غیروں میں حنا وہ مل رہا ہے
غیروں میں حنا وہ مل رہا ہے
نیرنگ جہاں بدل رہا ہے
کھٹکا ہے یہ نشتر مژگاں کا
رگ رگ سے جو دم نکل رہا ہے
وصف لب سرخ لکھ رہا ہوں
یاقوت قلم اگل رہا ہے
آبادیٔ دل ہے داغ سوزاں
اس گھر میں چراغ جل رہا ہے
ہے دل کی تڑپ سے چشم پر نم
پارے کا کنواں ابل رہا ہے
دل غم سے نہ کس طرح ہو ٹھنڈا
پنکھا دم سرد جھل رہا ہے
بیتاب ہے دل یہ غم کے ہاتھوں
گیندے کی طرح اچھل رہا ہے
شبنم سے جوش میکشی ہے
ہر ساغر گل کھنگل رہا ہے
دل آتش غم سے تاؤ کھا کر
رانگے کی طرح پگھل رہا ہے
ہے چشم سیہ میں کودک اشک
بھونرے میں یہ طفل پل رہا ہے
منکا ہے ڈھلا لویں پھری ہیں
آ جلد کہ دم نکل رہا ہے
بے برگ و ثمر ہیں اک ہمیں شادؔ
ہر ایک نہال پھل رہا ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |