غزل کہنے کا کس کو ڈھب رہا ہے
غزل کہنے کا کس کو ڈھب رہا ہے
وہ رتبہ عشق کا اب کب رہا ہے
بشاشت برگ گل میں ہے جو اتنی
کسی کے لب پر اس کا لب رہا ہے
مشوش شکل سے اس گل کی ظاہر
یہ ہوتا ہے کہیں وہ شب رہا ہے
پرستش ہی میں شب آخر ہوئی ہے
ہمارے پاس وہ بت جب رہا ہے
تمہارے عہد میں اے کافرو ہائے
کہاں وہ ملت و مذہب رہا ہے
مرا زانو ترے زانو کے نیچے
اٹھوں کیوں کر کہ کافر دب رہا ہے
اسے کب ناز بستاں کی ہوس ہے
یہ دل نت کشتۂ غبغب رہا ہے
موئے جز میرؔ جو تھے فن کے استاد
یہی اک ریختہ گو اب رہا ہے
نت اس کی مصحفیؔ کھاتا ہوں دشنام
یہی تو میرا اب منصب رہا ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |