غضب کی دھوم شبستان روزگار میں ہے
غضب کی دھوم شبستان روزگار میں ہے
کشش بلا کی تماشائے ناگوار میں ہے
دکھائی آج ہی آنکھوں نے صورت فردا
خزاں کی سیر بھی ہنگامۂ بہار میں ہے
غبار بن کے لپٹتی ہے دامن دل سے
مٹے پہ بھی وہی دل بستگی بہار میں ہے
دعائے شوق کجا ایک ہاتھ ہے دل پر
اور ایک ہاتھ گریبان تار تار میں ہے
ہنوز گوش بر آواز غیر ہے کوئی
امیدوار ازل اب تک انتظار میں ہے
قسم ہے وعدۂ صبر آزمائے جاناں کی
کہ لذت ابدی ہے تو انتظار میں ہے
دوا میں اور دعا میں تو اب اثر معلوم
بس اک امید اثر ضبط ناگوار میں ہے
چلے چلو دل دیوانہ کے اشارے پر
محال و ممکن تو سب اس کے اختیار میں ہے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |