غم رہا جب تک کہ دم میں دم رہا

غم رہا جب تک کہ دم میں دم رہا
by میر تقی میر

غم رہا جب تک کہ دم میں دم رہا
دل کے جانے کا نہایت غم رہا

حسن تھا تیرا بہت عالم فریب
خط کے آنے پر بھی اک عالم رہا

دل نہ پہنچا گوشۂ داماں تلک
قطرۂ خوں تھا مژہ پر جم رہا

سنتے ہیں لیلیٰ کے خیمے کو سیاہ
اس میں مجنوں کا مگر ماتم رہا

جامۂ احرام زاہد پر نہ جا
تھا حرم میں لیک نامحرم رہا

زلفیں کھولیں تو تو ٹک آیا نظر
عمر بھر یاں کام دل برہم رہا

اس کے لب سے تلخ ہم سنتے رہے
اپنے حق میں آب حیواں سم رہا

میرے رونے کی حقیقت جس میں تھی
ایک مدت تک وہ کاغذ نم رہا

صبح پیری شام ہونے آئی میرؔ
تو نہ چیتا یاں بہت دن کم رہا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse