فریاد بھی میں کر نہ سکا بے خبری سے

فریاد بھی میں کر نہ سکا بے خبری سے (1900)
by حبیب موسوی
324758فریاد بھی میں کر نہ سکا بے خبری سے1900حبیب موسوی

فریاد بھی میں کر نہ سکا بے خبری سے
دل کھینچ لیا اس نے کمند نظری سے

اس بت کو کیا رام نہ سوز جگری سے
نالے مرے بدنام ہوئے بے اثری سے

کب دل پہ اثر کرتا ہے ظالم کا تملق
ملتے ہیں کہیں زخم جگر بخیہ گری سے

ہے سایہ فگن تازہ نہال چمن حسن
نسبت مرے دل کو ہے عقیق شجری سے

اڑ جاتے تیرے ہوش مرے نغموں سے بلبل
کر شکر کہ مجبور ہوں بے بال و پری سے

ہر لطف سے خالی ہے فروغ دم پیری
روشن ہوا یہ نور چراغ سحری سے

دامن کی کلی باد صبا کھول سکے کب
ساتر نہیں ڈرتے ہیں کبھی پردہ دری سے

الفت کا شجر سرو قدوں کی ہے ہری شاخ
عشاق کو باور ہوا یہ بے ثمری سے

کہتے ہیں وہ سن کر خبر رحلت عشاق
جلدی گیا کہنا تھا ہمیں کچھ سفری سے

ہوں لاکھ خطر کوچۂ دلبر نہ چھٹے گا
اٹھ سکتی ہے ذلت بھی کہیں مرد جری سے

نفرت نہیں لازم تجھے ظالم عوض رحم
بیٹھا ہوں میں دل کھو کے تری حیلہ گری سے

عامل کریں اک بار اگر بند تو میکش
خالی کریں سو مرتبہ شیشہ کو پری سے

کر دیتے ہیں یوں ہرزہ درا کو کملا بند
لب زخم کے جس طرح ملیں بخیہ گری سے

اغیار ہوے کب مری ناکامی کا باعث
محرومیاں پیدا ہوئیں آشفتہ سری سے

کر غیر کو اپنا کہ مرادوں کا نشاں دے
بے کار وہ پیکاں ہے جدا ہو جو سری سے

اعمال حبیبؔ جگر افگار کی کشتی
ساحل پہ پہنچ جائے گی اشکوں کی تری سے


This work was published before January 1, 1929 and is anonymous or pseudonymous due to unknown authorship. It is in the public domain in the United States as well as countries and areas where the copyright terms of anonymous or pseudonymous works are 100 years or less since publication.