عیش سے بے نیاز ہیں ہم لوگ
عیش سے بے نیاز ہیں ہم لوگ
بے خود سوز و ساز ہیں ہم لوگ
جس طرح چاہے چھیڑ دے ہم کو
تیرے ہاتھوں میں ساز ہیں ہم لوگ
بے سبب التفات کیا معنی
کچھ تو اے چشم ناز ہیں ہم لوگ
محفل سوز و ساز ہے دنیا
حاصل سوز و ساز ہیں ہم لوگ
کوئی اس راز سے نہیں واقف
کیوں سراپا نیاز ہیں ہم لوگ
ہم کو رسوا نہ کر زمانے میں
بسکہ تیرا ہی راز ہیں ہم لوگ
سب اسی عشق کے کرشمے ہیں
ورنہ کیا اے مجازؔ ہیں ہم لوگ
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |