غرور الفت کی طرز نازش عجب کرشمے دکھا رہی ہے

غرور الفت کی طرز نازش عجب کرشمے دکھا رہی ہے
by مضطر خیرآبادی

غرور الفت کی طرز نازش عجب کرشمے دکھا رہی ہے
ہماری روٹھی ہوئی نظر کو تری تجلی منا رہی ہے

وہ طور والی تری تجلی غضب کی گرمی دکھا رہی ہے
وہاں تو پتھر جلا دیے تھے یہاں کلیجہ جلا رہی ہے

مرے نشیمن میں شان قدرت کے سارے اسباب ہیں مہیا
ہوا صفائی پہ ہے مقرر چراغ بجلی جلا رہی ہے

نہ اس کے دامن سے میں ہی الجھا نہ میرے دامن سے یہ ہی اٹکی
ہوا سے میرا بگاڑ کیا ہے جو شمع تربت بجھا رہی ہے

فرشتے آئے اگر لحد میں تو صاف کہہ دوں گا راستہ لو
جب اس کی چاہت میں جان دے دی تو بات کہنے کو کیا رہی ہے

جمال قدرت مجھی کو دے دے کہ میں کلیجے کی چوٹ سیکوں
کلیم کے گھر میں رکھے رکھے وہ آگ اب کیا بنا رہی ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse