عمر پس ماندہ کچھ دلیل سی ہے

عمر پس ماندہ کچھ دلیل سی ہے
by غلام علی ہمدانی مصحفی
316365عمر پس ماندہ کچھ دلیل سی ہےغلام علی ہمدانی مصحفی

عمر پس ماندہ کچھ دلیل سی ہے
زندگانی بھی اب قلیل سی ہے

گریہ کرتا ہوں کیا میں نذر حسین
آنسوؤں کی جو اک سبیل سی ہے

چل دلا وہ پتنگ اڑاتا ہے
ابھی آنے میں اس کے ڈھیل سی ہے

لوگ کرتے ہیں وصف نور جہاں
میں نے دیکھا وہ زن تو فیل سی ہے

کس کے مژگاں نے یہ کیا جادو
میرے دل میں گڑی جو کیل سی ہے

تو گر آوے شکار ماہی کو
چشم تر آنسوؤں سے جھیل سی ہے

اس کو صحبت کا گر دماغ نہیں
طبع اپنی بھی کچھ علیل سی ہے

دل مرا مصر حسن ہے تب تو
ندی آنکھوں کی رود نیل سی ہے

ہے جو یہ مصحفیؔ کی ہم خوابہ
ہے تو اچھی پہ کچھ اصیل سی ہے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.