غیر کے دل پہ تو اے یار یہ کیا باندھے ہے

غیر کے دل پہ تو اے یار یہ کیا باندھے ہے
by عبدالرحمان احسان دہلوی

غیر کے دل پہ تو اے یار یہ کیا باندھے ہے
ہے وہ اک باد فروش اور ہوا باندھے ہے

بوالہوس جامۂ عریانٔی عشاق کو دیکھ
تو گریبان سے کیوں اپنا گلا باندھے ہے

یوں شرر چھڑتی ہیں جیسے کہ ہوائی ہے چھٹی
اک سماں آہ مری تا بہ‌‌ سما باندھے ہے

دل‌ سرگشتہ بھی تو ایک بلا میں ہے پھنسا
کبھی کھولی ہے کبھو زلف دوتا باندھے ہے

یہ تو تجھ سے نہ ہوا آوے شب تار میں یار
تار شکوؤں ہی کا تو صبح و مسا باندھے ہے

دیکھ کر توڑا گلے کا کوئی دل دیتا ہے
منڈچرا پن سے تو کیوں اپنا گلا باندھے ہے

بے وفا ماندہ کی رکھی تو نہ تجھ پاس رہوں
کیا کروں پاؤں مرا دست وفا باندھے ہے

ناف آہو میں نہ کس طرح سے جا کر وہ چھپے
مشک کی مشکیں تری زلف رسا باندھے ہے

ایک جھگڑالو کی دختر پہ ہوا ہے عاشق
دل مرا جان کے جھگڑے کی بنا باندھے ہے

جب جفا سے تری ہوتا ہوں خفا غصہ سے
ٹکٹکی میری طرف مہر وفا باندھے ہے

جب کہا میں نے کہ جوڑے کو مری جان تو باندھ
بند محرم کے میں باندھوں گا تو کیا باندھے ہے

کھول کر بالوں کو آشفتہ و برہم ہو کر
تیرے کہنے سے کہا میری بلا باندھے ہے

سہل یہ طور ہے احساںؔ غزل اک اور بھی لکھ
ہے کھلا سب پہ تو مضمون بندھا باندھے ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse