فسانہء مبتلا/10
ساتواں باب: میر متقی کی مبتلا کی بیوی سے ملاقات ماموں کا آنا سن کر بھانجی کو ماں باپ اور ساس سسر کا مرنا۔ بھائیوں کا ظلم اور سب سے بڑھ کر مبتلا کا اس سے بے تعلق رہنا۔ اپنی بے کسی گھر کی تباہی آئندہ کی ناامیدی غرض ساری داستان مصیبت اول سے آخر تک یاد آگئی۔ وہ دل ہی دل میں رونے کی تیاریاں کر چکی تھی۔
جوں ماموں نے اندر قدم رکھا اور بھانجی کے ساتھ نظر دوچار ہوئی۔ اس نے کسی طرح لڑکھڑاتے ہوئے کھڑے ہو کر سلام تو کر لیا اور پھر تو ایسی بلکی کہ غش کھا کر گر پڑی۔ ہاتھ پاؤں ٹھنڈے پڑ گئے۔ دانت پچی ہو گئے۔ لخلخے سنگھائے منہ پر گلاب کے چھینٹے دیئے۔ بارے ہوش آیا تو اس نے ایسے بین شروع کیے کہ سننے والوں کے کلیجے منہ کو آنے لگے۔
دل دہل گئے۔ آخر متقی نے سر پر ہاتھ پھیرا اور سمجھایا کہ مصیبت میں اس قدر رنج کرنا عبودیت کی شان نہیں ہے۔
رنج مصیبت کو نہ ٹال سکتا ہے اور نہ اس کو ہلکا کر سکتا بلکہ الٹا مصیبت کو بڑھاتا ہے۔ جیسے محبت ماں کو اکلوتے بیٹے کے ساتھ ہوتی ہے۔ اس سے لاکھوں کروڑوں درجے بڑھی ہوئی محبت خدا کو اپنے تمام بندوں کے ساتھ ہے۔ اگر خدا نہ چاہے تو کیا بندے آپ سے آپ پیدا ہو جائیں اور اپنے اختیار سے زندگی کریں۔ ایسا خیال کرنا تو کفر کے علاوہ غلط صریح بھی ہے۔
بندے بھلے اور بُرے امیر اور غریب اور ضعیف، حاکم اور محکوم، بادشاہ اور رعیت یہاں تک کہ ولی اور پیغمبر سب کے سب اس قدر عاجز اور بے اختیار ہیں کہ بغیر خدا کی مرضی کے ایک پتہ ہلانا چاہیں تو نہیں ہلا سکتے۔ ایک ذرے کو جگہ سے سرکانا چاہیں تو نہیں سرکا سکتے۔
کسی انسان کا نفع و ضرر نہ خود اس کے اختیار میں ہے نہ کسی دوسرے انسان کے۔ دنیا میں جس کسی کو جس کسی کے ساتھ کسی طرح محبت ہے۔
اس کے یہی معنے ہو سکتے ہیں کہ جس کے ساتھ محبت رکھتا ہے۔ اس کا فائدہ چاہتا ہے۔ نہ یہ کہ اس کو فائدہ پہنچتا ہے۔ یا پہنچا سکتا ہے۔ اس واسطے دنیا کی ساری محبتیں جو ہم کو حاصل ہیں۔ یہاں تک کہ زندگی اس کی دی ہوئی ہے۔ بایں ہمہ انسان کو اس زندگی میں ایذائیں بھی پہنچتی ہیں۔ مگر ان میں ضرور انسان کا کوئی نہ کوئی فائدہ مضمر ہوتا ہے۔ مثلاً طبیب کہ وہ کسی مریض کا علاج کرتا ہے۔
کبھی اس کو کڑوی دوا پلاتا ہے اور کبھی اس کی فصد لیتا اور کبھی بیمار کے زخم کو شگاف دیتا اور کبھی شاید اس کے عضو کو کاٹ بھی ڈالتا ہے مگر ایسا کرنے سے کیا کوئی شبہ کر سکتا ہے کہ طبیب اپنے بیمار کے ساتھ عداوت رکھتا ہے۔ اسی طرح جو تکلیفیں ہم کو دنیا میں پہنچتی ہیں اور بلاشبہ خدا کی مقدس مرضی سے پہنچتی ہیں۔ ظاہر میں تکلیف ہیں اور باطن میں آرام، ابتدا میں ایذا ہیں اور انجام میں راحت۔
اول تو اس کا فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ وہ تکلیف حقیقت میں بھی تکلیف ہے یا نہیں۔ فرض کرو کہ کسی عورت کا شوہر مر جائے۔ ظاہر میں بیوگی ایک بڑی مصیبت ہے۔ مگر کیا یہ ممکن نہیں کہ مرد زندہ رہتا اور بیوی پر سوکن لا کر اس کو زندہ درگور کرتا یا بیوی سے اس کا دل ایسا پھرتا کہ جب تک جیتا اس کو سخت ایذا دیتا یا ایسے امراض میں مبتلا ہوتا کہ سارے گھر کی زندگی دشوار کر دیتا اور اسی طرح کے اور بہت سے احتمالات ہیں جن کی وجہ سے ایک عورت اپنی بیوگی کو ترجیح دے سکتی ہے سہاگ پر۔
بس جب تک انسان کو علم مستقبلات یعنی علم غیب نہ ہو اور وہ اس کو نہ ہوا ہے اور نہ ہو گا۔ وہ کسی حالت کو جو اس پر یا کسی پر طاری ہو بُرا کہہ نہیں سکتا۔
دنیا کے بہت سے واقعات کو ہم پسند کرتے ہیں۔ مگر جس طرح ہماری معلومات نا تمام ہیں۔ اسی طرح جو نتیجے ہم اپنی معلومات سے نکالتے ہیں۔ ناقص، ادھوری روداد اس پر فیصلہ ناکافی تحقیقات اور اس پر تجویز اور مانا کہ جو تکلیف ہم کو پہنچی حقیقت میں تکلیف ہے تو کیا۔
شفیق باپ اپنے پیارے بیٹے کو منصف اور رحم دل بادشاہ اپنی عزیز رعیت کو تادیب یا تنبیہہ یا اصلاح یا کسی دوسری مصلحت سے ایذا نہیں پہنچاتا۔ ہمیشہ ایسی ایذائیں پہنچتی رہتی ہیں، نہ فریاد نہ شکایت، پس اگر خدا کی طرف سے ایک ایذا پہنچ جائے (جانے دو کی اس بے شمار احسانوں کو اور بھول جاؤ اس کی نا محصور نعمتوں کو) تو بندہ کیوں منہ پھلائے، کس لیے بڑبڑائے۔
سب سے بڑا فائدہ جو مصیبت سے انسان کو پہنچتا ہے۔ یہ ہے کہ مصیبت دل میں بالتخصیص عجز و انکسار کی صفت پیدا کرتی اور خدا کو یاد دلاتی ہے اور حقیقت میں مصیبت کے وقت بندہ خدا کی طرف رجوع کرتا ہے تو وہ مصیبت نہیں رحمت ہے۔ لیکن خدا کو یاد کرنے اور اس کی طرف رجوع کرنے کے یہ معنے نہیں ہیں کہ شکایت کرو اور اس سے ناراض رہو۔ بلکہ اس کے یہ معنے ہیں کہ اس کی رحمت پر پورا بھروسہ اور اعتماد کر کے صمیم قلب سے یقین کر لو کہ جو کچھ ہوا خوب ہوا۔
مناسب ہوا اور یوں ہی ہونا چاہیے تھا۔ یہ تو درجہ رضا اور تسلیم کا ہے اور اسی کا نام صبر جمیل ہے اور آدمی کو جس کا عقیدہ ضعیف اور دل کمزور اور جس کی ہمت کوتاہ اور جس کا ارادہ متزلزل ہے۔ اس درجے پر پہنچنا دشوار ہے۔ مگر اعلیٰ علیین پر نہیں پہنچ سکتے تو ایک سیڑھی دو سیڑھی جتنا ہو سکے کچھ تو اُچکو کسی قدر تو ابھرو کہ اسفل السافلین کفران سے نکلو۔ یوں کہنے کو تو زبان سے سبھی کہتے ہیں کہ دنیا فانی ہے، چند روزہ ہے، خواب ہے، سراب ہے، سایہ ہے، سحاب ہے، برق بے تاب ہے مگر مصیبت کے وقت بخوبی ظاہر ہو جاتا ہے کہ زبان ہمارے دل کی سچی ترجمان نہیں۔