غصے سے اٹھ چلے ہو تو دامن کو جھاڑ کر
غصے سے اٹھ چلے ہو تو دامن کو جھاڑ کر
جاتے رہیں گے ہم بھی گریبان پھاڑ کر
دل وہ نگر نہیں کہ پھر آباد ہو سکے
پچھتاؤ گے سنو ہو یہ بستی اجاڑ کر
یا رب رہ طلب میں کوئی کب تلک پھرے
تسکین دے کہ بیٹھ رہوں پاؤں گاڑ کر
منظور ہو نہ پاس ہمارا تو حیف ہے
آئے ہیں آج دور سے ہم تجھ کو تاڑ کر
غالب کہ دیوے قوت دل اس ضعیف کو
تنکے کو جو دکھاوے ہے پل میں پہاڑ کر
نکلیں گے کام دل کے کچھ اب اہل ریش سے
کچھ ڈھیر کر چکے ہیں یہ آگے اکھاڑ کر
اس فن کے پہلوانوں سے کشتی رہی ہے میرؔ
بہتوں کو ہم نے زیر کیا ہے پچھاڑ کر
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |