غرض رہبر سے کیا مجھ کو گلہ ہے جذب کامل سے
غرض رہبر سے کیا مجھ کو گلہ ہے جذب کامل سے
کہ جتنا بڑھ رہا ہوں ہٹ رہا ہوں دور منزل سے
سکوت بے محل تقریر بے موقع کی تہمت کیوں
اٹھانا ہو تو یوں ہم کو اٹھا دو اپنی محفل سے
یہ ارمان ترقی آج ہے دعویٰ خدائی کا
اسی دل کا جو کل تک تھا لہو کی بوند مشکل سے
گل و لالہ پہ آخر کر رہا ہے غور کیا گلچیں
یہ وہ خوں ہے جو ٹپکا تھا کبھی چشم عنادل سے
شب مہتاب دریا کا کنارہ اور یہ سناٹا
تمہیں اس ساز پر ہم خوش کریں گے نغمۂ دل سے
غضب ہے جل کے پروانوں کا ان کی بزم میں کہنا
رواںؔ یا یوں فدا ہو جاؤ یا اٹھ جاؤ محفل سے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |