غیر کے گھر تو نہ رہ رات کو مہمان کہیں
غیر کے گھر تو نہ رہ رات کو مہمان کہیں
تا نا اس بات کا چرچا ہو مری جان کہیں
اب تلک غنچے کی گردن ہے جھکی خجلت سے
اس نے دیکھی تھی تری گوئے گریبان کہیں
راز دل اس سے کہا میں تو ولے یہ ڈر ہے
کہ مرے راز کو کہہ دے نہ وہ نادان کہیں
اے پریشانئ زلف صنم کافر کیش
کیجیو تو نہ مرے دل کو پریشان کہیں
دل کی بے چینی سے میں سخت بتنگ آیا ہوں
چین پڑتا ہی نہیں ہے اسے اک آن کہیں
دھانی جوڑے نے ترے کھیت رکھا ہے مجھ کو
سبز رنگ اتنے تو دیکھے نہیں ہیں دھان کہیں
منع کس واسطے کرتا ہے میں تیرے صدقے
عید کے دن تو مجھے ہونے دے قربان کہیں
درد دل جا کے میں کہہ لوں ابھی در کے نزدیک
ایک ساعت کو ہی اٹھ جاوے جو دربان کہیں
مصحفیؔ ایک غزل اور بھی میں لکھتا ہوں
یہ تو بیتیں کئی میں نے بہت آسان کہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |