فسانہء مبتلا/40
بس تو مجھ کو مبتلا بھائی سے دو باتیں کر لینے دو۔ انشاء اللہ میں کوئی ایسی راہ نکالوں گا کہ دونوں میاں بیوی میں صفائی ہو جائے۔ ایسا موقع تاک کر کہ مبتلا مردانے میں اکیلا تھا، سید حاضر خود اس کے پاس گئے جس وقت سے گھر میں یہ واردات ہوئی تھی۔ حاضر اور ناظر دونوں کی طرف سے بُرے ہی بُرے خیالات مبتلا کے دل میں گزرتے تھے۔ اس کو ساری عمر کبھی کچہری جانے کا اتفاق نہیں ہوا بس کچہری کے نام سے اس کا دم فنا ہوتا تھا اور حاضر ناظر دونوں کو خصوصاً ناظر کو کچہری
ایسی تھی جیسے مچھلی کو تالاب، مویشی کو تھان، پرند کو گھونسلا، عورت کو میکا۔
باوجود یکہ سر تا سر قصور غیرت بیگم کا تھا، مگر مبتلا الٹا چور کی طرح سہا جاتا تھا کہ دیکھئے یہ بھائی بہن کئی کئی دن سے کمیٹیاں کر رہے ہیں۔
کیا فساد کھڑا کرتے ہیں۔ اس کے دوست آشناؤں میں بھی کسی نے اس کو کوتوالی اور فوجداری میں استغاثہ کرنے کی صلاح دی تھی، مگر یہ اس کو مرددا بناتے تھے، کچہری کا نام آیا اور اس کا رنگ فق ہوا۔ وہ بگڑ بگڑ کر ایک ایک کی منت کرتا تھا کہ یارو مجھ سے مدعی بننے کی توقع مت کرو۔
کوئی ایسی تدبیر بتاؤ کہ اگر یہ لوگ مجھ پر نالش کریں اور کریں ہی گے تو مجھ کو حاکم کے روبرو نہ جانا پڑے۔ بہتیرا لوگ سمجھاتے تھے کہ ان کی طرف سے نالش کے ہونے کی کوئی روداد نہیں اور فرض کیا نالش ہو بھی تو تم اپنی طرف سے جواب دہی کے لیے مختار یا وکیل کھڑا کر دینا، بلکہ بعضے تو شرط بندھتے تھے کہ اگر نالش ہو اور خدانخواستہ تم پر کسی طرح کی آنچ آجائے تو حاکم جو سزا تمہاری تجویز کرے اس کی چوگنی ہم بھگتنے کو موجود ہیں چاہو ہم سے لکھوا لو۔
مبتلا کہتا تھا تم ناظر بھائی کے ہتھکنڈوں سے واقف نہیں ہو، ارے میاں، وہ اس بلا کا آدمی ہے کہ چچا باوا بے چارے کسی لینے میں نہیں دینے میں نہیں۔ اس نے دل پر رکھا تو شہر سے نکلوا کر چھوڑا۔ مبتلا کا حال یہ ہو گیا تھا کہ ہریالی اور اس کی بڑھیاکی مرہم پٹی کی ضرورت سے کھڑے کھڑے گھر میں جاتا تو الٹے پاؤں باہر بھاگا ہوا آتا کہ دیکھوں، کہیں سرکار سے طلبی تو نہیں آئی، اتنے دن نہ تو اس نے پیٹ بھر کے کھانا کھایا اور نہ پوری نیند سویا۔
اگر تھوڑے دن اور سید حاضر کی طرف سے سبقت نہ ہوتی تو مبتلا اس قدر پریشان تھا کہ وہ ابتدا کرتا اور اتنے دن بھی وہ اپنے آپ کو لیے رہا۔ تو ان لوگوں کی نارضامندی کے خیال سے اس کو جرأت نہیں ہوئی۔
سید حاضر کو دور آتا ہوا دیکھ کھڑا تو ہو گیا۔ مگر اس وقت تک اس کے دل میں کھٹکا تھا کہ ان کا آنا خالی ازعلت نہیں۔ جب سید حاضر نے قریب پہنچ کر معانقے کے لیے ہاتھ پھیلائے تو اس کو اطمینان ہوا اور بھائی کے گلے لگ کر غیرت بیگم کی زیادتی اور اپنی مجبوری اور اتنے دن کی پریشانی کو یاد کر کے خوب رویا۔
سید حاضر کا بھی جی بھر آیا۔ دیکھو گھر میں خدا کے فضل سے سب طرح کی فراغت ہے ایک چھوڑ دو دو بیبیاں ہیں۔ بچے ہیں کسی بات کی کمی نہیں، مگر ایک بری لت جو اپنے پیچھے لگا لی ہے تو زندگی کیا تلخی سے گزرتی ہے، معانقے کے بعد دونوں بھائی ایک جگہ بیٹھے تو سید حاضر نے کہا:
مبتلا بھائی یہ نیا رشتہ تمہارے ساتھ کیا ہوا کہ وہ پرانا رشتہ بھی اس کے پیچھے گیا گزرا ہوا۔
دیہات کا کم بخت کیا برا دستور ہے کہ ہم تو بہن کے گھر پر بلا ضرورت آنہیں سکتے۔ اب تمہاری ہی طرف سے ملاقات ہو تو ہو۔ سید نگر تو بھلا تم کیوں آنے لگے۔ شہر میں بھی تم کہیں نظر نہیں، آج آٹھواں دن ہے کہ میں بلاناغہ دونوں وقت یہاں آتا ہوں۔ تم کو دو چار بار دیکھا بھی۔ مگر تمہارا رخ نہ پایا۔ آخر آج مجھ سے نہ رہا گیا۔ تو میں نے کہا لاؤ میں ہی پیش قدمی کر کے تم سے ملوں۔
مبتلا: کیا کہوں میں ندامت کی وجہ سے نہیں مل سکا۔
حاضر: ندامت کی کیا بات ہے! عورتیں ناقصات العقل آپس میں لڑا جھگڑا ہی کرتی ہیں۔ اگر مرد ایسی ایسی باتوں کا خیال کیا کریں تو دنیا میں کیسے گزر ہو۔
مبتلا: آپ پر ثابت تو ہو گیا ہو گا کہ زیادتی کس کی تھی۔
حاضر: اس معاملے میں میرا منہ نہ کھلواؤ۔ میں تم سے کیسی ہی سچی بات کیوں نہ کہوں پر تم یہی سمجھو گے کہ بہن کی طرف داری کرتا ہے۔
حاضر: دوسرا نکاح تو تم کر ہی چکے۔ اب اس کی نسبت یہ کہنا کہ تم نے جلدی کی یا بے جا کیا فضول ہے۔ مناسب کیا، خوب کیا اور ضرور کرنا چاہیے تھا، تمہارا طرز زندگی دین کے، شرافت کے بھلمنساہٹ کے عقل کے سب کے خلاف تھا۔ بڑی خوشی کی بات ہے کہ تم نے اس سے توبہ کی، خدا کرے کہ تمہاری یہ توبہ پہاڑ کی طرح مستحکم ہو۔ بھاری بھرکم ہو، مضبوط ہو، اٹل ہو مگر مجھ کو اس بات کا اندیشہ ہے کہ ایک مکدر کو تم اٹھا نہ سکے جوڑی تم سے کیسے ملائی جائے گی۔
تمہاری وہی مثل ہے کہ تنور سے بچنے کے لیے بھاڑی میں گرے۔ دو بیبیوں کا رکھنا، کچھ آسان کام نہیں، تم نے ایسی ہنڈیا پکائی ہے کہ یہ واقعہ جو پیش آیا، اس کا پہلا ابال ہے۔ جب کھرچن کی نوبت آئے گی تو اصل مزہ معلوم ہو گا۔ یقین جانو کہ میں کچھ بہن کی پاسداری سے نہیں کہتا۔ بلکہ حقیقت نفس الامری بیان کرتا ہوں کہ تم نے غیرت کی قدر وقعت کو مطلق نہیں پہچانا۔
غیرت بیگم خدانخواستہ (برامت ماننا) تمہاری اس بی بی کی طرح گری پڑی، بازاری عورت نہیں۔ وہ ایسے جتھے اور ایسے گروہ اور ایسی برادری اور ایسے خاندان کی بیٹی ہے کہ جہاں اس کا پسینہ گرے۔ آج سیدنگر میں کم سے کم دوسو آدمی نکلیں گے۔ جو اپنا خون بہانے کو موجود ہو جائیں گے۔ عورتوں کے معاملے عزت اور آبرو اور ناموس کے معاملے میں مال کی تو کیا حقیقت ہے۔
عزت کے آگے شرف خاص کر دیہات کے، خاص کر سادات، خاص کر سادات سید نگر جان کی ذرا بھی پرواہ نہیں کرتے۔ یاد کرو تو کتنی منت کس قدر خوشامد کیسی آرزو سے ماموں اور ممانی (خدا ان دونوں کو جنت نصیب کرے)۔ غیرت بیگم کو بیاہ کر لائے۔ آج کو وہ دونوں یا ان میں سے ایک بھی زندہ ہوتے تو کیا تمہاری مجال تھی کہ تم غیرت بیگم پر سوکن لاؤ اور اسی کی گود میں بٹھاؤ، پھر بندئہ خدا تم کو اتنا بھی خیال نہ آیا کہ ماں باپ اس کے نہیں۔
ساس سسرے اس کے نہیں۔ دنیا میں وارث کہو، سرپرست کہو، ایک تم۔ سو تم نے جلا جلا کر اس کا یہ حال تو کر دیا کہ سید نگر کی نسبت ایک تہائی بھی باقی نہیں رہی اور اس پر بھی تم کو صبر نہ آیا۔ سوکن کو لابٹھایا۔ عورت ہو تو جانو، عقل ہو تو پہچانو کہ سوکن کا کیسا داغ ہوتا ہے۔ بیوگی سے بڑھ کر۔ میاں نکٹھو اپاہج ہو یا بدمزاج ہو۔ روٹی کھانے کو، اولاد جی بہلانے کو نہ ہو، سب مصیبتیں جھیلی جا سکتی ہیں اور نہیں جھیلی جا سکتی تو سوکن کی۔
دنیا کے اور جلاپے جلاپے ہیں اور سوکن کا جلاپا سلگایا۔ جس شخص پر مصیبت کا پہاڑ ٹوٹ پڑا ہو۔ وہ اگر افیون کھا لیتی یا کنویں میں گر پڑتی یا پیٹ میں چھری بھونک لیتی، اس سے کسی بات کا تعجب نہ تھا بلکہ تعجب یہ ہے کہ رونے پیٹنے پر قناعت کی۔ اگر خدانخواستہ اس نے اپنے آپ کو ہلاک کر لیا ہوتا تو تمہارا کیا جاتا، تم تو نئی بی بی کے ساتھ چین کرتے۔ گل چھرے اڑاتے ہم کو بہن کہاں پیدا تھی۔