عکس بھی کب شب ہجراں کا تماشائی ہے

عکس بھی کب شب ہجراں کا تماشائی ہے
by اشرف علی فغاں

عکس بھی کب شب ہجراں کا تماشائی ہے
ایک میں آپ ہوں یا گوشۂ تنہائی ہے

دل تو رکتا ہے اگر بند قبا باز نہ ہو
چاک کرتا ہوں گریباں کو تو رسوائی ہے

طاقت ضبط کہاں اب تو جگر جلتا ہے
آہ سینہ سے نکل لب پہ مرے آئی ہے

میں تو وہ ہوں کہ مرے لاکھ خریدار ہیں اب
لیک اس دل سے دھڑکتا ہوں کہ سودائی ہے

دل بیتاب فغاںؔ امت ایوب نہیں
نہ اسے صبر ہے ہرگز نہ شکیبائی ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse