فسانہء مبتلا/41
مبتلا: اگر آپ کہیں تو میں اس عورت کو چھوڑ دوں۔
حاضر: میں تو چھوڑنے کو نہیں کہہ سکتا اور تم ایسے چھوڑنے والے ہوتے تو کرتے ہی کیوں۔ فرض کیا کہ تم نے میرے کہنے پر اس کو چھوڑ دیا اور پھر وہی سابق کا وطیرہ اختیار کیا تو اپنے ساتھ دنیا اور دین دنوں جگہ میرا منہ بھی کالا کراؤ گے۔
مبتلا: پھر آپ ہی کوئی راہ نکالیے۔ مجھ سے ایک نادانی تو ہوئی اور اپنی طبیعت کو بار ہا آزما چکا ہوں میرے قابو کی نہیں آج آپ سے ایک وعدہ کروں اور کل کو جھوٹا ٹھہروں۔
تو پھر آپ کے نزدیک میرا کیا اعتبار رہا۔ اس سے بات کا صاف صاف کہہ دینا اچھا اور اگرچہ آپ سے اس معاملے میں صلاح پوچھنا داخل بے حیائی ہے مگر چچا باوا چلتے چلتے کہہ گئے تھے کہ اگر کوئی مشکل آ پڑے تو آپ کی رائے پر عمل کرنا اور یوں بھی آپ بڑے بھائی ہیں۔
باپ کی جگہ آپ ہی اگر اڑی پر آڑے نہ آئیں گے، تو میں کس کے پاس التجا لے جاؤں۔ بندے کے سو قصور خدا معاف کرتا ہے، آپ ازبرائے خدا میرا ایک قصور معاف کیجیے۔
حاضر: بات یہ ہے کہ میں تمہاری اس نئی بی بی کے حالات سے بخوبی واقف نہیں، میں کچھ نہیں کہہ سکتا کہ کس طرح اس کے ساتھ مدارت کرنی مناسب ہے۔
مبتلا: اس کم بخت کے اور حالات ہی کیا ہیں۔ بازاری عورت ہے تن تنہا مدت سے توبہ توبہ پکار رہی تھی، میری جو شامت آئی۔ اس کے ساتھ عقد شرعی کر لیا کیونکہ چچا باوا کے سامنے آوارگی سے میں توبہ کر چکا تھا۔
حماقت پر حماقت یہ ہوئی کہ اب میں اس گھڑی کو بہت پچھتاتا ہوں کہ گھر میں لا کر اوپر کا کام کاج سپرد کیا۔ دوسری ماماؤں کی طرح رہنے سہنے لگی، اگر میں نے اس کے ساتھ کسی طرح کا سروکار رکھا ہو تو مجھ پر خدا کی مار پڑے، یہ تو اس کی پچھلی کیفیت ہے۔ آئندہ کے لیے بھی اگر آپ کی مرضی ہو تو وہی ماماؤں کی طرح رہے گا اور بدستور گھر کی خدمت کرے گی۔
حاضر: اس کا غیرت بیگم کے پیش نظر رہنا تو میں پسند نہیں کرتا۔
کیونکہ اس صورت میں فساد عاجل کا بڑا اندیشہ ہے۔ دو سو کنوں کی مثال میں تمہیں کس طرح بتاؤں یوں سمجھو کہ دوگلاس ہیں ایک میں سوڈا ہے پانی میں حل کیا ہوا اور دوسرے میں ایسڈ، ممکن نہیں ہے کہ سوڈا اور ایسڈ ملیں اور ان میں جوش و خروش پیدا نہ ہو پس دونوں کو ایک جگہ رکھنے کا تو تم کبھی بھول کر ارادہ نہ کرنا۔ ورنہ آج دو ہتڑ تھے تو کل جوتیاں ہوں گی او رپرسوں چھریاں۔
اس کو تو کسی دوسرے شہر میں یا خیر دوسرے محلے میں یا خیر دوسرے گھر میں تو رکھنا ضرور ہے۔ مگر مشکل یہ ہے کہ تم کہتے ہو کہ وہ اکیلی ہے۔ تن تنہا، آدمی زیادہ رکھے جائیں تو تمہاری چادر میں اپنے پاؤں پھیلانے کی گنجائش نہیں۔ پس صرف یہی ایک تدبیر ہے کہ زنانے مکان میں پورب کی طرف جو ایک کھانچا سا نکل گیا ہے پردے کی طرف دیوار کھچوا لو اور ڈیوڑھی میں سے دروازہ پھوڑ کر اتنا گھر الگ کراؤ اور حقیقت میں یہ تھا بھی دوسرا گھر، ماموں باوا نے مول لے کر باہر گلی کا دروازہ تیغہ کرا کے زنانے مکان میں ملا لیا تھا۔
تیغے کا نشان اب تک موجود ہے اتنا مکان ایک مختصر خانہ داری کے لیے بخوبی کافی ہے۔ ضرورت کی سب چیزیں موجود ہیں۔ دالان در دالان آگے سائبان۔ دونوں طرف بڑی بڑی دو کوٹھڑیاں۔ باورچی خانہ اس کے بغل میں چیز بست رکھنے کو لمبی کولکی۔ سامنے کے ضلع میں سہ درہ بس اور چاہیے کیا۔ بڑے گھر کی طرف خدا کے فضل سے آدمی زیادہ ہیں اور خرچ بھی بہت ہے۔ برابری اگر چاہو تو دونوں گھروں میں ممکن نہیں۔
اور ضروری بھی نہیں اور مناسب بھی نہیں۔ چھوٹے ماموں باوا پینسٹھ روپے کی تنخواہیں اور کرایہ تمہارے نام کرا گئے ہیں اور ساٹھ کی غیرت بیگم کے نام سو اپنے پینسٹھ میں تیس روپے چھوٹی بی بی کو دیا کرو۔ اکیلا دم ہے۔ فراغت سے بسر کر سکتی ہیں۔ پینتیس تم کو بچیں گے۔ اس میں تمہارا کپڑا ہے اور باہر مردانے کا خرچ، غیرت بیگم کے ساٹھ کو ہاتھ مت لگاؤ۔
ایک دن بڑے گھر میں رہو ایک دن چھوٹے گھر میں نہ ہڑ ہڑ نہ کھڑ کھڑ۔ اللہ اللہ خیر صلا، مبتلا تو اپنی جگہ پر ڈر رہا تھا کہ نہیں معلوم شہر سے نکلوائیں گے یا قید ڈلوائیں گے یا گھر بار ضبط کرائیں گے۔ سید حاضر کا فیصلہ سننے کے ساتھ اس کے پیروں پر گر پڑا کہ بس اس میں اگر میری طرف سے کبھی سرموفرق ہو تو جانیے گا کہ میری اصالت میں فرق ہے۔ ہریالی بھی اپنی جگہ بہت خوش ہوئی اور سمجھی کہ اب میرا بی بی ہونا سب پنچوں نے مانا اور گھر الگ پایا، میاں کے پینتیس بھی میرے اپنے ہی ہیں۔
وہ ملا کر تنخواہوں میں کرائے میں بڑا آدھا میری طرف رہا۔ کہاں غیرت بیگم سیدانی اشراف میاں کی پھوپھی زاد بہن صاحب اولاد آٹھ نو برس کی بیاہی ہوئی اور کہاں میں، انصاف کی رو سے تو میں ان کی جوتی کی برابری نہیں کر سکتی۔ قربان جاؤں خدا کے کہ اس نے مجھ گنہگار ناچیز کی توبہ کو ایسا نوازا کہ ان ہی کے سگے بھائی کے ہاتھ سے مجھ کو جتوایا۔ غیرت بیگم کو تو سوکن کے نام کی جلن تھی اس کو مکان سے تنخواہ سے کچھ بحث نہ ہی تھی۔
ہریالی کو کیسے ہی برے احوال سے رکھتے مگر جب تک غیرت بیگم یہ جانتی تھی کہ یہ میری سوکن ہے۔ کسی طرح وہ راضی ہو ہی نہیں سکتی تھی۔ لیکن بڑے بھائی نے جب ایک فیصلہ کر دیا۔ تو کیا کرتی دل میں پیچ و تاب کھا کر چپکی ہو رہی۔ مبتلا کے ساتھ بولنا۔ بات کرنا پہلے ہی سے کم تھا۔ اب بالکل چھوڑ دیا۔ غرض صحن میں پردے کی دیوار اٹھائی گئی ڈیوڑھی میں دروازہ لگا۔ ہریالی نے الگ گھر کر کے رہنا شروع کیا۔