقدار وہاں کے لوگوں کی ضرورتوں سے زیادہ ہو گئی ہے۔ ظاہر ہے کہ وہاں اشیاء کی قیمتیں بڑھ جائیں گی۔ کیونکہ زرنقد کی زیادتی سے اس کی قدر کم ہو جائے گی۔ اس صورت میں ب اپنی اشیاء ملک الف میں بھیجے گا۔ کیونکہ وہاں قیمتوں کی زیادتی کی وجہ سے فائدے کی توقع ہے۔ اس طریق سے زرنقد ملک الف سے ملک ب کی طرف منتقل ہوتا جائے گا۔ یہاں تک کہ دونوں ملکوں میں اس کی مقدار مساوی ہوجائے گی۔ لیکن ملک الف میں زرنقد کی افراط کی وجہ سے ایک اور نتیجہ بھی پیدا ہوگا۔ یعنی چونکہ اس کی قدر افراط کے سبب سے کم ہوگی ، اس واسطے عام لوگوں کو زرنقد کے جمع کرنے کی تحریک ہوگی۔ مختلف اقسام کی صنعتوں میں چاندی یا سونے کا استعمال (جیسی صورت ہو) بڑھتا جائے گا۔ چاندی کے گلاس، حقوں کی منہا لیں وغیرہ عام ہو جائیں گی۔ مزید برآں وہاں کے لوگ سکوں کو پگھلا کر زر نامسکوک کی صورت میں ان ممالک کی طرف بھیجنا شروع کر دیں گے جہاں سونے چاندی کی قدر زیادہ ہے۔ ایسے حالات میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر فرضاً ملک الف میںکھرے سکے کے ساتھ ایک کھوٹا یا کم وزن کا سکہ بھی جاری ہو (تم جانتے ہو مختلف ممالک کے سکوں میں کم و بیش اختلاف ہوتا ہے۔ اکثر سکے استعمال سے ہلکے ہو جاتے ہیں) تو ان دونوں میں سے کسی سکے کو جمع کرنے یا پگھلانے یا دیگر ممالک میں بھیجنے کی تحریک ہوگی؟ چونکہ اس ملک میں زرنقد کی افراط ہم نے فرض کر لی ہے ، اس واسطے ظاہر ہے کہ جو سکہ کھرا یا پورے وزن کا ہوگا لوگ اسی کو جمع کریں گے یا پگھلا کر دیگر ممالک میں بھیجیں گے۔ کھوٹے یا کم وزن سکوں کی نسبت خالص اور پورے وزن کے سکوں کا جمع کرنا یا دیگر ممالک کو بھیجنا زیادہ فائدہ مند ہوگا۔ کیونکہ دیگر ممالک میں سکوں کی قدر دھات کی اس مقدار سے متعین ہوتی ہے جو ان میں شامل ہو۔ اسی صداقت کو گریشم صاحب ایک اقتصادی اصول کی صورت میں یوں پیش کرتے ہیں کہ کھوٹا یا ہلکا سکہ کھرے سکے کو دائرہ استعمال سے خارج کر دیتا ہے اور خود اس کی جگہ لے لیتا ہے۔
مگر یاد رکھنا چاہیے کہ یہ اصول اسی صورت میں صادق آئے گا، جب کہ کسی ملک میں زرنقد کی مقدار لوگوں کی ضرورت سے زیادہ ہو۔ اگر ایسا نہ ہو تو ہلکے یا کھوٹے سکوں اور کھرے سکوں کی قوت خرید میں کوئی فرق نہ ہوگا۔ یہ کلیہ مندرجہ ذیل حالات پر صادق آتا ہے۔
الف۔ اگر کسی ملک میں صرف ایک دھات سونے یا چاندی کا کھرا سکہ متداول ہو اور اُس کے ساتھ کوئی مغشوس کھوٹا یا ہلکا سکہ بھی متداول رہنے دیا جائے تو کچھ عرصے میں کھرے سکے کی تمام مقدار دائرہ استعمال سے خارج ہو جائے گی اور اور صرف کھوٹا سکہ ہی استعمال میں رہے گا۔ کھرے سکے کا یا تو لوگ جمع کرتے جائیں گے یا پگھلا کر رکھتے جائیں گے یا دیگر ممالک سے اشیاء ضرورت کے خرید نے میں صرف کرتے جائیں گے۔ ظاہر ہے کہ اگر کسی ملک میں گز کے دو پیمانے جاری ہوں ایک تین فٹ اور ایک دو فٹ کا تو کپڑے کے دکاندار قدرتاً دو فٹ والے پیمانے کے حساب سے اپنا کپڑا فروخت کریں گے۔ یعنی دو فٹ والا گز تین فٹ والے گز کو دائرہ استعمال سے خارج کر دے گا۔
ب۔ اگر کسی ایک ملک میں دو مختلف دھاتوں مثلاً سونے اور چاندی کے سکے ایک غیر محدود مقدار میں اکٹھے متداول ہوں اور قانونی طور پر ان کے درمیان ایک ایسی نسبت مقرر کر دی جائے جو ان کی حقیقی قدروں کی درمیانی نسبت سے مختلف ہو(یعنی کم یا زیادہ ہو) تو جس سکے کی قدر اس کی حقیقی قدر سے کم ہو گی وہ دائرہ استعمال سے خارج ہو جائے گا اور جس کی زیادہ ہوگی وہی متداول رہے گا۔ مثال کے طور پر فرض کرو کہ ایک ملک میں دو سکے غیر محدود مقدار میں متداول ہیں۔ ایک سونے کی مہر اور دوسرا چاندی کا روپیہ اور ان کی اضافی قدر اس طرح پر ہے کہ ایک مہر مساوی بیس روپے کے ہے۔ نیز فرض کرو کہ مہر کی قانونی قدر بیس روپیہ ہے یا بالفاظ دیگر بیس روپے کو چلتی ہے لیکن اس میں سونا اٹھارہ روپے کا ہے۔ علیٰ ہذاالقیاس چاندی کے روپے کی قانونی قدر اس کی حقیقی قدر سے کم ہے تو اس صورت میں اصول مندرجہ بالا کی رو سے روپیہ کا سکہ دائرہ استعمال سے خارج ہو جائے گا اور صرف مہر متداول رہے گی۔ لوگ اپنی خرید و فروخت اور قرضوں کی ادائیگی قدرتاً مہر کی وساطت سے کریں گے۔ کیونکہ اس کی اصل قدر تو اٹھارہ روپے ہے اور کام بیس روپے کا دیتی ہے۔ چاندی کے سکوں کو لوگ پگھلا کر زر نامسکوک کی صورت میں جمع کریں گے یا دیگر ممالک میں بھیجیں گے۔ کیونکہ ان کی قدر دھات کی اس مقدار سے متعین ہوگی جو ان میں شامل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ۱۷۶۶ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے بنگال میں چاندی کے سکے کے ساتھ سونے کا سکہ بھی جاری کیا، تو اس کارروائی میں ناکامیابی ہوئی اور سکہ مذکور چل نہ سکا۔کیونکہ کمپنی کی مہر کی قانونی قدر چودہ روپیہ کے برابر مقرر کی گئی تھی، جو اس کی حقیقی قدر سے بہت کم تھی۔ ۱۷۶۹ء میں کمپنی مذکور نے پھر ایک طلائی مہر جاری کی لیکن پھر ناکامی ہوئی۔ آخر کار یہ فیصلہ ہوا کہ بنگال میں صرف ایک ہی دھات کا سکہ متداول رہنا چاہیے اور اس غرض کے لیے چاندی انتخاب کی گئی۔ اب کچھ عرصہ سے سرکار ہند نے اس ملک میں سونے کا سکہ بھی متداول کر دیا ہے جس کی وجہ ابھی معلوم ہوگی۔
ج۔ مندرجہ بالا دو مقدمات سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اگر ایک ملک میں سونے کا سکہ متداول ہو اور دوسرے میں چاندی کا، تو ان کے درمیان ایک ہی نسبت تبادلہ قائم نہیں رہ سکتی۔ بلکہ چاندی اور سونے کی قیمت کے تغیر کے ساتھ ساتھ متغیر ہوتی رہتی ہے وجہ یہ ہے کہ سکے خواہ سونے کے ہوں خواہ چاندی کے ہوں، خارجی ممالک میں اپنی حقیقی قدر کے لحاظ سے قبول کئے جاتے ہیں۔ ہمارے ملک کے روپے کی حقیقی قدر صرف گیارہ آنے کے برابر ہے۔ اگرچہ قانوناً اس کی قدر سولہ آنے کے برابر مقرر کی گئی ہے۔ ظاہر ہے کہ ہندوستان میں تو ہر شخص اسے سولہ آنے کے عوض میں قبول کرے گا۔لیکن کوئی وجہ نہیں کہ دیگر ممالک کے لوگ بھی اس کے عوض میں سولہ آنے ہی دیں۔ وہ اس کے بدلے اس کی حقیقی قدر یعنی گیارہ آنے ہی ادا کریں گے۔
یہ کلیہ اصول جو ہم نے بیان کیا ہے علم الاقتصاد کی کتابوں میں قانون گریشم کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ اس کے نتائج بڑے اہم ہیں اور یہ ایک بڑی ضروری اقتصادی بحث میں کام آتا ہے۔ محققین کے درمیان یہ بحث مدت سے چلی آتی ہے کہ آیا تمام دنیا کے ممالک کو یا کسی ایک ملک کو ایک ہی دھات کا سکہ بطور معیار قدر کے متداول رکھنا چاہیے یا اقتصادی لحاظ سے دو مختلف دھاتوں کے سکے بطور معیار قدرکے اکٹھے متداول رہ سکتے ہیں۔ ایک فریق تو یہ کہتا ہے کہ تمام ملک یا کسی ایک ملک میں اصل معیار قدر تو ایک ہی رہنا چاہیے جس سے سرکار اور تجارت کے بڑے بڑے معاملے طے ہوا کریں لیکن روز کی معمولی چھوٹی چھوٹی خرید و فروخت کے لیے اور دھاتوں کے سکے متداول رہنے چاہئیں۔ دوسرا فریق یہ کہتا ہے کہ دو مختلف دھاتوں کے سکے بطور معیار قدر کے متداول رہ سکتے ہیں اور رہنے چاہئیں۔
اس طریق عمل میں اقتصادی لحاظ سے کوئی نقصان نہیں ہے۔ بشرطیکہ مختلف ممالک اتفاق کر کے دونوں دھاتوں کی اضافی قدروں کے درمیان ایک خاص نسبت مقرر کر دیں۔ اس طویل مگر ضروری بحث کو ہم یہاں چھیڑنا نہیں چاہتے، لیکن اس قدر ظاہر ہے کہ قانون مذکورہ بالا کی رو سے دونوں دھاتوں کی اضافی قدروں کے درمیان کوئی نسبت مقرر نہیں رہ سکتی بلکہ چاندی اور سونے کی قدروں کے تغیر کے ساتھ ساتھ متغیر ہوتی رہتی ہے۔ تم شاید یہ کہو گے کہ سرکار ہند نے اس صحیح اصول کے خلاف کیوں عمل کیا ہے؟ یعنی ہندوستان میں کیوں دو معیار قدر جاری ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ سونے کا سکہ عام استعمال کے لیے نہیں ہے۔ ہم پہلے اشارۃً ذکر کر آئے ہیں کہ ہمیں انگلستان کو جو رقم سالانہ ادا کرنی پڑتی ہے،وہ پونڈوں کے حساب سے دینی ہوتی ہے۔ اس واسطے جب چاندی کی قدر میں کسی باعث سے کمی ہو جاتی تھی (بالعموم سونے کی نسبت چاندی کی قدر میں زیادہ تغیر آتے ہیں) تو ہمارے ملک کی مالگذاری کو نقصان پہنچتا تھا۔ کیونکہ جہاں پہلے ایک پونڈ کے عوض دس روپے دینے پڑتے تھے، چاندی کی قدر کم ہو جانے کی وجہ سے ایک پونڈ کے عوض میں ۱۵ روپے دینے پڑتے تھے۔ اس کے علاوہ بڑے بڑے تاجروں کو بھی نقصان پہنچتا تھا۔ اسی دقت کو محسوس کر کے ہماری سرکار نے یہاں بھی سونے کا سکہ جاری کر دیا۔ چونکہ یہ سکہ عام طور پر مستعمل نہیں ہے اور ہو ہی کس طرح سکتا ہے؟ کیونکہ اس ملک کے لوگ اس قدر غریب ہیں کہ یہاں کوڑیاں بھی بطور سکے کے مستعمل ہوتی ہیں۔ اس واسطے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے ملک میں ایک ہی معیار قدر یعنی چاندی کا روپیہ جاری ہے۔ اس طریق عمل سے ہم ان نقصانات سے جو ایک ہی معیار قدر کے تداول سے پیدا ہوتے ہیں مامون ہیں۔ لیکن وہ بڑے بڑے فوائد جو دو معیار قدرکے تداول سے پیدا ہوتے ہیں ہمیں حاصل ہیں۔
۳۔ تیسرا مقصد زر نقد کا یہ ہے کہ نقد مذکور ادائیگی غیر موجل کا معیار ہے۔ فرض کرو کہ الف اور ب نے آپس میں ایک معاہدہ کیا ہے۔ الف نے ب کو کسی قسم کا سامان دیا ہے اور ب اس کے عوض میں معاہدہ کرتا ہے کہ بیس سال کے بعد دس ہزار روپیہ اس سامان کے عوض میں ادا کرے گا۔ فرض کرو کہ اس عرصہ میں روپیہ کی قدر میں ایک بہت بڑا تغیر آ گیا ہے، یعنی جو چیز معاہدہ کے وقت آٹھ آنے کی بکتی تھی، اب ایک روپیہ کو ملتی ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ قرض کی ادائیگی میں الف گھاٹے میں رہے گا اور ب بہت فائدہ میں۔ اس قسم کی اور صورتوں کے لحاظ سے یہ ضروری ہے کہ معیار قدر کوئی ایسی شے ہونی چاہیے جس کی قدر میں تغیر نہ آتا ہو یا کمی بیشی نہ ہوتی ہو۔ ایسی شے تو شاید دنیا بھر میں کوئی نہ ملے۔ ہاں بعض اشیاء کی قدر میں دیگر اشیاء کی نسبت کم تغیر آتا ہے انہی میں سے سونا اور چاندی دو دھاتیں ہیں، جو بالعموم اپنی قدر میں یکساں رہتی ہیں۔ اگرچہ بعض دفعہ ان کی قدر میں بھی تغیر ہو جانے سے دقتوں کا سامنا ہوا ہے۔ تاہم نسبتاً ان کی قدر تغیر سے آزاد رہتی ہے۔ لہٰذا یہ ان قرضوں کی ادائیگی کی صورت میں بھی کام دے سکتی ہیں جن میں مدت کو دخل ہے۔ بعض محققین ان مشکلات سے بچنے کے لیے جو زرنقد کی قدر کے تغیر سے پیدا ہوتی ہیں یہ تجویز کرتے ہیں کہ ادائیگی غیر معجل یا ایسی ادائیگی کی صورت میں جس میںمدت کو دخل ہے، معیار قدر غلہ کو قرار دینا چاہیے۔ مگر یہ رائے قرین صواب نہیں معلوم ہوتی۔ کیونکہ عام لوگوں کو سونے چاندی کے ساتھ ایک خاص قسم کا انس اور دل بستگی پیدا ہو گئی ہے، جس کا دور کرنا مشکلات سے ہے۔ بعضوں نے ان مشکلات سے بچنے کی اور تجاویز بھی پیش کی ہیں، جن کا اس کتاب میںبیان کرنا کچھ ضروری معلوم نہیں ہوتا۔
باب ۴
حق الضرب
اس باب میں ہم ایک سوال پر بحث کرنا چاہتے ہیں جس کا فیصلہ گزشتہ اقتصادی اصولوں پر انحصار رکھتا ہے لیکن مبتدی کو خبردار رہنا چاہیے کہ یہ سوال نہایت پیچیدہ ہے اور اس کا پورا مفہوم سمجھنے میں بڑے بڑے غلط استدلالات سے کام لیا گیاہے۔ لہٰذا اس خارستان میں قدیم رکھنے سے پیشتر اپنا دامن سنبھال لینا چاہیے اور ان تمام گڑھوں سے واقف ہو جانا چاہیے، جنہوں نے دنیا کے بڑے بڑے تجربہ کار منطقیوں اور مصنفوں کو منہ کے بل گرا دیا ہے۔ ایک محقق تحریر فرماتے ہیں کہ جو مصنف زر نقد کے خطرناک مضمون کو چھوتا ہے، وہ ہر لحظہ معرض خطر میں ہے کیونکہ استدلال اغلاط شیر اور چیتوں کی طرح اس کے گھات میں لگے رہتے ہیں۔ اس اندیشہ کو مد نظر رکھ کر ہم اس بحث کو ایک اقتصادی اصطلاح کی تشریح سے شروع کرتے ہیں۔ کیوں کہ اس دقیق مضمون کی تفہیم کے لیے یہی راہ آسان اور محفوظ معلوم ہوتی ہے۔ مبتدی کو لازم ہے کہ ہر جملے اور اصطلاح کے معانی کا مل طور پر ذہن نشین کرتا جائے، ورنہ وہ اس اہم اقتصادی بحث کی غرض و غایت اور اس کے نتائج سے پوری آگاہی حاصل نہ کر سکے گا۔
ہر ملک میں یہ امر قانونی طور پر فیصلہ پاتا ہے کہ زر نامسکوک یا سونے چاندی کی کسی خاص مقدار کے کس قدر سکّے گھڑے جائیں۔ مثلاً انگلستان کے موجود وہ قانون کی رُو سے ۴۰ پونڈ سونے کے ۱۸۶۹ سکّے بنائے جاتے ہیں، جو ساورن کے نام سے موسوم کئے جاتے ہیں۔ سکّوں کی یہ تعداد جن میں زرنا مسکوک کی کوئی مقدار قانوناً منقسم کی جاتی ہے اس مقدار کی قیمت ضربی کہلاتی ہے۔ اس تعریف سے ظاہر ہے کہ جب تک کوئی سکّہ قانونی لحاظ سے پورے وزن کا ہو اس کی قدر ہمیشہ اپنے وزن زرنامسکوک کی قدر کے مساوی ہوتی ہے۔ لیکن ظاہر ہے کہ کچھ عرصہ کے روز مرّہ استعمال سے سکوں کا وزن قانونی سے کم ہو جاتاہے۔ بالعموم خرید و فروخت میں لو گوں کواس کی پروا نہیں ہوتی کہ کوئی سکہ وزن کا پورا ہے یا کم ہے۔ اس واسطے ممکن ہے کہ بہت عرصہ تک متداول رہنے سے بعض سکّوں کا وزن سے کم ہو جائے اور بیع و شریٰ میں ان کی قدر وہی تصور کی جائے جو قانوناً مقرر ہے۔ مثلاً فرض کرو کہ کسی سکّے میں سولہ آنے کی چاندی ہے اور سولہ آنے کو ہی چلتا ہے۔ ممکن ہے کہ کثرت استعمال سے اس کا وزن کم ہو جائے یعنی اس کی چاندی پندرہ آنے کی رہ جائے لیکن بیع و شریٰ میں سولہ آنے کو ہی چلتا رہے۔ عام خرید و فروخت میں سکوں کے وزن کی کمی کچھ اثر نہیں کرتی۔ لیکن جب ان کا تبادلہ زرنامسکوک سے کیا جائے تو یہ اثر ظاہر ہوتا ہے۔ کیونکہ اس صورت میں زر نامسکوک اس قدر ملے گی جس قدر سکوں کا موجودہ وزن ہے۔ اگر کثرت استعمال سے ان کا وزن قانونی وزن سے کم ہو گیا ہے تو ظاہر ہے کہ زر نامسکوک کی کوئی خاص مقدار تبادلے میں لینے کے لیے سکوں کی زیادہ تعداد دینی پڑے گی۔ پس متداول سکوں کی وہ تعداد جو حقیقی طور پر زر نامسکوک کی کسی مقدار کی ہم وزن ہے۔ مقدار مذکور کی قیمت متعارف کہلاتی ہے اور چونکہ کمی وزن کی صورت میں زر نامسکوک کی کسی مقدار کے عوض میں متداول سکوں کی زیادہ تعداد دینی پڑتی ہے۔ اس واسطے ظاہر ہے کہ قیمت متعارف قیمت ضربی سے زیادہ ہوگی۔ مثلاً فرض کرو کہ چاندی کی قیمت ضربی پانچ شلنگ دو پنس اونس ہے اور قیمت متعارف چھ شلنگ ہے۔ اس کے یہ معنی ہیں کہ سکّہ متداول کے چھ شلنگ زر نامسکوک کی مقدار کے ہم وزن ہیں، جس کاہم وزن پانچ شلنگ دو پنس کو ہونا چاہیے تھا۔ اگر ان کا وزن کثرت استعمال کے باعث قانونی وزن سے کم نہ ہو جاتا۔ لہٰذا ظاہر ہے کہ زر نامسکوک کی قیمت متعارف کا اس کی قیمت ضربی سے بڑھ جانا سکّے کی کم قدر ہو جانے پر دلالت کرتا ہے۔ اس توضیح سے سکّہ زنی کے متعلق دو ضروری اصول پیدا ہوتے ہیں۔
الف۔ جب زر نامسکوک کی قیمت متعارف اس کی قیمت ضربی سے بڑھ جاتی ہے، تو اس سے صرف یہی ثابت نہیں ہوتا کہ سکّے کی قدر کم ہو گئی ہے، بلکہ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ سکّہ مذکور کی قدر کہاں تک کم ہوتی ہے۔ بالفاظ دیگر یوں کہو کہ (زر نامسکوک کی قیمت متعارف۔ زر نامسکوک کی قیمت ضربی) = اس وزن کے ہے جو سکّہ متداول کی کثرت استعمال سے زائل ہو گیا ہے۔
ب۔ قیمت ضربی کی تعریف سے مندرجہ ذیل اصول بطور نتیجے کے پیدا ہوتا ہے۔ زر نامسکوک کی قیمت ضربی کا بدلنا حقیقت میں سکوں کے قانونی وزن کا بدلنا ہے۔
اگر کوئی شخص یہ کہے کہ زر نامسکوک کی قیمت ضربی مختلف حالات میں مختلف ہو سکتی ہے، تو یہ صریحاً غلط ہے۔ کیا اگر ایک من شراب کو جو کسی مٹکی میں رکھی ہو، بہت سے بوتلوں میں ڈال دیا جائے تو شراب کی مقدار بدل جائے گی؟ ہر گز نہیں۔ بہت سے حصوں میں منقسم ہو جانے سے اس کی مقدار میں فرق نہیں آ سکتا۔
اس تشریح کے بعد اب ہم اصل مطلب کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ تم کو شاید معلوم ہے کہ سرکار سکّہ زنی کے متعلق ایک خاص قسم کا حق رکھتی ہے جس کو حق الضرب کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ اس حق سے مراد زر نامسکوک کی اس مقدار سے ہے جو سرکار بطور مصارف سکہ زنی کے لیتی ہے۔ مثلاً فرض کرو کہ ایک روپے کے مصارف سکّہ زنی دو آنے ہیں۔ سرکاری ٹکسال دو آنے وضع کرنے کی خاطر روپے میں چودہ آنے کی چاندی ڈال کر اپنے مصارف سکّہ زنی نکال لے گی۔ مگر یاد رکھنا چاہیے کہ حق الضرب دو قسم کا ہوتا ہے۔
۱۔ جب کہ حق الضرب مصارف سکّہ زنی کے برابر ہو۔ اس صورت میں سرکار کو کچھ فائدہ نہیں ہوتا۔ کیونکہ جس قدر سرکار کا خرچ ہوتا ہے اسی قدراسے ملتا ہے۔ بعض ممالک میں حق الضرب بالکل نہیں لیا جاتا۔ مثلاً انگلستان کی ٹکسال پونڈ میں پورے بیس شلنگ کی قیمت کا سونا ڈالتی ہے۔ بعض ممالک میں رعایا کو یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ حق الضرب ادا کرکے یا اس کے بغیر جیسا قانون ہو سرکاری ٹکسال سے اپنے سونے یا چاندی کے ٹکڑے سکوں کی صورت میں منتقل کروا لے۔ چنانچہ انگلستان میں سونے کے سکوں کے متعلق رعایا کو یہ حق حاصل ہے کہ بغیر حق الضرب ادا کرنے کے سونے کے ٹکڑوں کو ٹکسال سے پونڈوں کی صورت میں منتقل کروالیں۔ ۱۸۹۴ء سے پہلے ہندوستان کی رعایا کو بھی یہ حق حاصل تھا۔ اب کسی خاص مصلحت کی وجہ سے جس کا ذکر ابھی آئے گا۔ اس ملک کی ٹکسال رعایا کے لیے بند ہے اور سرکار صرف اسی قدر سکے بناتی ہے جس قدر اس ملک کی ضروریات کے لیے کافی ہو۔
۲۔ جب کہ حق الضرب مصارف سکہ زنی سے زیادہ ہو۔ اس صورت میں سرکار سکہ زنی سے فائدہ اٹھاتی ہے۔ مثلاً ہمارے ہندوستان میں روپیہ سولہ آنے پر چلتا ہے۔ حالانکہ اس میں چاندی صرف گیارہ آنے کی ہوتی ہے۔ گویا سرکار کو فی روپیہ پانچ آنے فائدہ ہوتا ہے۔ علیٰ ہذالقیاس ایک پیسے میں تانبا شاید سات کوڑی کا بھی نہ ہوتا ہو۔ ہم ان دونوں طریقوں پر بالترتیب بحث کریں گے۔
اوّل صور ت میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا کسی سکے کی قدر زر نامسکوک کی اس مقدار کی قدر کے مساوی ہونی چاہیے جو اس سکے میں شامل ہے۔ یا مقدار مذکور کی قدر میں مصارف سکہ زنی بھی شامل ہونے چاہئیں۔ بالفاظ دیگر یوں کہوںکہ اگر ایک روپیہ کے مصارف سکہ زنی دو آنے ہوں۔ تو کیا روپے میں ۱۴ آنے کی چاندی ڈال کر اس کی قدر ۱۶ آنے کی برابر ہی مقرر کرنی چاہیے یا ۱۶ آنے کی چاندی ڈال کر اس کی قدر ۱۶ آنے کے برابر ہی مقرر کرنی چاہیے۔ ظاہر ہے کہ پہلی صورت میں سرکار کو اپنے مصارف سکّہ زنی کا بابت ۲ آنے مل جائیں گے۔ مگر دوسری صورت میں یعنی جب کہ روپے میں ۱۶ آنے کی چاندی ہو سرکار کو بطور مصارف سکّہ زنی کچھ ملے گا۔ یہ ایک بحث طلب معاملہ ہے۔ بعض حکماء کہتے ہیں کہ سرکار کو کچھ حق ضرب نہ لینا چاہیے۔ یا یوں کہو کہ ن کی نزدیک مصارف سکّہ زنی کی خاطر اس کی حقیقی قدر سے زیادہ قدر پر چلانا اقتصادی لحاظ سے مضر ہے۔ مگر بعض حکماء کے نزدیک مصارف سکّہ زنی کے برابر حق ضرب لے لینے میں کوئی ہرج نہیں۔ ان کے دلائل مندرجہ ذیل ہیں۔
۱۔ ایک قینچی کی قیمت اس کے ہم وزن لوہے کی قیمت سے زیادہ ہوتی ہے، اس واسطے کوئی وجہ نہیں کہ کسی سکّے کی قدر اپنے ہم وزن زر نامسکوک کی قدر سے زیادہ نہ ہو۔ سونا یا چاندی اپنی نامسکوک حالت میں اس قدر مفید نہیں ہوتے، جس قدر کہ سکوں کی صورت میں ہوتے ہیں۔ لہٰذا عقلاس امر کی متقضی ہے کہ جب زر نامسکوک سکوں کی صورت میں منتقل کر دیا جائے، تو اس کی قدر بھی بڑھ جائے گی، جیسا کہ لوہے کے ٹکڑے کی قدر ایک زنجیر یا تلوار کی صورت میں منتقل ہو جانے سے بڑھ جاتی ہے۔
۲۔ اگر کوئی حق ضرب نہ لیا جائے یا بالفاظ دیگر یوں کہو کہ اگر سکّے کی قدر زر نامسکوک کی قدر کے برابر ہو جو اس میں شامل ہے، تو عوام کو جب زر نامسکوک کی ضرورت لاحق ہو گی سکوں کو پگھلا لیا کریں گے اور جب سکوں کی ضرورت ہو گی اسی زر نامسکوک کو سرکاری ٹکسال سے پھر سکوں کی صورت میں منتقل کرا لیا کریں گے۔ یہ عمل بار بار ہوتا رہے گا۔ جس سے سرکار کو بے جا نقصان ہوگا۔ کیونکہ سرکار کو بغیر مصارف سکّہ زنی لیے سکے بنانے پڑیں گے۔ یہ دلیل واقعی زبر دست ہے مگر باوجود اس بات کے دنیا کے بعض بڑے بڑے تجارتی ملک مثلاً انگلستان وغیرہ حق ضرب نہیں لیتے۔ وجہ یہ ہے کہ اس میں بھی ایک فائدہ ہے اور وہ یہ ہے کہ جب انگلستان میں سکّے کی مقدار تجارتی ضرورتوں سے زیادہ ہو جاتی ہے(تجارتی ملکوں میں اکثر ایسا ہو جاتا ہے) تو اس افراط کے باعث ان کی قدر کم ہونے نہیں پاتی۔ یا یوں کہو کہ انگلستان میں اشیاء کی قیمتیں زیادہ نہیں ہونے پاتیں کیونکہ سکوں کی یہ غیر ضروری مقدار فوراً دیگر ممالک کی طرف خود بخود منتقل ہو جاتی ہے اور دیگر ممالک کے لوگوں کو اس کے قبول کرنے میں کوئی عذر نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ عذر تو اس صورت میں ہو سکتا ہے جب کہ اس کی قدر اپنے ہم وزن زر نامسکوک کی قدر سے زیادہ ہو۔ دیگر ممالک کے نزدیک جیسا زر نامسکوک ویسا انگلستان کا زر مسکوک۔ مثلاً اگر کابل کے سکے میں دس آنے کی چاندی ہو اور وہ دس آنے پر ہی چلتا ہو۔ یا یوں کہو کہ کابل حق ضرب نہ لیتا ہو، تو ہندوستان کے لوگوں کو بشرطیکہ ان کی چاندی کی ضرورت ہو، اُسے دس آنے پر خریدنے میں کیا عذر ہو سکتا ہے؟ غرض کہ انگلستان حق ضرب نہ لینے سے زر نقد کی افراط کے برے نتائج سے بچ جاتا ہے۔ دوسری صورت میں حق ضرب چونکہ مصارف سکہ زنی سے زیادہ ہوتا ہے اس واسطے سرکار ٹکسال کے اجرا سے فائدہ اٹھاتی ہے اکثر ممالک کے بادشاہوں نے اس طریق عمل سے بے انتہا فائدہ اٹھایا ہے مگر پیشتر اس کے کہ ہم اس پر کوئی رائے زنی کریں ایک نہایت ضروری اقتصادی اصول کا ذہن نشین کرنا ضروری ہے۔ تم کو معلوم ہے کہ اشیا کی قیمت طلب و رسد کی مساوات سے متعین ہوتی ہے۔ لہٰذا کوئی وجہ نہیں کہ سونا اور چاندی جو اشیاء میں داخل ہیں اس کلیہ قانون کے دائرہ عمل سے خارج ہوں۔ جب سونے چاندی کی مقدار ضرورت سے بڑھ جائے گی تو ان کی قدر ضرور کم ہو گی اور جب ان کی مقدار ضرورت سے کم ہو جائے گی، تو ظاہر ہے کہ ان کی قدر زیادہ ہوگی۔ سکے جو سونے اور چاندی سے بنائے جاتے ہیں ان کا بھی یہی حال ہے کہ افراط کی صورت میں ان کی قدر کم ہوتی ہے اور کمی کی صورت میں ان کی قدر بڑھتی ہے۔ فرض کرو کہ کسی ملک میں زر نقد کی مقدار اس ملک کی تجارتی ضروریات سے بہت کم ہے۔ ظاہر ہے کہ اس صورت میں زر نقد کی قدر بسبب کمی رسد کے بڑھ جائے گی یا بالفاظ دیگر اشیا کی قیمت کم ہو جائے گی اور تجارتی کاروبار نہ چل سکے گا۔ لیکن اگر کسی تدبیر سے زر نقد کی موجودہ مقدار نہایت تیزی اور سُرعت کے ساتھ ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں منتقل ہو سکے، تو تجارتی کاروبار بلا روک ٹوک چلتے جائیں گے اشیاء کی قیمت اصلی حالت پر عود کر آئے گی اور مزید زر نقد کی ضرورت لاحق نہ ہو گی پس ایسے ملک کے تجارتی مقاصد آسانی کے ساتھ پورے نہیں ہو سکتے، جب تک اس ملک میں زر نقد کی مقدار زیادہ نہ ہو۔ یا کوئی صورت اختیار کی نہ استعمال کی جائے یا اگر ایسا نہ ہو سکتا ہو تو کسی طرح مقدار موجودہ میں سرعت انتقال نہ پیدا ہو۔ کیونکہ سرعت انتقال بھی ایک طرح کی ازدیادی زر نقد ہے۔ جو سکہ پہلے ایک دفعہ استعمال ہوتا تھا ممکن ہے کہ سرعت انتقال کی صورت میں دس دفعہ استعمال ہو یا یوں کہو کہ اس طریق سے ایک سکہ وہی کام کر سکتا ہے جو ازدیادی زر نقد کی صورت میں دس سکوں کی وساطت سے پورا ہوتا۔
گویا زر نقد کی سرعت انتقال کا زیادہ ہونا ایک طرح سے زر نقد کی مقدار کا زیادہ ہونا یا بالفاظ دیگر زر نقد کی قدر کا کم ہونا ہے اور اشیا کی قیمت کا بڑھنا ہے علیٰ ہذالقیاس زر نقد کی قدر کی زیادتی اس کی مقدار اور سرعت انتقال اور قیمت اشیاء کی کمی پر دلالت کرتی ہے۔ لہٰذا جب کسی ملک میں زر نقد کی مقدار تجارتی ضروریات سے کم ہو تو اس کا اعلاج یہی ہو سکتا ہے کہ مقدار کو زیادہ کیا جائے یا کسی تدبیر سے زر نقد کی سرعت انتقال زیادہ ہو جائے۔ لیکن جب کسی ملک میں زر نقد کی مقدار تجارتی ضروریات سے بہت بڑھ جائے یا یوں کہو کہ اشیاء کی قیمتیں بڑھ جائیں، تو اس کا کیا علاج؟ اس کا سیدھا جواب یہ ہے کہ زر نقد کی رسد کو محدود کر دیا جائے۔ ۱۸۹۴ء میں پہلے ہمارے ملک میں نئی کانوں کے دریافت ہونے اور ٹکسال کے عام طور پر کھلا ہونے سے روپے کی قدر بہت کم ہو کر ۱۳ پنس کے برابر رہ گئی تھی، جس سے ملک میں اشیاء کی قیمتیں بڑھ گئیں اور سرکار کی مالگذاری کو نقصان ہونے لگا۔ کیوں کہ جو روپیہ ہمیں انگلستان کی پنشنوں ، تنخواہوں اور دیگر مصارف حکومت کی بابت دینا پڑتا ہے وہ مالگزاری میںسے ہی ادا کیا جاتا ہے۔ ایک پونڈ کے لیے جہاں پہلے دس روپے پرتے تھے چاندی کی قدر کم ہو جانے کی وجہ سے سولہ روپے دینے پڑے۔ کیونکہ ہم کو یہ روپیہ سونے کے سکّے میں ادا کرنا پڑتا ہے۔ اس کا علاج سرکار ہند نے یہ کیا کہ زر نقد کی رسد محدود کر دی یعنی ٹکسالیں بند کرد یں۔ آج کل رعایا کو یہ حق حاصل نہیں کہ چاندی کے ٹکڑے دے کر سرکاری ٹکسال سے روپیہ بنوالے۔ بلکہ سرکار ملک کی تجارتی ضرورتوں کو مدنظر رکھ کر خود روپیہ بناتی ہے۔ اس تجویز کی اگرچہ اس وقت مخالفت کی گئی تھی، لیکن اس کی عمدگی اس کے اثر سے ظاہر ہے۔ یعنی ہمارا روپیہ اب ۱۳ پنس کی جگہ ۱۶ پنس کے برابر ہو گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جو شے معیار قدر مقرر کی جائے اس کی قدر کا متغیر ہو جانا تمام تجارتی انتظام کو درہم برہم کر دیتا ہے۔