غم دل کا بیان چھوڑ گئے

غم دل کا بیان چھوڑ گئے
by غلام علی ہمدانی مصحفی

غم دل کا بیان چھوڑ گئے
ہم یہ اپنا نشان چھوڑ گئے

تری دہشت سے باغ میں صیاد
مرغ سب آشیان چھوڑ گئے

راہ میں مجھ کو ہمرہاں میرے
جان کو ناتوان چھوڑ گئے

نفرت آئی سگ و ہما کو کیا
جو مرے استخوان چھوڑ گئے

چلتے چلتے بھی یہ جفا کیشاں
ہاتھ مجھ پر ندان چھوڑ گئے

کسی در پر انہوں کو جا نہ ملی
جو ترا آستان چھوڑ گئے

سفر اس دل سے کر گئے غم و درد
یار سونا مکان چھوڑ گئے

صفحۂ روزگار پر لکھ لکھ
عشق کی داستان چھوڑ گئے

لے گئے سب بدن زمیں میں ہم
مصحفیؔ اک زبان چھوڑ گئے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse