فرق جب لذت احساس میں پایا نہ گیا

فرق جب لذت احساس میں پایا نہ گیا (1940)
by علی منظور حیدرآبادی
324674فرق جب لذت احساس میں پایا نہ گیا1940علی منظور حیدرآبادی

فرق جب لذت احساس میں پایا نہ گیا
درد دیکھا نہ گیا تم کو دکھایا نہ گیا

چٹکیاں کون یہ رہ رہ کے لئے جاتا ہے
میرے دل میں تو مری جاں کوئی آیا نہ گیا

لطف یوں رنجش بے جا کے لئے پہروں تک
بے سبب روٹھنے والے کو منایا نہ گیا

خواب پر کیف کا منظر بھی نشاط آور تھا
دوست کو اس لئے کچھ دیر جگایا نہ گیا

منع کرتی جو رہی خندہ جبینی اس کی
درد دل اپنا کبھی اس کو سنایا نہ گیا

خود ہنسا وہ یہ جوانی کی کرم بخشی ہے
خسرو حسن کو مجھ سے تو ہنسایا نہ گیا

دے تو دی ضبط محبت کی قسم ظالم نے
فائدہ ضبط محبت کا بتایا نہ گیا

کب دکھاتا ہے وہ بربادیٔ حسرت کا سماں
خاک میں جب مری حسرت کو ملایا نہ گیا

روشنی جس کی دکھاتی تھی مجھے بھول ہی بھول
اس قمروش کا وہ انداز بھلایا نہ گیا

طور کی پوری طرح یاد دلائی نہ گئی
ہوش چھینے تو گئے ہوش میں لایا نہ گیا

ان کی مشکوک نظر میں وہ مزا تھا منظور
کہ یقیں اپنی محبت کا دلایا نہ گیا


This work is in the public domain in the United States because it was first published outside the United States (and not published in the U.S. within 30 days), and it was first published before 1989 without complying with U.S. copyright formalities (renewal and/or copyright notice) and it was in the public domain in its home country on the URAA date (January 1, 1996 for most countries).