296758فسانہء مبتلا1885ڈپٹی نذیر احمد

دوسرا باب: مبتلا کی تعلیم مکتبی اور اس کا اثر

اتنا تو ہوا کہ مبتلا کے لیے دروازے پر مکتب بٹھانا پڑا۔ شروع شروع میں تو میاں جی کے پاس تک جانے اور مکتب میں بیٹھنے کے لیے مبتلا نے خوب خوب فیل مچائے اور غضب بکھرا مگر آخر سودے کی چاٹ اور پیسوں کے لالچ اور ماں کے چمکارنے پچکارنے سے جانے اور بیٹھنے تو لگا۔

بیٹھے پیچھے پڑھنا چنداں مشکل نہ تھا۔ ذہن اور حافظہ دونوں خدا داد اس بلا کے تھے کہ جو دوسرے لڑکے ہفتوں میں کرتے تھے۔ وہ بھی بڑی ریں ریں کے ساتھ مبتلا گھنٹوں میں کھیلتے کودتے، چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے کر لیتا۔ کہتے ہیں کہ دو دن میں تو اس نے الف بے کے حروف مفرد ایسی اچھی طرح پہچان لیے تھے کہ کتابوں میں سے آپ ڈھونڈ ڈھونڈ کر بتاتا۔

پڑھنا تھا کہ اس کے ساتھ واہ واہ شاباش شروع ہوئی۔

اس کے دل کی امنگ بڑھتی چلی اور ہر دا کھلتا گیا۔ مبتلا نہ مطالعہ دیکھتا نہ سبق یاد کرتا، نہ آموختہ پڑھتا۔ مگر ایک ہی دفعہ کے دیکھ لینے سے وہ سب ہم سبقوں میں میر ہی رہتا تھا۔ بدشوخی اور شوخی اور شرارت کی نسبت جو چاہو سو کہو۔ پڑھنے لکھنے کے متعلق تو میاں جی کو اس کی شکایت کرنے کا موقع نہ ملا۔ پرلے سرے کی بے توجہی اور حد درجے کی بدشوخی پر چھ برس میں اس کی فارسی کی استعداد ایسی ہو گئی تھی کہ مکتب کے لڑکے تو کیا خود میاں جی باوجود یہ کہ اچھے جید فارسی دان تھے اور درسی کتابیں بھی ان کو خوب مستحضر تھیں۔

اس کو سبق دیتے ہوئے بھناتے تھے۔

مبتلا کو مکتب کی تعلیم نے اتنا فائدہ تو پہنچایا کہ اس کو ایک دوسرے ملک کی زبان جس کے بغیر اُردو کی تکمیل نہیں ہو سکتی اچھی خاصی آگئی مگر اس کی تعلیم سے اس کو ایک بہت بڑا نقصان بھی پہنچا جس کو اندر باہر کسی نے جانا پہچانا نہیں۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ مبتلا کو اپنا حسین ہونا کب سے معلوم ہوا۔ ہم اوپر لکھ چکے ہیں کہ اس خاندان میں شکل صورت کی بڑی پرچول رہتی تھی۔

اس خاندان کی عورتوں کے نزدیک تو دنیا بھر کے ہنر، سلیقے، حسب نسب، دولت، تندرستی، نیک مزاجی، صاحب اولاد ہونا، دینداری ساری نعمتیں اور برکتیں ایک طرف اور گورا رنگ اور نقشہ ایک طرف۔ صورت شکل تو انسان کے اختیار کی بات نہیں۔ خدا جس کو جیسا چاہتا ہے بناتا ہے۔ ایک ہی ماں کے پیٹ سے دس بچے ہوتے ہیں اور کیا خدا کی قدرت ہے کہ دس کی دس شکلیں الگ۔

ورنہ ایک دوسرے سے ملتبس ہو کر کوئی پہچان نہ پڑے، انسان کے چہرے کی بساط کیا، اتنی ہی سی، جگہ میں ہزاروں لاکھوں کروڑوں مختلف نقشے یہ سب اس کی قدرت کی دلیلیں ہیں۔ آدمی اتنا سمجھے تو اپنے چہرے مہرے پر نہ ناز کرے نہ دوسرے پر ہنسے، مگر مبتلا کے خاندان کو ایسے خیالات سے کیا واسطہ، یہاں تو چھوٹے بڑے، بڈھے جوان، بیاہے کنوارے سب کو صورت شکل کو پٹنا تھا۔

آپس ہی میں اس صورت شکل کے پیچھے ایک کی ایک سے نہیں بنتی تھی۔ ایک ایک کو چڑاتی۔ ایک ایک کی نقلیں کرتی اور اتفاق سے کنبے میں کوئی تقریب ہوتی اور یہ لوگ مہمان جاتے یا کہیں شامت کی ماری کسی نئی دلہن کو دیکھ آتے تو بس مہینوں ان کی صورتوں کا جھگڑا لگا رہتا۔ یہاں تک کہ ان عورتوں کی ایسی عادتیں دیکھ کر لوگ ان سے ملنے میں مضائقہ کرنے لگے تھے۔

مبتلا کا ایسے خاندان میں پیدا ہونا اورپرورش پانا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ جب اس کو بات کے سمجھنے کا شعور ہوا تو شاید سب سے پہلی بات جو اس نے سمجھی، یہی ہو گی کہ حسن صورت اس کو کہتے ہیں اور میں اس کا مصداق ہوں مگر جب تک مبتلا زنان خانے کی نگرانی میں رہا اس کی عمر ہی کیا تھی۔ سات آٹھ برس اس وقت تک وہ اتنا ہی سمجھ سکتا تھا کہ میٹھی چیز سب کو بھاتی ہے اور چونکہ وہ اپنے ذائقے میں بھی اس کی لذت پاتا تھا۔

اس نے سمجھا تھا کہ حقیقت میں بھانے کی چیز ہے۔ آگ کو چھوتے ہوئے لوگ ڈرتے ہیں اور اس نے بھی شاید دوچار بار اس سے چہکا کھایا ہو۔ اس کو معلوم تھا کہ آگ سے جل جاتے ہیں۔ غرض جس چیز کی نسبت لوگوں کو کہتے سنا کہ اچھی یا بُری ہے۔ آپ بھی تجربہ کیا تو ثابت ہوا کہ جس چیز سے آرام پہنچے دل کو خوشی ہو، اچھی ہے اور جس سے ایذا پہنچے تکلیف ہو بُری۔ حسن کی خوبی کی نسبت اس کو ایسا یقین کرنے کا کوئی ذریعہ نہ تھا۔

کیونکہ اس کو حسن سے متلذذ ہونے کی اس وقت تک اہلیت ہی نہ تھی۔ مکتب میں بیٹھنے کے بھی ایک مدت بعد اس میں جوانی کے ولولوں کی تحریک شروع ہوئی اور جوں جوں یہ تحریک قوت اور اشتداد پکڑتی گئی۔ اس پر پسندیدگی حسن کی وجہ منکشف ہوتی گئی۔ اسی کا تذکرہ گھر میں تھا اور اسی کا سبق مکتب میں اور اب لگا اندر سے دل بھی اس کی گواہی دینے۔ مبتلا نے جو زبان فارسی کے سیکھنے میں غیرمعمولی ترقی کی۔

اس کا بھی سبب یہی تھا کہ اکثر کتابیں نظم کی جن کو مبتلا کی شکل صورت کا آدمی بے مزا میر ذرالے پڑھے تو اچھے خاصے ثقہ مجرے کا مزا ملے۔ مضمون دیکھو تو چھڑا عاشقی جس کے نام سے نوعمر آدمی کے منہ میں رال بھر آئے۔ مادہ قابل، طبیعت مناسب، مبتلا کا تو حال یہ تھا کہ جو شعر عاشقانہ ایک بار بھی اس کی نظر سے گزرا۔ دیکھنے کے ساتھ ہی پتھر پر لکیر ہو گیا۔ غرض فیضانِ مکتب سے حضرت میں ایک صفت اور پیدا ہوئی یعنی عاشق مزاجی۔