296757فسانہء مبتلا1885ڈپٹی نذیر احمد

بہرکیف مبتلا کسی نہ کسی طرح خدا کے فضل سے پل پلا کر بڑا ہوا۔ یہاں تک کہ ان گنا یعنی آٹھواں برس بھی خیریت کے ساتھ گزرا، جسے میٹھا برس بھی کہتے ہیں۔ مبتلا کی تعلیم و تربیت سے مستورات کو ظاہر میں تو کچھ سروکار نہ تھا۔ ہر چند وہ مکتب میں نہیں بیٹھا، کسی استاد سے اس نے سبق نہیں لیا تاہم ہمارے نزدیک (اور ہمارے نزدیک کیا بلکہ واقع میں) ایک اعتبار سے اس کی تعلیم و تربیت بہت ہو چکی تھی۔

دنیا میں سارے لوگ پڑھے لکھے نہیں ہوتے اور نہ پڑھنے لکھنے پر زندگی یا معاش کا انحصار ہے۔ اصل چیز ہے عادت کی درستی، مزاج کی شائستگی طبیعت کی اصلاح سو جس وقت سے بچہ پیدا ہوتا ہے۔ اسی وقت سے وہ ماحول سے سیکھ کر چلتا ہے ان لوگوں کی خوبو جو اس کو پالتے، اس کو اٹھاتے بٹھاتے، اس کو سلاتے اور اس کو کھلاتے پلاتے ہیں۔

ظاہر میں معلوم ہوتا ہے کہ ایک مضغئہ گوشت کی طرح پڑے ہیں، نادان اور لایعقل نہیں ہیں۔

وہ اپنے سارے حواس سے ظاہری ہوں یا باطنی بڑی کوشش کے ساتھ کام لے رہے ہیں۔ چیزوں کو دیکھتے ٹٹولتے آوازوں کو سنتے اور جو دیکھتے سنتے اس کو حافظے میں رکھتے جاتے ہیں۔ اس کی ایک آسان شناخت ہے کہ اگر بڑی عمر میں ہم کوئی دوسری زبان سیکھنی چاہئیں تو کس قدر کوشش کرنی ہوتی ہے۔ بعض بعض اوقات سارے سارے دن رٹنا پڑتا ہے اور ہم کو اپنی مادری زبان سے لکھنا آتا ہے تو لکھنے سے اس زبان کو صرف ونحو سے لغت سے بھی بڑی مدد ملتی رہتی ہے۔

تب ہم کو کہیں برسوں میں جا کر وہ زبان آتی ہے۔

تاہم ناقص و نا تمام بچے جن کو ہماری سہولتوں میں کوئی سہولت بھی حاصل نہیں، کیا کچھ زحمت اٹھاتے ہوں گے کہ ذہین ہوئے تو برس کے اندر ہی اندر ورنہ ڈھائی تین برس کی عمر میں تو مٹھے لدھڑ کند ذہن تک طوطے کی طرح چرغنے لگتے ہیں۔ کیا اتنی بات سے کہ کسی نے پپا مما اور اما، دس بیس بار سکھانے کے طور پر ان کے سامنے کہہ دیا۔

کوئی دعویٰ کر سکتا ہے کہ ہم نے ان کو بولنا سکھایا، زبان کی تعلیم کی۔ نہیں یہ سب بچوں کی ذاتی کوشش ہے۔ پھر یہ خیال کرنا بھی غلط ہے کہ بچوں کی ساری ہمت صرف زبان کے سیکھنے میں مصروف رہتی ہے۔ ایک زبان ہی نہیں بھلا بُرا، ادب قاعدہ، نشست برخاست، رغبت اور نفرت، سود و زیاں، دوست دشمن، خویش و بیگانہ، محبت اور عداوت، حیا اور غیرت، غصہ اور لالچ، حسد اور رشک وغیرہ وغیرہ سارے سبق ان کو ایک ساتھ شروع کرا دیئے جاتے ہیں۔

پس مبتلا جس کی عمر آٹھ برس ہو چکی تھی۔ پڑھ چکا تھا۔ جو کچھ اس کو پڑھنا تھا۔ وہ پڑھ چکا تھا۔ جو کچھ اس کو سیکھنا تھا۔ ماں سے، باپ سے، نانی سے، خالہ سے، بہنوں سے، گھر کے نوکروں سے، آئے گئے سے، عمر کے اعتبار سے اس کی تعلیم و تربیت کی ایسی مثال تھی کہ جیسے کپڑا مول لیا گیا، درزی نے قطع کیا، سیا اور کھڑا کرنے کے بعد اس نے پہنا کر بھی دیکھ لیا۔

صرف بخیہ کر دینا باقی ہے۔ اب اگر کپڑا بد رنگ یا گلا ہوا نکلے یا کہیں سے تنگ ہو جائے تو درزی اس میں کیا کمال کرے گا۔ کپڑا لیتے وقت یا قطع کراتے وقت یہ باتیں دیکھنے کی تھیں اور نہیں دیکھیں تو جھک مارو اور وہی پہنو گلا ہوا، کہ پہنا اور کھسکا، کچے رنگ کا جس میں پہلے ہی دن دھبے نمودار ہوں۔ یہاں تک کہ پہلے سے بدن میں بدھیاں پڑیں اور سانس اندر کا اندر اور باہر کا باہر رہ جائے اب دیکھنا چاہیے کہ مبتلا پر زنان خانے کی تعلیم کا کیا اثر مترتب ہوا تھا۔

جوں جوں وہ بڑا ہوتا گیا، ضدی، چڑچڑا، غصیلا، مچلا، ٹنیلا زودرنج، مغرور، خود پسند، طماع، حریص، تنگ چشم، بودا، ڈرپوک، شوخ شریر، بے ادب، گستاخ، کاہل، آرام طلب، جابر، سخت گیر، گھر گھسنا، زنانہ مزاج بنتا گیا۔ اس کو دنیا و مافیہا کی کچھ خبر تو تھی نہیں، کبھی وہ بے رت کے پھلوں اور بے موسم کے میووں کے لیے گھنٹوں لوٹتا اور پٹخنیاں کھاتا، پہروں ایڑیاں رگڑتا اور آخر کو ایڑیوں کے بدلے اپنے چاہنے والوں اور ناز برداروں سے ناک رگڑوا لیتا تب بہ مشکل چپ کرتا، وہ جب جی چاہتا جو چیز چاہتا جتنی چاہتا کھاتا اور اپنی بے اعتدالیوں اور بے احتیاطیوں سے بیمار پڑتا اور الٹا ماں سے لڑتا۔

ایک مرتبہ وہ اس بات پر خوب رویا اور بہت بکھرا کہ ہائے بادل کیوں گرج رہا ہے۔ ہر چند سارا گھر اس بات کے اہتمام میں لگا رہتا تھا کہ کوئی امر اس کے خلاف مزاج نہ ہو۔ مگر اس کے رونے اور بگڑنے کے لیے ہر وقت کوئی نہ کوئی بہانہ ایک نہ ایک حیلہ مل ہی جاتا تھا۔ اس کی ناخوشی کا روکنا حقیقت میں انسان کے اختیار سے خارج اور آدمی کی قدرت سے باہر تھا۔

کوئی جان نہیں سکتا تھا کہ وہ کس بات پر روٹھ جائے گا اور روٹھے پیچھے کسی کو خبر نہ تھی کہ وہ کیونکر منے گا۔ لاکھ اللہ آمین کیوں نہ ہو، کہاں تک برداشت، کتنا تحمل، آخر رفتہ رفتہ لوگ اس کے لاڈ پیار میں کمی کرنے لگے۔ سب سے پہلے بڑی اور بیاہی ہوئی صاحب اولاد بہنوں نے بے رخی ظاہر کی۔ آخر تھیں تو اس کی بہنیں، جب اس کی شوخی و شرارت سے عاجز آتیں جھڑک دیتیں اور گھرک بیٹھتیں بلکہ ایک تو ایسی جلے تن تھی کہ یہ اس کے پاس بھانجے کو دق کرنے اور بوٹیاں توڑنے گیا اور اس نے دور ہی سے ڈانٹا کہ خبردار جو میرے بچے کو چھیڑا۔

میں ایسے چوچلے ایک نہیں سمجھتی۔ دیکھو خدا کی قسم میں مار بیٹھوں گی۔ ماں کا بھی مبتلا کے ہاتھوں دم ناک میں تھا۔ مگر جیسا کہ کہتے ہیں کہ انسان کو ایک چیز کی محبت اندھا کر دیتی ہے لہٰذا وہ کھسانی تو ہوتی تھی مگر ادھر جوش آیا اور فوراً ٹھنڈی پڑ گئی۔ تیوری پر بل پڑ چلا تھا کہ کھلکھلا کر ہنس دی۔ مبتلا کی برائیوں کو برائی سمجھنا تو درکنار وہ اس کی طرف سے ساری دنیا کے ساتھ ہر وقت لڑنے کو تیار تھی ایک مرتبہ مبتلا خدا جانے کس بات پر پیچھے سے ماں کی چوٹی گھسیٹتے جاتا تھا۔

سب سے بڑی بہن نے (جس کی پہلو نٹی بیٹی مبتلا سے بھی دو برس بڑی تھیں) دیکھ کر کہا: سبحان اللہ کیا ماں کا وقار ہے۔ لاڈ پیار بہت دیکھے مگر اتنا ناہموار، اس درجے بے تمیز جب ماں کا یہ بدڑا کر رکھا ہے تو ہمارا تو سر مونڈ کر بھی بس نہیں کرے گا۔ ہائے تو میرا بیٹا نہ ہوا تجھ کو ایسا ٹھیک بناتی کہ یاد ہی تو کرتا۔ باوجود یکہ بیٹی نے نصیحت کی بات کہی تھی مگر ماں پنجے جھاڑ کر اس کے پیچھے لپٹی اور سر ہو گئی۔

ماں کی پردہ داری کی وجہ سے باپ کو مبتلا کی شوخیوں کی پوری پوری خبر نہیں ہونے پاتی تھی پھر بھی جس قدر حال چار و ناچار معلوم تھا اس سے انہوں نے اتنا تو سمجھ لیا تھا کہ اس کا اٹھان اچھا نہیں۔ مبتلا کو چھٹا سال لگا تھا۔ باپ نے اس کو مکتب میں بٹھانا چاہا۔ عورتوں نے عذر کیا کہ آئے دن تو یہ بیمار رہتا ہے۔ مکتب کی قید، استاد کی تنبیہہ سے اس کا نگوڑا اتنا سا جی رہا سہا اور بھی اداس ہو جائے گا۔

ابھی جینے تو دو اور مبتلا کی ماں نے تو کھلا کھلا کہہ دیا کہ جب تک اصلی خیر سے اَن گنا نہ گزر جائے میں تو اس کو نہ لکھاؤں نہ پڑھاؤں غرض عورتوں کی ہٹ اور ہیکڑی نے مبتلا کے پورے تین برس کھوئے مگر سچی بات یہ ہے کہ مبتلا کا باپ اپنی طرف سے برابر اس کی کوششوں میں لگا رہا۔ اس پر بھی جو مبتلا تین برس تک آوارہ ہوتا رہا تو یہ اس کے باپ کا تساہل اور کمزوری، ماں کی نادانی اور حماقت اور خود مبتلا کی بدقسمتی اور کم بختی تھی۔

اتنا تھا کہ جب باپ کو مبتلا کی کوئی بے جا بات معلوم ہوتی تو اسے ڈراتے دھمکاتے تو نہیں مگر نرمی اور دل جوئی کے ساتھ اس کو سمجھا ضرور دیتے کہ بیٹا یہ حرکت بہت نامناسب ہے اور خود اس کے ساتھ ظاہری پیار اخلاص اتنا نہ رکھتے کہ ماں کی چوٹی کے ساتھ ان کی داڑھی بھی کھسوٹنے لگتا۔

مبتلا کو باپ کا کسی طرح کا خوف تو نہ تھا۔ مگر یوں کہو کہ زیادہ میل جول نہ ہونے کی وجہ سے ایک طور کی جھجک اور رکاوٹ تھی۔

چاہو اس کو لحاظ سے تعبیر کر لو۔ مگر کیا اتنا کرنے سے مبتلا کے باپ نے باپ ہونے کا فرض ادا کیا۔ ہرگز نہیں۔ اس نے عورتوں کو مبتلا کی شرارتوں کی پردہ داری کرنے دی۔ اس نے بیٹے کے حالات سے پوری پوری خبر نہ رکھی۔ اس نے جتنی خبر رکھی اس کا بھی تدارک جیسا چاہیے تھا نہ کیا۔ اس نے مستورات ناقصات العقل کی رائے میں آکر جلد سے جلد بیٹے کو پڑھنے کے لئے نہ بٹھایا اور اس کے اکٹھے تین برس ضائع ہونے دیئے اتنا غنیمت ہوا کہ مبتلا کو اس کی ماں نے اپنے وہم کے پیچھے اکیلا دو کیلا گھر سے باہر نہیں نکلنے دیا ورنہ محلے میں دھوبی کنجڑے، بھٹیارے، قصائی، تیلی اس قسم کے لوگ بھی رہتے تھے۔

اگر کہیں مبتلا ان لوگوں کے لڑکوں میں کھیلنے کودنے پاتا تو ساری خوبیاں جا کر ایک ذاتی شرافت باقی تھی وہ بھی گئی گزری ہوتی۔ جب تک میٹھا برس ختم ہو، مبتلا کے مزاج کی تلخی بڑھ گئی تھی۔ ادھر ابھی سالگرہ کو دو تین مہینے باقی تھے کہ باپ نے بسم اللہ اور مکتب کی چھیڑ چھاڑ شروع کی۔ بارے اس مرتبہ عورتوں نے بھی چنداں مزاحمت نہیں کی اور سالگرہ اور بسم اللہ دونوں تقریبیں ایک ساتھ ہو گئیں۔