فرقت کی آفت برے دن کاٹنا سال ہے

فرقت کی آفت برے دن کاٹنا سال ہے
by امداد علی بحر

فرقت کی آفت برے دن کاٹنا سال ہے
یہ ہاتھ ہے سو کرے یہ سینہ گھڑیال ہے

روتا ہوں شام و سحر ٹکڑے ہے غم سے جگر
بے درد کچھ رحم کر میرا برا حال ہے

بے چین کہاں دل ساماں یعقوب کا ہے مقال
جنس وفا کا ہے کال کنعان میں ہٹ تال ہے

ریشم کے لچھے ہیں بال مخمل کے ٹکڑے ہیں گال
ہے یہ نزاکت کا حال پتلی کمر بال ہے

عاشق بچے تا بہ کی کالی بلا ہے یہ شے
کاکل کا جو حلقہ ہے موذی کا چنگال ہے

کیوں آئے ہم اے پری ہلچل میں ہے زندگی
آفت ہے تیرے گلے آندھی ہے بھونچال ہے

پھولوں میں رنگت نہ بو سبزے کو کوڑا کہو
پائے خزاں قطع ہو گلزار پائمال ہے

دل نظر جس نے کیا ٹھکرا کے اس نے کہا
لیتی ہے میری بلا درگور کیا مال ہے

ہر دم نہ دیکھ اس کے بال سر پر نہ لے یہ وبال
جی کو بلا میں نہ ڈال اے دل یہ جنجال ہے

رفتار کہیے اسے دل ہر قدم پر پسے
پوچھے کوئی کبک سے صدقے عجب چال ہے

کیا کہیے کیا غم سہا دن رات روتا رہا
دل خون ہو کر بہا رنگین رومال ہے

عشاق کا ہے یہ حال دن رات ہے حال قال
آہ و فغاں ہے خیال سینہ زنی تال ہے

صوت جفا کیش ہے عاشق جگر ریش ہے
ابرو ہے یا نیش ہے بچھو ہے یا خال ہے

ہے کچھ نہ کچھ تو بجوگ ناحق نہیں ہے یہ بروگ
کیسا لگا جی کو روگ اے بحرؔ کیا حال ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse