296773فسانہء مبتلا1885ڈپٹی نذیر احمد

غرض وہ سب کاسٹ پٹانا اور ایک کا ایک سے پوچھنا اور ایک ایک سامنے ہاتھ جوڑنا۔ ایک ایک کے پاؤں پڑنا ایک تماشا تھا۔ قابل سیر، ایک کیفیت تھی لائق دید کہ رنڈیاں جو اپنے حسن کے غرور میں کسی کے ساتھ سیدھی بات نہ کرتی تھیں۔ اب ایک ایک کے آگے بچھی جاتی تھیں کہ خدا کے لیے کہیں ہم کو پناہ دو۔ ایک ایک کے پیچھے لپٹی تھیں کہ اللہ ہمیں نکال کر کہیں لے چلو ایک پکارتی تھی میں انعام اکرام سے باز آئی مجھے راستہ بتاؤ۔

دوسری چلاتی تھی۔ مجھے مجرے کی کوڑی مت دو مگر کسی ڈھب سے گھر پہنچاؤ۔ رات کے جلسے میں ایک طائفہ چلبلا بھانڈ کا بھی تھا۔ ان کم بختوں کو فی الوقت خوب سوجھتی ہے۔ ادھر تو یہ تمام ہل چل مچی ہوئی تھی اور ادھر چلبلا بے طلب بے فرمائش تیار ہو،اپنے ساتھیوں کو جمع کر کے لگا نقل کرنے۔

ادھر سے اُدھر اور اُدھر سے اِدھر دوڑا دوڑا، لوگوں کو ہٹاتا ہوا دباتا ہوا پھرنے لگا کہ کیا ہے ابے کیا ہے۔

کاہے کا غُل ہے، کیوں شور مچا رکھا ہے۔ دوسرا بولا،بے احمق تو نے نہیں سنا کہ حضرت کے چچا مکہ معظمہ سے تشریف لائے ہیں۔ پہلا کہنے لگا: کون چچا، ابوجہل یا ابولہب دوسرا پہلے کے منہ پر زور سے ایک طمانچہ مار کر کہتا ہے: چپ مردود کیا کفر بکتا ہے۔

ابے حضرت پیغمبر صاحب کے چچا نہیں۔ ہمارے (مبتلا کی طرف اشارہ کر کے) حضرت پیرومرشد کے چچا۔

پہلا: ہاں الحمدللہ پھر ڈرنا کیا ہے۔ آؤ ہم سب مل کر بھی ان کو چچا بنائیں۔ حج نصیب ہونے اور سلامتی سے واپس آنے کی مبارکباد دیں۔ ناچ دکھائیں گانا سنائیں۔ دوسرا: (پہلے کے منہ پر طمانچہ مار کر) ابے توبہ کر توبہ کہیں اوپر سے چھت نہ گر پڑے، سید آلِ رسول مولوی حاجی جو ابھی خدا کے گھر سے پھرے ہوئے چلے آرہے ہیں۔ کہیں ناچ دیکھتے ہیں اور بھانڈ دوزخ کے کنڈے۔

پہلا ہائے میرے اللہ رنڈیوں نے وہاں بھی بھانڈوں کو نہ چھوڑا۔ نرے کنڈے ہوتے تو ذرا دیر میں تو جلتے اور کیوں صاحب یہ سب لوگ (مبتلا اور اس کے ساتھیوں کی طرف اشارہ کر کے) کیا ہوں گے؟ دوسرا: ان کو کہتے ہیں کہ بھاڑ میں بھونے اور کڑھائی میں تلے اور بھٹی میں جلائے جائیں گے۔ پہلا: دونوں ہاتھوں کو گالوں پر ہولے ہولے تھپڑ مار کر اور خوف زدہ آنکھیں بنا کر، الٰہی توبہ الٰہی توبہ۔

دوزخ کی آنچ سے بچائے اور بھانڈؤں کو بھوت بنائے آسیب بنائے جو چاہے۔ سو کرے؟ مگر دوزخ کے کنڈے نہ بنائے۔

پہلا: پھر یہ حاجی صاحب چاہتے کیا ہیں؟ دوسرا: ”چاہتے یہ ہیں کہ نمازیں پڑھو، روزے رکھو، خدا کی بندگی کرو، روپیہ رنڈیوں کو دینا تو محض فضول ہے۔ رہے بھانڈ، ان سے بڑھ کر غریب محتاج اور کون ہو گا۔“ یہ کہہ عمامہ باندھ، پائنچے ٹخنوں سے اونچے کر جہاں کھڑا تھا اللہ اکبر کہہ کر ہاتھ باندھ اور منہ ہی منہ میں کچھ بڑبڑانے لگا۔

گویا امام بنا اور نماز شروع ہوئی۔ مسخرہ پن تو یہ تھا کہ نیت باندھ چکا ہے اور پھر ایک طرف یہ کہہ رہا ہے کہ بس بے تامل پھاٹک کھول دو اور مولوی یا حافظ یا حاجی یا وعظ جو ہوں ان کو آنے دو، دوسری طرف سب کو اشارہ کر رہا ہے کہ میرے پیچھے مقتدی بن کر کھڑے ہو جاؤ اور بڑبڑانے لگا۔ طائفے کے جتنے بھانڈ تھے سب صف بستہ ہو کر مقتدی بنے اور اس کے پیچھے کھڑے ہوئے۔

ذرا دیر گزری تھی کہ ایک نے صف میں سے نکل کر امام کے پیٹھ پر ایک دو ہتڑ مارا ایسے زور سے کہ تھوڑی دور آگے جا کر اوندھے منہ گر پڑا اور کہا: ”ابے بدعتی یہ کیسی بے وقت اور بے زخمی جماعت کی نماز پڑھ رہا ہے۔ اگر مولوی اسمعیل کے مقلدسن پائیں تو مارے کفر کے فتووں کے اُتو کر دیں۔“ امام: ابے تو کیا جانے یہ صلوٰة الخوف ہے، جیسی کہ لڑائی کے میدان میں ادا کی جاتی ہے اور پھر اسی طرح اپنی جگہ جا کھڑا ہوا۔

گویا اتنی حرکت پر بھی نماز باطل نہیں ہوئی تھوڑی سی دیر کے بعد پیچھے کی صف سے پھر ایک شخص آگے بڑھا اور اس نے امام کا عمامہ اتار تڑاتڑ آٹھ دس بیس لتیڑے رسید کیے۔ امام سہلاتا ہوا یہ کہتا ہوا بھاگا کہ کفر کا فتویٰ آیا، تو یہ لتیڑے مارنے والا کیا کہتا ہے: ابے ڈرو مت فتویٰ نہیں تیری عبادت کا صلہ ہے۔

امام بولا عبادت کا صلہ ہے تو اس میں مقتدیوں کا بھی حق ہے۔

پھر تو اس سرے سے اس سرے تک بلاامتیاز جوتی کاری ہونے لگی اور رنڈیوں اور بھڑوے اور میر محفل اور تماشائی سبھی پر آفت آئی۔ کہتے ہیں کہ چلبلا بھانڈ کے طائفے کا بیس روپے روز معمول تھا اور مبتلا اس طائفے کا ایسا گرویدہ تھا کہ اگر خرچ مساعدت کرتا تو ہر رات ان کا ناچ دیکھتا مگر اس پر بھی کئی سو روپے ان لوگوں کے چڑھ گئے تھے۔ اب مبتلا کے چچا کا آنا سن کر بھانڈوں کو بالکل ناامیدی ہو گئی اور ایسی نقل تو نہایت برجستہ تھی، مگر طبیعت کس کی حاضر تھی۔

اور دل کس کا ٹھکانے تھا کہ مزہ لیتا اور داد دیتا۔ مبتلا کی تو ایسی سٹی بھولی کہ ننگے پاؤں کبھی اندر جاتا اور کبھی باہر آتا۔ مگر کوئی تدبیر بن نہ پڑتی تھی۔ آخر اس نے اپنے باپ کے پرانے نوکر وفادار کو آواز دی۔ یہ بوڑھا آدمی اسم بامسمی مبتلا کو بہت سمجھاتا رہتا تھا مگر نوکر کی بساط کیا۔ جب وفادار نے بار بار کہنا شروع کیا مبتلا نے اس کو جھڑک دیا۔

وفادار نے دل شکستہ ہو کر مبتلا سے کنارہ کشی اختیار کی۔ مردانے میں اس کے رہنے کی ایک کوٹھڑی تھی۔ رات دن اسی کوٹھڑی میں پڑا رہتا۔ اندر سے کچھ فرمائش آئی تو اس کی تعمیل کر دیتا۔ مبتلا کے کسی کام کاج کو ہرگز ہاتھ نہ لگاتا۔ آدمی تھا زمانہ دید سمجھ چکا تھا کہ یہ لیل و نہار اس طرح پر تو سدا چلنے والا نہیں یا تو یہ رسم و راہ نہیں اور رسم و راہ یہ ہے تو بندئہ درگاہ نہیں۔

وفادار اکیلا کوٹھڑی میں بیٹھا ہوا دیکھتا نہیں تھا تو سنتا سب کی تھا۔

اس کو میرمتقی کا آنا اور ارباب جلسہ کا گھبرانا معلوم ہو چکا تھا، خلاف عادت مبتلا کے بلانے کی آواز سن کر مطلب تو سمجھا مگر جان بوجھ کر چادر تان کر لیٹ گیا۔ مبتلا نے ایک بار پکارا دو بار پکارا تین بار پکارا۔ جواب ندارد۔ اگر کبھی پہلے ایسا اتفاق ہوا ہوتا تو وفادار کی مجال تھی کہ مبتلا پکارے اور پہلی آواز پر جواب نہ دے مگر میرمتقی کا آنا تھا کہ باہر سے اندر تک سب کا رنگ بدل گیا، جو ناچیز تھے وہ اب عزیز تھے جو بااقتدار تھے، وہ اب ذلیل و خوار تھے۔

یہاں تک کہ مبتلا نے خود کوٹھڑی کے دروازے پر آکر پکارا۔ میاں وفادار، میاں وفادار جلدی اٹھو چچا آئے۔ وفادار نے گھبرا کر پوچھا کیا چھوٹے میاں حج سے تشریف لائے۔ مبتلا ”ہاں“ وفادار نے میر صاحب مرحوم کو یاد کر کے ایک آہ کی اور آنکھوں میں آنسو بھر لایا اور میرمتقی کے صحیح و سلامت واپس آنے پر خدا کا شکر کیا اور دروازے کھولنے کے ارادے سے دوڑا۔

مبتلا نے لپک کر روکا کہ ذرا ٹھہرو۔ ذرا ٹھہرو۔ مبتلا نے چچا کو دیکھا تو تھا مگر سات برس میں صورت بھول گیا تھا۔ وفادار سے کہا کہ ذرا کواڑوں کی دوڑ میں جھانک کر تو دیکھو وہی ہیں۔ وفادار نے پہلی ہی نظر میں پہچان لیا اور کہا کہ بے شک وہی ہیں اور اب تو عین بین سرکار معلوم ہوتے ہیں۔ مگر داڑھی میں تو ویسی سفیدی نہیں۔ مبتلا یہ سن کر وفادار کے گلے سے لپٹ گیا اور کہا کہ خدا کے لیے کسی طرح مجھ کو اس فضیحت سے بچاؤ۔

میں ان کم بختوں کو کہاں لے جاؤں اور کس طرح چھپاؤں۔

وفادار کو مبتلا کا اضطرار دیکھ کر بہت ترس آیا اور اس نے کہا تھوڑی دیر کے لیے ان لوگوں کو پاخانے کھڑا کر دیجئے۔ چھوٹے میاں آخر اندر جائیں گے۔ اس وقت ان کو نکال باہر کرنا۔ واقع میں اس کے سوا کوئی تدبیر ہی نہ تھی۔ آخر یہی کیا کہ جھپا جھپ ان سب کو پاخانے میں اوپر تلے ٹھونس آگے پیچھے دھکیل کنڈی لگا باہر کا پھاٹک کھول دیا۔

میرمتقی نے دوڑ کر بھتیجے کو چھاتی سے لگایا، اس وقت کی کیفیت بھی جس جس نے دیکھی ساری عمر اس کو نہیں بھول سکتا، بوڑھا پھونس نہیں مگر ادھیڑا اور جوان فرشتہ اور شیطان، یارحمت اور قہر یا نیکی اور بدی یا ثقہ اور رند یا حاجی اور پاجی یا چچا اور بھتیجا دونوں ایک دوسرے کے گلے لگے ہوئے کھڑے رو رہے تھے۔ مبتلا تو دھاڑیں مار رہا تھا اور میرمتقی کی آنکھوں سے برابر آنسو جاری تھے اور چونکہ رنج کو بہ تکلیف ضبط کرتے تھے، بوٹی بوٹی کانپ رہی تھی۔

پچاس ساٹھ آدمی حلقہ باندھے ہوئے گردوپیش تھے اور سب پر رقت طاری تھی۔ کامل پاؤ گھنٹے کے بعد متقی نے مبتلا کو سینے سے جدا کیا۔ سب کے ساتھ اس کو لے جا کر دالان میں بیٹھے۔ تھوڑی دیر سبھی سکوت میں تھے۔ آخر کسی نے میر صاحب مرحوم کا ذکر خیر نکالا۔ پہلے ان کی بھلی عادتوں کا مذکور رہا پھر علالت اور وفات کا آخر فاتحہ پڑھ کر لوگ رخصت ہوئے اور میرمتقی زنان خانے میں گئے۔