296948فسانہء مبتلا1885ڈپٹی نذیر احمد

اکیسواں باب: سوکن کا راز فاش

معلوم نہیں مبتلا کو کب تک ہریالی کا اس نمط پر رکھنا منظور تھا کہ ایک دن گھر میں باہر سے اطلاع پہنچی کہ ایک بوڑھی عورت نوکری کی تلاش میں آئی ہے۔ اگر حکم ہوا اندر بھیج دیں۔ انتظام خانہ داری تو سب ہریالی کے ہاتھ میں تھا غیرت بیگم نے ہریالی سے پچھوایا۔

ہریالی کسی کوٹھڑی میں خدا جانے کس کام میں مصروف تھی۔ اس نے وہیں سے کہا کہ کیا مضائقہ۔ غرض وہ عورت اندر آکر سیدھی غیرت بیگم کے پاس جا بیٹھی اور لگی کہنے کہ میں تو ہریالی بیگم کے پاس آئی ہوں جن کو تمہارے میاں نکاح پڑھوا کر نکال لائے ہیں۔ مدت سے میں ان کے یہاں اوپر کے کام پر نوکر تھی۔ بیگم کو تو نکلے ہوئے تین مہینے ہونے کو آئے ہیں۔

میں ان کی خالہ کے پاس رہی۔

آج آٹھواں دن ہے کہ وہ بھی لکھنو سدھاریں۔ میں نے کہا چلو اگر بیگم پھر رکھ لیں تو میں ان کے مزاج سے واقف ہوں وہ مجھ کو جانتی پہچانتی ہیں۔ انجان جگہ تابعداری کرنی کیا ضرورت، کیا وہ اس گھر نہیں رہتیں۔ غیرت بیگم نے ہاتھ سے اشارہ کر کے بتایا کہ تم جن کے پاس آئی ہو وہ سامنے والی کوٹھڑی میں ہیں۔ وہ عورت اٹھ کر کوٹھڑی کی طرف چلی۔ دروازے تک پہنچی تھی کہ اتنے میں غیرت بیگم بے خود ہو کر بگولے کی طرح اٹھی اور وہ عورت ابھی ہریالی سے بات بھی نہیں کرنے پائی تھی کہ اس نے پہنچ کر بے چاری بڑھیا کو اوندھے منہ ہریالی پر دھکیل دیا اور کہا کہ تم نے دیکھا یہ ہریالی نہیں گھر والی ہے۔

یہ بی بی ہے۔ یہ میری سوکن ہے۔ میں رانڈ ہوں یا سوہاگن ہے۔ میں لونڈی ہوں یہ بیگم ہے۔ میں چڑیل ہوں یہ حور ہے۔ یہ میاں کی لاڈو ہے یہ میاں کی چہیتی ہے۔ یہ میاں کے کلیجے کی ٹھنڈک ہے۔ یہ کہتی جاتی تھی اور اس کے ساتھ ہزار ہا گالیاں اور سینکڑوں کوسنے اور دو ہتڑ تھا کہ باری باری سے اس شامت کی ماری بڑھیا اور ہریالی پر اور اپنے آپ پر بھی اس زور سے پڑ رہا تھا کہ گویا مزدور سڑک کوٹ رہے ہیں۔

گھر میں بہتیری لونڈیاں اور مامائیں تھیں، مگر سیدانی کا جلال دیکھ کر کسی کی ہمت نہ پڑ سکی کہ کوٹھڑی کی طرف رخ کرے۔ سب کی سب بدحواس ہو کر بھاگ کھڑی ہوئیں۔ ہمسائے کی عورتیں کوئی کھڑکیوں میں سے کوئی دیوار پر سے کھڑی جھانکتی تھیں۔ پر کسی سے اتنا نہیں ہو سکتا تھا کہ گھر کے اندر قدم رکھے۔ مبتلا کو ڈھنڈوایا تو وہ بھی اس وقت کہیں باہر گئے ہوئے تھے، مردانے میں اکیلا وفا دار اس کو اور تو کچھ نہ سوجھی، گھوڑا تو دروازے پر بندھا ہوا تھا ہی۔

منہ میں لگام دے ننگی پیٹھ سوار ہو بگ ٹٹ سیدھا پہنچا کچہری میں سید ناظر کے پاس۔ ناظر اسی گھوڑے پر چڑھ دھم سے آموجود ہوئے اور اتفاق سے سید حاضر بھی کسی ضرورت سے دو تین دن کے آئے تھے۔ کچہری سے ان کے پاس بھی آدمی دوڑا دیا کہ آپ بھی جلد آئیے۔ غرض سید حاضر اور مبتلا بھی آگے پیچھے پہنچ گئے غیرت بیگم سید حاضر کے آنے سے پہلے کھڑی اور پڑی اتنا پیٹی اتنا پیٹی کہ آخر اس کو غش آگیا، ناظر جس وقت پہنچا ہے تو وہ بالکل بے ہوش پڑی تھی۔

ناظر کے آنے کے ساتھ اس کو ہوش میں لانے کی تدبیریں شروع کیں سید حاضر اور مبتلا دونوں آئے تو اس کے بعد دیر بعد غیرت بیگم کو ہوش آیا۔ سب سے زیادہ چوٹ غیرت بیگم ہی کو لگی کہ اس نے پیٹ پیٹ کر اپنا سارا بدن چوڑی کی طرح نیلا کر لیا تھا۔ ہریالی کی بھی کندی خوب ہوئی۔ مگر اس کو گجی مار لگتی تھی۔ بڑھیا ہریالی اور کوٹھڑی کی دیوار کے بیچ میں آکر بچ گئی مگر وہی مثل ہے کہ مرغی کو تکلے ہی کا گھاؤ بہت ہوتا ہے۔

دو تین دو ہتڑ جو اس پر جمتے ہوئے بیٹھ گئے۔ وہ اتنے ہی میں سبکیاں لینے لگی۔ اگر ناظر نہ ہو تو کوتوالی والے کیا اس مقدمے کو بے چالان کیے رہیں۔ توبہ اور اگر حاضر نہ ہوتا تو ناظر اور مبتلا آپس میں کٹ مریں۔ پانچ چھ دن کو بیماروں کی دوا دارو ہوتی رہی۔ چوٹ کے موقع پر ہلدی کا حلوا پکا پکا کر باندھا۔ سیکنے کی جگہ پرانے روڑ سے سیکا پھٹکری کو دودھ میں جوش کر کے پلایا۔

اب کیا باقی رہ گیا تھا۔ جس کے لیے مبتلا کو ہریالی سے ملنے میں تامل ہوتا۔ حاضرناظر بہن کی خدمت گزاری میں لگے تھے اور مبتلا کھلم کھلا ہریالی اور اس کی بڑھیا بارے۔ جب سب کے ہوش و حواس درست ہوئے تو لگے اپنی اپنی جگہ صلاحیں کرنے۔ مبتلا اور ہریالی نے یہ مصلحت گٹھی کہ اب اسی گھر میں برابری کے داعیے سے رہنا اور جلتوں کو خوب جلانا۔ ادھر حاضر ناظر اور غیرت بیگم کی آپس ہی میں پھوٹ تھی۔

ناظر کہتا تھا کہ ابھی لگے ہاتھ پہلے تھانے میں اطلاع لکھوا کر ایک دم سے تین نالشیں تو فوجداری میں داغو۔ مداخلت بے جا کی ہریالی پر اور ضرر رسانی اور اپنے اور دونوں بچوں کے نفقے کی مبتلا پر اور ایک دعویٰ مہر کا کاغذ کامل القیمت پر دیوانی میں دائر کرو۔ غیرت بیگم معاملے مقدمے کو تو کچھ سمجھتی بوجھتی نہ تھی وہ اپنی اسی ایک بات پر اڑی ہوئی تھی کہ مجھ کو سید نگر پہنچاؤ، نہیں تو افیون کھاتی ہوں۔

سید حاضر تھا میرمتقی صاحب کے خوشہ چینوں میں اور بات کے انجام کو سوچتا تھا۔ اس کی رائے یہ تھی کہ نہ تھانے میں اطلاع لکھواؤ نہ سرکار دربار میں کسی طرح کی نالش فریاد کرو نہ سید نگر جاؤ نہ افیون کھاؤ، صبر کر کے چپ چاپ گھر میں بیٹھی رہو۔ سوکن کا آنا تمہاری تقدیر میں تھا سو ہوا۔

اب تمہارے شور و فساد سے بہت ہو گا تو شاید اس گھر سے نکل جائے، مگر تم اپنے میاں کو اس کے چھوڑ دینے پر مجبور نہیں کر سکتیں۔

تم جو سید نگر جانے یا افیون کھانے کو کہتی ہو، یہ تمہاری نامراد سوکن کی عین مراد ہے۔ ناظر بھائی نے جو تدبیر بتائی اس کا خلاصہ یہ ہے۔ لڑائی اور لڑائی کا ضروری نتیجہ نقصان اور تردد اور فضیحت اور رسوائی، اب تو سوکن کے آنے سے تم کو صرف ایک فوری تکلیف پہنچی ہے اور تم افیون کھانے کو موجود ہو۔ لڑائی کی صورت میں بہت سی واقعی تکلیفیں ایسی پیش آئیں گی کہ شاید تمہارے ساتھ مجھ کو اور ناظر بھائی کو بھی افیون کھانی پڑے، میری سمجھ میں نہیں آتا کہ سوکن کے آنے پر تم اس قدر آپے سے باہر کیوں ہو۔

کیا سوکن تم پر آج آئی ہے۔ تمہارا تو بیاہ ہوا ہے پیچھے اور سوکنیں تمہارے بیاہ سے بہت پہلے کی آئی ہوئی موجود تھیں، کیا تم کو معلوم نہیں، تم ہی بتاؤ کہ مبتلا بھائی کس دن بے سوکن کے رہے۔ سارا سید نگر جانتا ہے کہ میں نے تمہاری منگنی کے وقت بہتیرا غل مچایا مگر میری سنتا کون تھا۔ میں تو تمہارے نصیبوں کو اسی دن رو چکا۔ تمہاری سمجھ کا پھیر ہے، ورنہ میں تو حقیقت میں اس بات کو سن کر بہت خوش ہوا تھا کہ مبتلا بھائی نے نکاح پڑھا لیا۔

اس سے تو یہ پایا جاتا تھا کہ انہوں نے آوارگی سے توبہ کی، کوٹھوں کوٹھوں سرِ بازار خدائی خوار پڑا پھرنا بہتر یا ایک کا ہو رہنا اور اس کو اپنا کر لینا بہتر، تم کیسی مسلمان ہو کہ ایک شخص جب تک خلاف شرع چلتا رہا تم نے ہوں تک نہ کی، اس کا طریقہ شریعت پر آنا تھا کہ تمہارے تن بدن میں آگ ہی تو لگ گئی۔ ہم تو بھائی ایسے دین و ایمان کے قائل نہیں۔

بلکہ انصاف کی بات تو یہ ہے کہ مبتلا بھائی نے تمہارا بڑا لحاظ کیا کہ نکاح کو تم سے چھپایا اور تمہاری خاطر سے بی بی کو ماما بنایا اور میں سمجھتا ہوں کہ اگر تم پردہ فاش نہ کرتیں تو مبتلا بھائی اس عورت کے ساتھ اپنے معاملات کو اسی طرح دبا دبایا رہنے دیتے مگر تم نے بیٹھے بٹھائے سوئی ہوئی بھڑوں کو جگایا۔ ان کو حیلہ ہاتھ آیا۔

اب اگر وہ اس عورت کی اور بڑھیا کی دلجوئی اور خبرگیری نہ کرتے تو سارا گھر کھچا کھچ پھرتا۔

میں نے تو جس وقت آکر بڑھیا کو دیکھا۔ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ میرے تو ہوش اڑ گئے تھے۔ ہاتھ پاؤں ٹھنڈے برف، چہرے کی رنگت متغیر، میں تو سمجھا خدا جانے کہاں بے موقع صدمہ پہنچا کہ اس کا سانس پیٹ میں نہیں سماتا، پوچھو میاں ناظر سے اخباروں میں کئی بار دیکھنے میں آیا ہے کہ کسی گورے نے ایک قلی کو تھپڑ کھینچ مارا یا ٹھکرا دیا اور قلی فوراً مر گیا۔

غیرت بیگم تم نے یہ بڑی سخت بے جا حرکت کی اور اگر تم اس طرح دست درازی کرو گی تو یقین جانو تم اپنی تو اپنی ایک نہ ایک دن سارے خاندان کی ناک کٹوا دو گی، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خدا کے چند بدنصیب بندے یعنی لونڈیاں جو تمہارے اختیار میں ہیں تم حق ناحق اپنا غصہ ان پر نکالتی رہتی ہو۔ یہ بے چاریاں تمہارا کچھ کر نہیں سکتیں۔ ہاتھ چھوٹا ہوا، طبیعت بڑھی ہوئی تم سمجھیں کہ سب جانور ایک ہی لاٹھی سے ہانکے جاتے ہیں۔

سوکن اور بڑھیا دونوں کو اٹھا کر پیٹ ڈالا۔ گویا وہ تمہاری لونڈی ہے اور یہ تمہاری باندی۔ وہ تو خدا نے اتنی خیر کی کہ بڑھیا مری نہیں اور ادھر عین وقت پر آ پہنچے میاں ناظر، کہ ان کے ملاحظے سے کوتوالی والوں نے تھوپ تھاپ کر دی۔ ورنہ ساری شیخی کرکری ہو جاتی کہ سادات سید نگر کی بیٹی میر مہذب کی بہو کی ڈولی کوتوالی کے چبوترے پر دھری ہوتی۔

صدآفرین ہے تمہاری سوکن پر، ہے تو ذات کی کنچنی مگر بڑی ضبط کی آدمی ہے، کہ تم سے کہیں زبردست معلوم ہوتی ہے۔ مگر چپکی مار کھایا کی اور الٹ کراف تک نہ کی، کیوں غیرت! جیسا تم نے اس کو مارا تھا، اگر وہ بھی برابر سے مارتی، تو تمہاری عزت تو دو کوڑی کی ہو جاتی۔ مگر اتنا فائدہ تو ضرور تھا کہ پھر تمہارا ہاتھ کسی پر نہ اٹھتا، سید حاضر نے ناظر اور غیرت بیگم کو ایسا آڑے ہاتھوں لیا کہ دونوں کو کچھ جواب نہ بن پڑا اور دونوں اپنا اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔

آخر ناظر بولا کہ آپ ہم دونوں سے بڑے ہیں، جو کچھ آپ کے نزدیک مناسب ہو۔ اس کی تعمیل میں نہ مجھ کو عذر ے اور نہ آپا کو، یہ معاملہ ناموس کا ہے اور بھائی بہنوں کی ناموس کچھ جدا جدا نہیں ہوتی۔ اس میں رتی برابر فرق نہیں کہ آپ جو کچھ کریں گے آپا کے حق میں بہتری کریں گے۔ سید حاضر نے کہا: