عمر گذری ہوچکا آسودگی کا روزگار

عمر گذری ہوچکا آسودگی کا روزگار
by میر تقی میر
314983عمر گذری ہوچکا آسودگی کا روزگارمیر تقی میر

عمر گذری ہوچکا آسودگی کا روزگار
رنج و محنت کے تئیں آرام سے ہے ننگ و عار
معرکہ ہے یک طرف دونوں ہوئے ہیں سامنے
زخم دل کی یہ ہنسی وہ گریۂ بے اختیار
مجہلہ ہے گتھ رہے یک طرف ہیں کتنے جو یہ
صبر سے بے طاقتی دل اور درد بے شمار
عاشقی جب کی تھی میں نے تب نہ تھیں یہ خواریاں
کیا کہوں کیا کچھ دکھاتا ہے مجھے اب ہجر یار
سینہ دیکھو چاک منھ ناخن سے سب نوچا ہوا
آنکھیں دیکھو ڈوبی خوں میں جی کو دیکھو بے قرار
اے کہ گفتی عشق را درماں بہ ہجراں کردہ اند
کاش می گفتی کہ ہجراں را چہ درماں کردہ اند

اک کنارے وے تو جو ہیں گے زمیں کے زیر یاں
خاک پر بسمل پڑے ہیں کیسے کیسے شیر یاں
دو قدم پر ہے یہ ہنگامہ ترے کوچے کے بیچ
آ شتابی کچھ نہیں لگنے کی تجھ کو دیر یاں
منھ پہ کھانے والے تلواروں کے بھوکے موت کے
سینکڑوں یک جا ہیں وے جینے سے تھے جو سیر یاں
دھڑ نہیں سر ہی پڑا ہے سر نہیں تو دھڑ ہی ہے
ہیں زیارت کردنی صد کشتۂ شمشیر یاں
غم زدے بے خانماں بے وارثے بیکس غریب
زخموں کے دامن لے منھ پر ہو رہے ہیں ڈھیر یاں
گر تو ہم آئی پئے طوف شہیداں دور نیست
گریہ می آید دریں جا راہ چنداں دور نیست

لے لپیٹ ایک آن میں وحشت سے یہ سارا جہاں
خاک اڑا ہر ایک دم میں کارواں در کارواں
تیرہ کر عالم کو رہ سرمایۂ گرد و غبار
چشم ما روشن تو ہو آوارۂ کون و مکاں
یمن بخشے طے کیا کرنا زمیں کا تیرے تیں
کھینچنا سر کا مبارک ہو تجھے تا آسماں
لیکن اتنا بھی برآشفتہ نہ ہوجانا کہیں
پیش رو رکھتے ہیں سارے خاطر واماندگاں
سو خدا ناکردہ ہم کہتے نہیں اس راہ سے
کوئی دم وقفہ کرے یا دیر ہووے تجھ کو یاں
یک قدم اے گرد باد دامن صحرا بایست
در قفا ماندہ ست مشت خاک ما تنہا بایست

گرچہ ہجراں میں ترے جاتا تھا جی میرا چلا
پر یہ تھا دل میں کہ شاید دیوے تو داد وفا
وصل خاطرخواہ تو معلوم تھا میرے تئیں
آس دل کو لگ رہی تھی جب تلک تھا میں جدا
گاہ باشد رحم کو بھی کام فرماوے وہ شوخ
دیکھ مجھ ناکام کو یک دم کرے ترک جفا
ایک ساعت پاس بیٹھے درد دل میرا سنے
کرکے غم خواری کہے یہ تیرے تیں کیا ہوگیا
سو تو یہ سب ہوچکا اے کاشکے ملتا نہ تو
ایسے آجانے کا تیرے کون یاں مشتاق تھا
آمدی و حسرت وصل از دلم برداشتی
حسرتے بود از وصال آں ہم بہ من نگذاشتی

ہیں خرابے آج جتنے کل یہ تھے لوگوں کے گھر
مت بناے خانہ میں منعم رہا کر اس قدر
طاق کسریٰ تو سنا ہوگا کہ کیسا تھا محل
اب کہیں اس طاق کا کسریٰ کے پیدا ہے اثر
گھر کا صاحب تو اڑایا کرکے یکساں خاک سے
اینٹ مارے اینٹ سے یہ کچھ ہوا اس گھر اپر
خط باطل سے لکھا ہے صفحۂ کون و مکاں
کیوں دماغ اپنا جلاتا ہے رہے ہے تو کدھر
کیسے کیسے خانوادے خاک میں یاں مل گئے
جاے عبرت ہے یہ معمورہ جہاں کا بے خبر
ہرکجا افتادہ بینی خشت در ویرانہ اے
ہست فرد دفتر احوال صاحب خانہ اے

کم بہت سننے میں آتا ہے کوئی رنجور ہے
یا کسی مجروح کا زخم جگر ناسور ہے
روشنی آنکھوں کی ہے منظور ساری خلق کو
قوت دل کا جدھر دیکھو تدھر مذکور ہے
ہم کنے بھی تھے یہ دو آتش کے پرکالے کبھو
ان سے ہم ایذا جو کھینچی ہے کسے مقدور ہے
ایک نے مارا چھڑک کر جی سے ہم کو آب داغ
ایک نے جیسا جلایا اب تلک مشہور ہے
ہم کو حیرانی ہے اس میں جس کو سنتے ہیں اسے
ان ہی دونوں آفتوں کی پرورش منظور ہے
ما سرشک گرم و آہ آتشیں دیدیم و بس
بہرہ اے کز چشم و دل دیدیم ایں دیدیم و بس

دل نہیں مجھ کو ملا یہ کوئی جی کا ہے وبال
گفتنی ہو تو کہوں اے میرؔ میں کچھ اس کا حال
خودبخود گھٹتا ہی جاہے آرزو کیا ہے اسے
چاہتا ہے سیم و زر یا کوئی دلبر خوش جمال
یاد میں میری ہوا ہو کچھ سبب تو ہے بجا
عشق بازی مفلسی آزردگی رنج و ملال
نے کسو کے گیسو و کاکل کا وابستہ ہوں میں
نے کسی کے چاند سے مکھڑے کا مجھ کو ہے خیال
کیا کروں ایذاے بے موجب غرض تجھ سے بیاں
نے غم و درد جدائی ہے نہ اندوہ وصال
نیستم عاشق بظاہر لیک می کاہد دلم
عمر بگذشت و نمی دانم چہ می خواہد دلم


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.