غضب ہے سرمہ دے کر آج وہ باہر نکلتے ہیں
غضب ہے سرمہ دے کر آج وہ باہر نکلتے ہیں
ابھی سے کچھ دل مضطر پر اپنے تیر چلتے ہیں
ذرا دیکھو تو اے اہل سخن زور صناعت کو
نئی بندش ہے مجنوں نور کے سانچے میں ڈھلتے ہیں
برا ہو عشق کا یہ حال ہے اب تیری فرقت میں
کہ چشم خونچکاں سے لخت دل پیہم نکلتے ہیں
ہلا دیں گے ابھی اے سنگ دل تیرے کلیجے کو
ہماری آہ آتش بار سے پتھر پگھلتے ہیں
ترا ابھرا ہوا سینہ جو ہم کو یاد آتا ہے
تو اے رشک پری پہروں کف افسوس ملتے ہیں
کسی پہلو نہیں چین آتا ہے عشاق کو تیرے
تڑپتے ہیں فغاں کرتے ہیں اور کروٹ بدلتے ہیں
رساؔ حاجت نہیں کچھ روشنی کی کنج مرقد میں
بجائے شمع یاں داغ جگر ہر وقت جلتے ہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |