غالب کی محفل

غالب کی محفل
by عابد علی عابد
331403غالب کی محفلعابد علی عابد

مقام دہلی ۱۸۵۶عیسوی

راوی، ۱۸۵۰ء تک دہلی اور لکھنؤ کی محفلوں پر بہار تھی، ہر طرف شعر و سخن کا چرچا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سیاسی طور پر آزاد کے الفاظ میں درخت اقبال کو دیمک لگ چکی تھی۔ لیکن ابھی برگ و بار کی شگفتگی اور تازگی کو دیکھتے ہوئے گمان تک نہ ہوتا تھا کہ یہ درخت گراچاہتا ہے۔ دہلی میں مومن، ذوق، غالب، شیفتہ، سالک، مجروح اور آزردہ اپنی رنگین توانائیوں سے پابند وضع سامعین کو مسحور کر رہے تھے۔ ادھر لکھنؤ میں ۱۸۴۷ء کے بعد رنگیلے پیا جانِ عالم نے دربار سجایا تھا۔ اور ایسا رنگ جمایا تھا کہ لوگ اِندر کے اکھاڑے کو بھول گئے تھے۔

۱۸۵۰ء کے بعد، شاطر فلک نے اس بساطِ ادب کے مہروں کو ایک ایک کرکے چننا شروع کیا۔ ۱۸۵۱ء میں مومن سدھارے، ۱۸۵۴ء میں ذوق نے اس دنیا سے منہ موڑا، ۱۸۵۶ء میں رنگیلے پیاجان عالم معزول ہوئے اور مٹیا برج بھیج دیے گئے۔ کچھ پروانے اس جھکی ہوئی شمع کا طواف کرنے کے لیے وہاں بھی جاپہنچے۔ لیکن سچ پوچھیے تو محفل سونی ہوگئی۔ تو فرض کرلیجیے کہ ۱۸۵۶ عیسوی ہے۔ اگرچہ بجھ چکی ہے لیکن خاکستر میں کچھ چنگاریاں باقی ہیں۔ بساط اٹھائی جارہی ہے۔ لیکن ابھی شعر وسخن کے کچھ متوالے آنکھیں بند کیے حال مست، محفل میں بیٹھے ہیں۔ یہ حالت ہے کہ ہم آپ کو دہلی قاسم جان کی گلی میں لیے چلتے ہیں، جہاں اسد اللہ خاں غالب المعروف بہ مرزانوشہ حکیم محمد حسن خاں کی حویلی میں رہتے ہیں۔ (قدموں کی چاپ)


شیفتہ، (بلند آواز سے ) کلو کلو، (دور سے ) جی سرکار۔

شیفتہ، کیوں بھئی مرزا نوشہ تشریف رکھتے ہیں؟

کلو، جی حضور۔ دیوان خانہ میں لیٹے ہیں۔ میر مہدی مجروح بھی وہیں بیٹھے ہیں۔ (وقفہ)

تشریف لے آئیے۔ آئیے نواب صاحب تشریف لائیے۔ خواجہ صاحب۔ (چاپ)

شیفتہ، حضور! تسلیمات عرض کرتا ہوں۔

حالی، آداب بجالاتا ہوں۔

غالب، آہا۔۔۔ نواب مصطفے خاں اور خواجہ الطاف حسین حالی بھی ساتھ تشریف لائے ہیں۔

شیفتہ، حضور۔ خواجہ الطاف حسین تو ضرور تشریف لائے ہیں لیکن نواب مصطفے ٰ خاں کہاں ہیں؟

غالب، (ہنس کر) ایں۔ میر مہدی۔ سنا تم نے۔ ارے بھئی میری بینائی میں اتنا فتور آگیا۔ ذرا دیکھنا یہ نواب مصطفے ٰ خاں نہیں ہیں۔

مہدی مجروح، حضور ہیں تونواب مصطفے ٰ خاں ہی۔

شیفتہ، (ہنسکر) کون، نواب مصطفے ٰ خاں! واہ میر مہدی یہ کیا بات ہوئی۔

غالب، (ہنس کر) ارے بھئی تو آخر تم پھر کون ہو جو اس طرح بے باکانہ مجھ خاک نشیں کے گھر گھسے چلے آتے ہو۔

شیفتہ، (ہنس کر) حضور میں تو آ پ کا شیفتہ ہوں۔

غالب، اخاہ۔ یہ بات ہے۔ سنا میر مہدی۔ اچھا بھئی شیفتہ خدا تمہیں جزائے خیر دے کہ ایک ساٹھ برس کے بوڑھے پر شیفتہ ہو۔

حالی، حضور ہی کا شعر ہے۔

وفاداری بشرطِ استواری اصل ایماں ہے مرے بت خانے میں تو کعبے میں گاڑو برہمن کو

غالب، (ہنس کر) واہ بھئی حالی واہ (وقفہ) ادھر آؤنا شیفتہ میرے پاس۔

شیفتہ، آج حضور میرے ہاں مشاعرے میں تشریف نہیں لائے۔

غالب، اے میر مہدی بولتے کیوں نہیں۔ (وقفہ)

ارے بھئی شیفتہ اس سید زادے کی فرمائشوں سے ناک میں دم ہے۔

شیفتہ، حضور کیا بات ہوئی؟

غالب، جواب دو نا میر مہدی، اب چپ کیوں سادھ لی۔

مجروح، نواب صاحب قبلہ ہوا یہ کہ میرے ملنے والوں میں سے ایک صاحب کا لڑکا بے چارا ناگہاں مرگیا۔ وہ میرے سر ہوگئے کہ مرزا نوشہ سے تاریخ کہلوادو۔ خوشی کی تقریب کی فرمائش ہوتی تو میں ٹال بھی جاتا۔ بات ایسی تھی کہ کچھ کہہ بھی نہ سکتا تھا۔ آخر انہیں لے کر حضور کی خدمت میں حاضر ہوا۔ ان صاحب کو وطن واپس جانے کی جلدی تھی۔ ضد کرنے لگے کہ ابھی تاریخ کہہ دو۔ بس اسی میں الجھے رہے (وقفہ) اور پھر کچھ طبیعت بھی حضور کی ناساز تھی۔

حالی، خیر باشد۔

غالب، بھئی پرسوں سے پنڈلیوں میں اور پاؤں میں درد ہے۔

مجروح، میں تو کہہ رہا ہوں کہ حضور پاؤں داب دوں۔ آپ مانتے ہی نہیں۔

غالب، اے میر مہدی تجھے شرم نہیں آتی، تو سیدزادہ ہوکر میرے پاؤں دابے گا۔ کیوں مجھے گنہگار کرتا ہے۔

مجروح، تو آپ اجرت دے دیجیے گانا۔ آخر اس میں ہرج ہی کیا ہے۔ لیجیے ذرا پاؤں پھیلائیے۔

غالب، اے میر مہدی تو مانے گا تھوڑا ہی، اچھا جو تیرے جی میں آئے کر۔ (وقفہ) ہاں بھئی شیفتہ، مشاعرہ کیسا رہا۔

شیفتہ، آپ کے بغیر مشاعرے میں کیا خاک لطف آتا۔

غالب، شیفتہ، سچ پوچھو تو اب مشاعروں میں غزل پڑھنے کو میرا جی نہیں چاہتا۔ مشاعروں کی رونق تو ذوق مرحوم اور مومن مرحوم کے دم سے تھی۔ ہائے مومن کی جامہ زیبی اور بانکپن یاد آتا ہے تو کلیجے پر سانپ لوٹ جاتا ہے اور ذوق مرحوم کی زبان کا لطف ہی نہیں بھولتا۔

شیفتہ، یہ تو آپ نے درست ارشاد فرمایا۔ حکیم مومن خاں کی موت نے محفلوں کو سونا کردیا۔

مجروح، (ہنس کر) حضور آپ نے سنا۔ نواب صاحب نے کیا ارشاد فرمایا۔

غالب، (ہنس کر) ہاں میر مہدی سنا! تم بھی خوب سمجھے۔ کیوں شیفتہ۔ حکیم مومن خاں کی موت نے تو محفلوں کو سونا کردیا۔ اور ذوق مرحوم کا ذکر ہی نہیں۔

شیفتہ، (ہنس کر) میرا یہ مطلب ہی نہیں تھا۔

غالب، خیر تم کچھ ہی کہو شیفتہ۔ بعض شعر تو ذوق نے ایسے کہے ہیں کہ آدمی پہروں سر دھنا کرے۔ (زانو پر ہاتھ مار کے ) ہائے،

اب تو گھبراکے یہ کہتے ہیں کہ مرجائیں گے مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے

مجروح، سبحان اللہ! کیا شعر کہا ہے۔ اور حضور نے پڑھا بھی کیا خوب ہے۔

غالب، اور سنو

اس روئے تابناک پہ ہر قطرہ عرق گویا کہ اک ستارہ ہے صبح بہار کا

ہائے ہائے کیا اچھوتی تشبیہ ہے۔ ستارہ ہے صبح بہار کا۔

شیفتہ، اچھا شعر ہے۔

غالب، شکر ہے تم نے ذوق مرحوم کے کسی شعر کو اچھا تو کہا۔ (وقفہ)

ہاں بھئی مشاعرے والی بات تو وہیں کی وہیں رہ گئی۔ مصرع طرح کیا تھا، ہاں یاد آگیا۔ ع رنج اور رنج بھی تنہائی کا۔ ہاں تو پھر کس کی غزل حاصل مشاعرہ رہی۔ شیفتہ، غزلیں کچھ کمزور تھیں۔ (ہنس کر) ورنہ کچھ شعر مجھے ضرور یاد رہ جاتے۔ (وقفہ) نواب مرزا داغ کا ایک مطلع خوب تھا۔

مجروح، ہاں تو ارشاد فرمائیے نا۔ کیا مطلع تھا۔

شیفتہ، مطلع تھا،

جلوہ دیکھا تری رعنائی کا کیا کلیجہ ہے تماشائی کا

مجروح، سبحان اللہ۔ سبحان اللہ۔ کیا کلیجہ ہے تماشائی کا۔

غالب، خوب کہا۔ دیکھنا شیفتہ شاگرد کے ہاں استاد سے بھی زیادہ تیکھاپن اور گھلاوٹ ہے۔ ذوق کا نام روشن کردیا داغ نے۔

شیفتہ، جی اس میں کیا شک ہے۔ لیکن سچ پوچھیے۔ تو ہمارے خواجہ الطاف حسین حالی کی غزل سب سے اچھی تھی۔

غالب، (تعجب سے ) ہاں بہت خوب۔ حالی، تم نے غزل پڑھی تھی۔

حالی، جی نہیں۔

شیفتہ، حضور بات یہ ہے کہ غزل انہوں نے کہی تھی پڑھی نہیں۔ میں سمجھا کے تھک رہا۔ مانے ہی نہیں۔ اور کیا عرض کروں۔ کیا غزل لکھی ہے۔

غالب، بھئی حالی! میں نے تم سے کہا نہیں تھا کہ تم شعر نہ کہو گے تو طبیعت پر بڑا ظلم کروگے۔ اب شیفتہ نے بھی قریب قریب وہی بات دوسرے پیرائے میں بیان کی۔ ان کی بات تو شعر کے معاملے میں باون تولے پاؤ رتی سچ ہوا کرتی ہے۔ (ہنس کر) میری بات سن کر تم نے دل میں کہا ہوگا کہ بوڑھا سٹھیا گیا ہے۔ اب کیا کہتے ہو۔

حالی، حضور یہ کیا ارشادفرماتے ہیں۔

غالب، بھئی آخر پھر تم نے غزل کہی تو پڑھی کیوں نہیں۔

حالی، حضور۔۔۔

شیفتہ، میں عرض کرتا ہوں۔ کہتے ہیں کہ حضور اصلاح دیں تو غزل پڑھتا ہوں۔

مجروح، اور کہتے بھی ٹھیک ہیں۔

شیفتہ، تو اور کیا۔

غالب، (ہنس کر) تو یوں کہو کہ کھچڑی پکاکر آئے ہو تم اور حالی۔ (وقفہ) بھئی حالی سنو! بات یہ ہے کہ شعر کہنے کا جوہر فطری اور طبیعی ہوتا ہے جسے یہ نعمت مبداء فیاض کی طرف سے عطا ہوتی ہے اس کا سونا مشق سے خودبخود کسوٹی پر چڑھتا چلا جاتا ہے۔ باقی رہا اصلاح کا معاملہ۔ تو بھئی میں نے کسی سے اصلاح نہیں لی۔ میں تمہیں کیا اصلاح دوں گا۔

شیفتہ، خیر، آج تو حضور، خواجہ صاحب اصلاح لیے بغیر نہ مانیں گے۔

مجروح، نواب صاحب قبلہ۔ اب حضور اصلاح دینے سے بہت اجتناب کرنے لگے ہیں۔ آپ اصرار فرمائیں تو بات بنے گی، پچھلے دنوں ایک صاحب کا خط آیا کہ اب آپ میرے اشعار پر اصلاح کیوں نہیں دیتے۔ آپ نے بہ سبب ذوق سخن کے اشعار کی اصلاح منظور فرمائی تھی، اب کیا بات واقع ہوئی کہ آپ توجہ نہیں فرماتے۔ اب حضور ہی سے پوچھیے کہ حضور نے کیا جواب لکھا۔

شیفتہ، کیا لکھا حضور نے جواب میں۔

غالب، (ہنس کر) جل کر لکھا تھا۔ کہ لاحول و لا قوۃ کس ملعون نے بسبب ذوق شعر کے اصلاح اشعار منظور کی تھی۔ اگرمیں شعر سے بیزار نہ ہوں تو میرا خدا مجھ سے بیزار۔ میں نے تو یہ طریق قہر درویش برجان درویش لکھا تھا کہ جیسے اچھی جورو برے خاوند کے ساتھ مرنا بھرنا قبول کرتی ہے۔ میرا تمہارے ساتھ وہ معاملہ ہے۔

(تینوں مل کر ہنستے ہیں)

مجروح، اب آپ ہی فرمائیے نواب صاحب کہ اصلاح کے لیے کوئی غزل کیا پیش کرے۔

غالب، ارے بھئی ہٹاؤ بھی اب یہ قصہ۔ ہاں حالی سناؤ اپنی غزل۔

شیفتہ، (ہنس کر) ہائے کیا غزل کہی ہے حالی نے۔ حضور تقصیر معاف ہو۔ بھئی حالی اگر حضور اصلاح دینے کا وعدہ نہ فرمائیں تو غزل نہ سنانا۔

حالی، بہت خوب پیرومرشد۔

شیفتہ، (ہنس کر) خوب غزل لکھی ہے حالی نے۔

(میر مہدی اور حالی مل کر ہنستے ہیں)

غالب، تم تینوں جیتے اور میں ہارا۔ مجھ بوڑھے میں اب دم کہاں ہے کہ تم تینوں کا مقابلہ کروں۔ ہاں صاحب غزل سنوں گا اور جھک مار کے اصلاح بھی دوں گا۔ (تینوں ہنستے ہیں) لو اب سناؤ غزل حالی۔

حالی، مصرع طرح پر گرہ لگا کے مطلع بنا دیا ہے۔

رنج اور رنج بھی تنہائی کا وقت پہنچا مری رسوائی کا

مجروح، واہ وا ماشاء اللہ۔ کیا گرہ لگائی ہے۔

حالی، تسلیمات۔ (وقفہ)

عمرشاید نہ کرے آج وفا سامنا ہے شب تنہائی کا

غالب، ہائے کیا شعر کہا ہے حالی۔ ’’عمر شاید نہ کرے آج وفا‘‘ اور دوسرا مصرع یوں پڑھو، ’’کاٹنا ہے شبِ تنہائی کا۔‘‘

شیفتہ، آہا ہا۔ کیا برجستہ اصلاح دی ہے۔ حضور نے کیا موزوں لفظ رکھا ہے ’’کاٹنا۔‘‘

حالی، اپنے شعر کا صحیح مطلب بھی میری سمجھ میں اصلاح کے بعد ہی آیا ہے۔

غالب، ہاں حالی پڑھو۔

حالی، کچھ تو ہے قدر تماشائی کی ہے جو یہ شوق خود آرائی کا

یہی انجام تھا اے فصلِ خزاں گل و بلبل کی شناسائی کا

مجروح، بہت خوب، بہت خوب!

حالی، تسلیم۔

غیر کے گھر بھی نہ جی سے اترا پوچھنا کیا تری رعنائی کا

غالب، واہ۔ کیا رعنائی کا ثبوت دیا ہے۔ پہلے مصرعہ کو یوں پڑھو،

بزمِ دشمن میں نہ جی سے اترا پوچھنا کیا تری رعنائی کا

شیفتہ، خوب اصلاح دی حضور نے، غیر کا لفظ کچھ کمزور تھا۔ دشمن کے لفظ نے شعر میں جان ڈال دی۔ اور پھر بزم دشمن، اب ان کی رعنائی میں کس کافر کو شک ہوگا کہ دشمن کی بھری محفل میں خود محفلِ نظارہ بنے بیٹھے ہیں اور حالی کے جی سے نہیں اترتے۔

حالی، تسلیم۔ مقطع عرض کرتا ہوں،

ہوں گے حالی سے بہت آوارہ دور ہے گھر ابھی رسوائی کا

مجروح، اہا۔ ہا۔ کیا مقطع ہے۔ کیا تمنا ہے۔ در رسوائی تک پہنچنے کی۔

غالب، خوب غزل کہی تم نے حالی۔

حالی، سب آپ ہی کا فیض ہے۔

غالب، اے میر مہدی مجھے زیادہ گنہگار نہ کر، اب تو میرے پاؤں نہ داب۔

مجروح، بہت اچھا حضور۔ تو لائیے میری اجرت دلوائیے۔

غالب، (ہنس کر) واہ۔ اجرت کیسی؟ تم نے میری پاؤں دابے۔ میں نے تماری اجرت دابی۔ حساب برابر ہوا۔ اجرت کا سوال کہاں ہے۔ (تینوں ہنستے ہیں)

غالب، کیوں بھئی شیفتہ۔ میرے دیوان کی طباعت کا انتظام ہو رہا ہے نا۔

شیفتہ، جی ہاں ایک مطبع سے بات چیت شروع کی ہے۔ تصحیح میں خود کرلوں گا۔

غالب، تصحیح تو خیر ہوجائے گی۔ تم نے اشعار کا انتخاب بھی کیا ہے یا نہیں۔

شیفتہ، یہ حضور کیا ارشاد فرماتے ہیں۔ حضور کا کلام تو سراپا انتخاب ہے۔ ہاں آپ کے ارشاد کے مطابق ان اشعار پر نشان لگارہا ہوں جو خاص طو رپر مجھے پسند ہیں۔

غالب، سنا میر مہدی اور سن رہے ہو حالی۔ ہمارا کلام سراپا انتخاب ہے (ہنس کر) بھئی شیفتہ۔ اگر تمہارے خلوص پر اعتماد نہ ہوتا تو میں سمجھتا کہ تم مجھے بناتے ہو۔

شیفتہ، یہ کیا فرماتے ہیں آپ۔

غالب، سنو حالی۔ اکیس برس کی عمر میں میں نے ایک اچھا خاصا دیوان مرتب کرلیا تھا۔ اور اس کے بعد اس میں کچھ اور رطب دیا بس ملا کے ایک نسخہ بھوپال بھیج دیا تھا۔ اب جو ان پرانی غزلوں کو پڑھتا ہوں تو خود ہنسی آتی ہے۔ سب مضامین خیالی۔ بے ہودہ جگر کاوی۔ بات یہ ہے کہ شروع میں بیدل کے کلام پر مرمٹا تھا۔ بڑی جگر کاوی اور عرق ریزی سے مضمون تلاش کرتا تھا اور ایسی دور کی کوڑی لاتا تھا کہ کبھی شعر کا مطلب آدھا، اور کبھی پورا خبط ہوجاتا تھا۔ اور ہمارے نواب مصطفے ٰ خاں کہتے ہیں کہ آپ کا کلام سراپا انتخاب ہے۔ اب تمہیں بتاؤ کہ ہماری اس بذلہ سنجی کا کیا جواب ہے۔ (حالی اور میر مہدی ہنستے ہیں)

شیفتہ، حضور کے رنگ قدیم کے شعر بھی اچھے ہیں۔

غالب، اچھے تو کیاہیں۔ ہاں یہ پتہ چلتا ہے کہ شاعر پرانے ڈھرے پر نہیں چلتا۔ (وقفہ) بیدل کے تتبع نے جہاں مجھے نقصان پہنچایا ہے وہاں فائدہ بھی خاصہ ہوا ہے۔ پیش پا افتادہ مضامین سے گریز، پامال خیالات سے اجتناب، مضمون کی جستجو میں جگر کاوی، الفاظ کی نشست میں عرق ریزی بیدل ہی کا فیضان ہے۔ اختراع تراکیب فارسی کاگر، اور استعارات و تشبیہات کی طرفگی کا سبق میں نے بیدل ہی سے سیکھا ہے۔

شیفتہ، حضور کی بعض تشبیہات اور استعارات تو لاجواب ہیں۔ سنو حالی۔

خوں در جگر نہفتہ بہ زردی رسیدہ ہوں خود آشیانِ طائر رنگ پریدہ ہوں

دورانِ سر سے گردشِ ساغر ہے متصل خم خانۂ جنوں میں دماغِ رسیدہ ہوں

میں چشم واکشادہ و گلشن نظر فریب لیکن عبث کہ شبنم خورشید دیدہ ہوں

سر پر مرے وبالِ ہزار آرزو رہا یارب میں کس غریب کا بختِ رسیدہ ہوں

ہوں گرمیِٔ نشاطِ تصور سے نغمہ سنج میں عندلیب گلشنِ نا آفریدہ ہوں

پانی سے سگ گزیدہ ڈرے جس طرح اسد ڈرتا ہوں آئینے سے کہ مردم گزیدہ ہوں

حالی، سبحان اللہ۔ ایک سے ایک بڑھ کر تشبیہ ہے۔ ساری غزل مرصع ہے۔

مجروح، ایسی ترکیبیں اور ایسے تشبیہات و استعارات کہ ایک دریائے معانی کو مختصر سے لفظوں کے کوزے میں بند کردیں اور کہاں ملیں گی۔

غالب، (ہنس کر) عیب مے جملہ بگفتی ہنرش نیز بگو! تم تو کیوں بیان کروگے۔ مجھ سے خود اپنے ابتدائی دور کی بیہودگیاں سنو۔ دیکھو یہ شعر بھی میرے ہی ہیں۔

جنوں گرم انتظار و نالہ بے تابی کمند آیا سویدا تا بہ لب زنجیر سے دود سپند آیا

مہ واختر فشاں کی بہر استقبال آنکھوں سے تماشا کشور آئینہ میں آئینہ بند آیا

عدم ہے خیر خواہِ جلوہ کو زندانِ بیتابی خرام ناز، برقِ خرمنِ سعی پسند آیا

(ہنس کر) کیوں جی ہمارا کلام سراپا انتخاب ہے نا؟ (تینوں ہنستے ہیں۔ قدموں کی چاپ)

کلو، حضور بیگم صاحبہ! زنان خانے میں تشریف لے جانا چاہتی ہیں۔ مکان دیکھ کر واپس تشریف لائی ہیں۔

غالب، اچھا لیجیے۔ آپ سب صاحب ذرا اس ساتھ والے کمرے میں ہوجائیں۔

(قدموں کی چاپ۔ وقفہ)

(قدموں کی چاپ۔ غالب قہقہہ لگاتا ہے )

غالب، بھئی لطیفہ ہوگیا۔ اس وقت تو (پھر ہنستا ہے )

شیفتہ، ارشاد۔ ارشاد۔

غالب، بھئی بات یہ ہے کہ برسات میں اس مکان میں بہت تکلیف ہوتی ہے۔ خدا کا قہر ہے۔ مینہ گھڑی بھر بَر سے تو چھت گھنٹہ بھر برستی ہے۔ آخر بیگم نے تقاضا کیا کہ مکان بدلو۔ میں مری۔ میں دلی! آج نیا مکان دیکھنے گئی تھیں۔ اب جو واپس آئیں تو میں نے پوچھا کہ مکان پسند آیا تو فرمایا کہ مکان تو اچھا ہے۔ لیکن لوگ اس میں بلا بتاتے ہیں۔ یہ سن کر میں نے کہا کہ دنیا میں آپ سے بڑھ کر بھی کوئی بلا ہے! (چاروں ہنستے ہیں)

غالب، ہاں بھئی حالی اگر بیدل کا رنگ مجھ پر چھایا رہتا تو اردو میں طرزِ بیدل نہ نبھتی۔ بس یوں سمجھ لو کہ بیہودہ گوہوکر رہ جاتا۔ وہ تو یوں کہو کہ مبدائے فیاض نے مجھے گمراہ نہ ہونے دیا۔ میر کی سادگی نے چشم نمائی کی۔ سہل ممتنع کلام نے مجھے متنبہ کیا۔ رفتہ رفتہ میں سیدھے ڈھرے پر آگیا۔ شیفتہ کی صحبت نے میرے جوہر کو اور بھی چمکادیا۔ اب دیکھ لو غزل کا کیا رنگ ہے۔

شیفتہ، یہ تو حضور کی ذرہ نوازی ہے۔ (ہنس کر) پرسوں لطیفہ ہوا۔ میرے مکان پر احباب جمع تھے۔ کہ کوئی صاحب ہیں افسوس تخلص فرماتے ہیں، وہ تشریف لے آئے۔ آپ کا ذکر آگیا۔ تو انہوں نے آپ کی غزل امید بر نہیں آتی، نظر نہیں آتی کے کچھ شعر پڑھے۔ اور پھر جب یہ شعر پڑھا، آگے آتی تھی حالِ دل پہ ہنسی، اب کسی بات پر نہیں آتی، تو فرمایا کہ اس شعر میں کیا بات ہے۔ پامال مضمون ہے۔ اور طرزادا میں بھی کوئی جدت نہیں۔ تعجب ہے کہ مرزا نوشہ نے ایسا شعر کہا، میں تو سمجھتا ہوں کہ یہ شعر ان کا ہے ہی نہیں۔

غالب، (ہنس کر) سخن فہمی عالمِ بالا معلوم شد، پھر۔

شیفتہ، میں نے متانت سے کہا کہ قبلہ۔ شعر تو یہ مرزا نوشہ ہی کا ہے لیکن معاف کیجیے گا، آپ شعر کاحلیہ بگاڑ کے اس طرح پڑھتے ہیں کہ مرزا نوشہ کا شعر نہیں رہتا۔

غالب، بہت خوب۔

شیفتہ، پھر میں نے شعر پڑھ کے سنادیا اور مزے کی بات یہ ہے کہ شعر کامطلب پھر بھی نہ سمجھے۔ پھر جو احباب نے کھول کے مطلب سمجھایا تو بہت جھینپے اور فوراً اٹھ کر چل دیے۔

مجروح، ذرا پڑھیے گا تو شعر نواب صاحب قبلہ! کس طرح شعر پڑھنے سے مطلب صاف ہوناچاہیے۔

شیفتہ، سنیے، آگے آتی تھی حال دل پہ ہنسی۔ اب کسی بات پر نہیں آتی (بات پر زور دے کر پڑھا جائے )

حالی، واہ۔ نواب صاحب کیا پہلو بدلا ہے شعر کے مضمون نے۔ مطلب یہ ہوا کہ دیوانگی کا سا عالم تو پہلے بھی تھا کہ اپنے دل کے حال پر خود ہی ہنس لیا کرتے تھے۔ یہاں تک تو خیریت لیکن اب تو یہ عالم ہے کہ ہنسی کسی بات پر نہیں آتی۔ بے وجہ بھی ہنس دیتے ہیں۔

مجروح، واہ۔ خواجہ صاحب آپ نے خوب مطلب سمجھا شعر کا۔

(دور سے ایک مردانہ آواز۔ جس میں رس اور سوز ہے۔ سنائی دیتی ہے، یہ گاتی ہوئی، ’’مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کیے ہوئے۔‘‘ آواز قریب آجاتی ہے۔ )

غالب، ذرا سنّا شیفتہ۔

شیفتہ، جی سن رہا ہوں۔

غالب، یہ ایک درویش صفت آدمی ہے۔ جسے میرے بہت سے شعر یاد ہیں۔ پچھلے دنوں اس نے میری غزل گاکر سنائی تھی۔ ع دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے۔

شیفتہ، تو دیوان خانے میں بلالیں۔

غالب، نہیں آئے گا۔ اور لطف یہ ہے کہ کچھ لیتا بھی نہیں۔ پچھلی بار میں نے کچھ دینا چاہا تو خفا ہوگیا۔ بس چپ چاپ بیٹھے سنا کرو۔ غزل گائے گا اور چلا جائے گا۔ (اب آواز صاف آتی ہے اور یہ غزل گائی جاتی ہے )

مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کیے ہوئے جوشِ قدح سے بزم چراغاں کیے ہوئے

پھر چاہتا ہوں نامۂ دلدار کھولنا جاں نذر دلفریبی عنواں کیے ہوئے

مانگے ہے پھر کسی کو لبِ بام پر ہوس زلف سیاہ رخ پہ پریشاں کیے ہوئے

چاہے ہے پھر کسی کو مقابل میں آرزو سرمے سے تیز د شنہ مژگاں کیے ہوئے

اک نوبہارِ ناز کو تاکے ہے پھر نگاہ چہرہ فروغ مے سے گلستاں کیے ہوئے

جی ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کہ رات دن بیٹھے رہیں تصورِ جاناں کیے ہوئے

غالب ہمیں نہ چھیڑ کہ پھر جوش اشک سے بیٹھے ہیں ہم تہیہ طوفاں کیے ہوئے

(آخری شعر کے ساتھ آواز دور ہوتی چلی جاتی ہے، غزل کے گانے کے دوران میں شیفتہ، مجروح اور حالی موقع بہ موقع داد دیتے ہیں۔ )

شیفتہ، کیا مرصع غزل ہے یہ حضور کی۔ ہر شعر لاجواب ہے۔ (ہنس کر) ’’ہر چہ از دل خیزد بردل ریزد‘‘ والا معاملہ ہے۔

غالب، تم بھی کیا باتیں لے بیٹھے شیفتہ، بڑھاپے میں ہمیں یہ تذکرے ناپسند ہیں۔ (وقفہ)

لو میں ابھی آیا۔ (قدموں کی چاپ)

شیفتہ، (سرگوشی میں لیکن اس طرح کہ آواز صاف سنائی دے) میر مہدی یہ غزل سن کر مرزا نوشہ کی نظروں میں اگلے وقتوں کی تصویر پھر گئی۔ اس واقعہ کی کسک اب تک ان کے دل سے گئی نہیں۔

مجروح، (اسی طرح سرگوشی میں کہ آواز صاف سنائی دے) آپ کی مراد ہے کہ یہ اسی کا ذکر ہے، جس نے (آواز صاف سنائی نہیں دیتی صرف کھسر پسر کی آواز آتی ہے۔)

شیفتہ، (سرگوشی میں) ارے ایک قتالۂ عالم تھی وہ! آفت کا ٹکڑا۔ ہئی ہئی وہ حسن وہ راگ داری اور پھر مرزا نوشہ نے۔ (آواز سنائی نہیں دیتی، کھسر پھسر ی آوازآتی ہے۔)

مجروح، اس کے مرنے کا بڑا صدمہ ہوا تھا ان کو۔ میں نے دیکھا تھا۔۔۔ (آواز سنائی نہیں دیتی)

شیفتہ، اور اس کا مرثیہ بھی کیسا دردناک لکھا ہے۔ مرزا نوشہ نے۔

کس طرح کاٹے کوئی شب ہائے تارِ برشگال ہے نظر خو کردۂ اختر شماری ہائے ہائے

گوش مہجورِ پیام و چشم محروم جمال ایک دل تس پہ یہ نا امیدواری ہائے ہائے

مجروح، اور مقطع تو ملاحظہ ہو۔

گر مصیبت تھی تو غربت میں اٹھا لیتے اسد میری دہلی ہی میں ہونی تھی یہ خواری ہائے ہائے

شیفتہ، (ہنس کر) جو دیوان چھپنے کے لیے جارہا ہے۔ اس میں مقطع کو یوں بدل دیا ہے،

عشق نے پکڑا نہ تھا غالب ابھی الفت کا رنگ رہ گیا تھا دل میں جو کچھ ذوق خواری ہائے ہائے (قدموں کی چاپ)

غالب، ہاں بھئی شیفتہ۔

کلو، حضور مطبع ثمر ہند سے، ایک آدمی آیا ہے۔ کہتا ہے دیوانِ سخن دہلوی پر جو کچھ آپ کو لکھنا تھا وہ لکھ لیا ہو، تو عنایت فرمادیجیے۔

غالب، بھئی اس سے کہہ دو کہ شام تک وہ کاغذ پہنچ جائے گا۔

کلو، بہتر حضور۔

شیفتہ، سخن دہلوی اپنا کلام چھپوا رہے ہیں۔ اور آپ تقریظ لکھ رہے ہیں۔

غالب، ہاں بھئی شیفتہ، میں نے تو بہتیرا اسے سمجھایا کہ بھائی مجھ سے تقریظ نہ لکھواؤ۔ ایک تو میں جو کچھ لکھ کے دیتا ہوں، لوگ اس سے خوش نہیں ہوتے، دوسرے میری تقریظ اور تعریف، کسی کو راس نہیں آتی۔ لیکن وہ مانتا ہی نہیں۔

شیفتہ، جی ہاں لوگ یہ شکایت تو کرتے ہیں کہ آپ مصنف کی ستایش میں مضائقہ کرتے ہیں اور تقریظ میں ادھر ادھر کی باتیں لکھ کر ٹال دیتے ہیں۔

غالب، سچ ہے شیفتہ، کہ مجھے ہندوستانی فارسی لکھنے والوں کی روش نہیں آتی، کہ بالکل بھاٹوں کی طرح بکنا شروع کردوں، میرے قصیدے اٹھاکر دیکھ لو، تشبیب کے شعر بیشتر، اور مدح کے کمتر پاؤگے!

مجروح، تو حضور نے اس تقریظ میں کیا لکھا ہے۔

غالب، کچھ ادھر ادھر کی باتیں ہیں، تعریف میں تو یہ دو فقرے ہیں کہ ’’اس سحر کار جادو نگار نے پریزادانِ معانی کو الفاظ کے شیشوں میں اس طرح اتار اہے، جیسے آبگینۂ مے سے رنگ مے نظر آئے۔ لفظ سے جلوۂ معنی آشکارا ہے! چشم بدور آغاز جوانی اور نو بہار باغ زندگانی ہے، عمر کے لیے دفتر قضا و قدر میں حکمِ دوام لکھا گیا ہے۔‘‘

مجروح، سبحان اللہ۔ کیا موتی پروئے ہیں۔ حضور تو مجمع البحرین ہیں۔ نظم چشمِ بدور۔ نثر نورٌ علی نور۔

حالی، حضرت سخن کے اشعار حضور کو یاد ہوں تو سنائیے۔

غالب، میرے حافظے کا حال تو تم جاتنے ہی ہو۔ شعر کس ملعون کو یاد رہتا ہے۔

شیفتہ، ایک آدھ شعر شاید یاد آجائے۔

غالب، ہوں (وقفہ) خوب یاد آیا۔ ایک تازہ غزل کے کچھ شعر آج ایک پرزے پر لکھ کر دے گیا تھا۔ وہ شاید یہیں کہیں پڑا ہوگا، پرزہ (وقفہ) یہ رہا۔ سنو بھئی شیفتہ۔

ملے نہ درد بھی ساقی شراب کے بدلے جلے نہ کیونکر مرا دل کباب کے بدلے

مجروح، خوب بہت خوب۔

غالب، نہیں بھئی۔ مطلع معمولی ہے، جبھی شیفتہ چپ رہے، اب دوشعراور سنو،

شبیہ یار کو بدلوں شبیہ یوسف سے ورق غلام کا لوں آفتاب کے بدلے

سنبھالا ہوش تو مرنے لگے حسینوں پر ہمیں تو موت ہی آئی شباب کے بدلے

شیفتہ، سبحان اللہ۔ موت کا لفظ کیا ذومعنی رکھا ہے! اچھا شعر کہا ہے۔

غالب، خواجہ الطاف حسین صاحب!

حالی، جی ارشاد۔

غالب، اب آپ کانوں میں انگلیاں دے لیں ذرا۔

مجروح، (ہنس کر) وہ کیوں؟

غالب، اے میر مہدی یہ ٹھیرے مولوی۔ مجھے شعر پڑھنا ہیں شراب کی تعریف میں، جو یہ بگڑگئے تو!

حالی، آپ یوں مجھے شرمسار کرتے ہیں حضور!

غالب، تو سنو بھئی۔

وہ بادہ کش ہوں کہ غفلت ہوئی تو ساقی نے دیا شراب کا چھینٹا گلاب کے بدلے

شیفتہ، سبحان اللہ! شاگرد کا شعر سن کر استاد کا ایک شعر یاد آگیا۔

غالب، یعنی میرا۔

شیفتہ، جی ہاں،

آسودہ باد خاطرِ غالب کہ خوئے اوست آمیختن بہ بادۂ صافی گلاب را

واہ واہ۔ رندی کے مضامین باندھنا خاص حضور کا حصہ ہے۔ ہائے!

پھر دیکھیے اندازِ گل افشائی گفتار رکھ دے کوئی پیمانۂ صہبا مرے آگے

شیفتہ، اور وہ شعر،

جانفزا ہے بادہ جس کے ہاتھ میں جام آگیا سب لکیریں ہاتھ کی گویا رگِ جاں ہوگئیں

غالب، ( ہنس کر) بھئی مجھے تو اپنا یہ شعر پسند ہے،

کل کے لیے کر آج نہ خست شراب میں یہ سوئے ظن ہے ساقیٔ کوثر کے باب میں

حالی، خوب، حضور نے کیا حیلۂ شرعی نکالا ہے۔ (تینوں ہنستے ہیں)

غالب، سنا بھئی شیفتہ، نہیں چوکے نا مولوی حالی! داد بھی فقہیوں اور مولویوں کی اصلاح میں دی۔

شیفتہ، یہ سب آپ کا فیض ہے (وقفہ) اب اجازت مرحمت ہو۔ آج واپس جانے کا ارادہ ہے۔

حالی، مجھے بھی اجازت مرحمت ہو۔

غالب، بھئی جی تو نہیں چاہتا کہ تم دونوں چلے جاؤ۔ لیکن اب مجبوری ہے، ہاں بھئی اب دیوان کی طباعت کا کام تمہارے ذمے ہے۔

شیفتہ، آپ اطمینان رکھیں، میں خود تصحیح کرلوں گا۔ اچھا تسلیمات۔

حالی، خدا حافظ

غالب، فی امان اللہ۔


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.