غالب کہ یہ دل خستہ شب ہجر میں مر جائے
غالب کہ یہ دل خستہ شب ہجر میں مر جائے
یہ رات نہیں وہ جو کہانی میں گزر جائے
ہے طرفہ مفتن نگہ اس آئنہ رو کی
اک پل میں کرے سینکڑوں خوں اور مکر جائے
نے بت کدہ ہے منزل مقصود نہ کعبہ
جو کوئی تلاشی ہو ترا آہ کدھر جائے
ہر صبح تو خورشید ترے منہ پہ چڑھے ہے
ایسا نہ ہو یہ سادہ کہیں جی سے اتر جائے
یاقوت کوئی ان کو کہے ہے کوئی گلبرگ
ٹک ہونٹ ہلا تو بھی کہ اک بات ٹھہر جائے
ہم تازہ شہیدوں کو نہ آ دیکھنے نازاں
دامن کی تری زہ کہیں لوہو میں نہ بھر جائے
گریے کو مرے دیکھ ٹک اک شہر کے باہر
اک سطح ہے پانی کا جہاں تک کہ نظر جائے
مت بیٹھ بہت عشق کے آزردہ دلوں میں
نالہ کسو مظلوم کا تاثیر نہ کر جائے
اس ورطے سے تختہ جو کوئی پہنچے کنارے
تو میرؔ وطن میرے بھی شاید یہ خبر جائے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |