غنچے چٹک گئے چمن روزگار کے
غنچے چٹک گئے چمن روزگار کے
پھوٹے حباب موج نسیم بہار کے
رضواں جو ٹوکے گا در فردوس پر ہمیں
کہہ دیں گے رہنے والے ہیں ہم کوئے یار کے
آنکھیں ترس رہی ہیں مری تیری زلف کو
تارے چمک رہے ہیں شب انتظار کے
آغاز میں بھی ہم کو ہے انجام کا خیال
دھڑکے شباب میں بھی ہیں روز شمار کے
مضمون ہیں ہرن مری بندش کمند ہے
اے قدرؔ شاعری میں مزے ہیں شکار کے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |