عمر پس ماندہ کچھ دلیل سی ہے
عمر پس ماندہ کچھ دلیل سی ہے
زندگانی بھی اب قلیل سی ہے
گریہ کرتا ہوں کیا میں نذر حسین
آنسوؤں کی جو اک سبیل سی ہے
چل دلا وہ پتنگ اڑاتا ہے
ابھی آنے میں اس کے ڈھیل سی ہے
لوگ کرتے ہیں وصف نور جہاں
میں نے دیکھا وہ زن تو فیل سی ہے
کس کے مژگاں نے یہ کیا جادو
میرے دل میں گڑی جو کیل سی ہے
تو گر آوے شکار ماہی کو
چشم تر آنسوؤں سے جھیل سی ہے
اس کو صحبت کا گر دماغ نہیں
طبع اپنی بھی کچھ علیل سی ہے
دل مرا مصر حسن ہے تب تو
ندی آنکھوں کی رود نیل سی ہے
ہے جو یہ مصحفیؔ کی ہم خوابہ
ہے تو اچھی پہ کچھ اصیل سی ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |