غلط ہے دل پہ قبضہ کیا کرے گی بے خودی میری

غلط ہے دل پہ قبضہ کیا کرے گی بے خودی میری
by عزیز لکھنوی

غلط ہے دل پہ قبضہ کیا کرے گی بے خودی میری
یہ جنس مشترک ہے جو کبھی ان کی کبھی میری

حجاب اٹھتے چلے جاتے ہیں اور میں بڑھتا جاتا ہوں
کہاں تک مجھ کو لے جاتی ہے دیکھوں بے خودی میری

توہم تھا مجھے نقش دوئی کس طرح مٹتا ہے
نقاب رخ الٹ کر اس نے صورت کھینچ دی میری

ادھر بھی اڑ کے آ خاکستر دل منتظر میں ہوں
لگا لوں تجھ کو آنکھوں سے تو ہی ہے زندگی میری

عزیزؔ اک دن مجھے یہ رازداری ختم کر دے گی
کسی نے بات ادھر کی اور رنگت اڑ گئی میری

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse