296972فسانہء مبتلا1885ڈپٹی نذیر احمد

ناظر: کیا معلوم کہ عدالت تک پہنچتے پہنچتے گھوسن اپنے بیان پر قائم بھی رہتی ہے یا نہیں اور فرض کرو قائم رہے تو اس نے سنکھیا کا نام تک بھی نہیں لیا بلکہ میری نظر سے دیکھو تو گھوسن کا بیان ہریالی کے حق میں سم قاتل ہے۔ وہ کہتی ہے کہ خاتون نے مجھ کو دودھ کی ہنڈیا واپس کر دی۔ بہت خوب، ہریالی نے جب یہ سن لیا تھا کہ بڑے گھر سے دودھ برا سمجھ کر واپس کیا گیا تو اس نے چپ چپاتے ضرورت سے زیادہ بھری ہنڈیا رکھ کیوں لی۔

پس یہیں تو پانی مرتا ہے۔ اس سے صاف شبہ ہوتا ہے کہ ہریالی نے گھوسن سے مل کر اسی کے گھر دودھ میں سنکھیا گھلوائی اور جب خاتون دھوکے میں آئی تو دوسری چال چلی اور پھر یہ بھی سمجھ لو کہ ہریالی اور تم دو نہیں ہو، ہریالی کا کرنا عین تمہارا کرنا ہے اور ابھی خاتون کے بیان کو تو نوبت آنے دو۔

دیکھو تو وہ کیا زہراگلتی ہے۔ کوتوالی والوں کی کارروائی میں فی الواقع ہمیشہ ایک بڑا نقص یہ ہوتا ہے کہ تحقیقات سے پہلے مقدمہ کو کسی ایک پہلو پر ڈھال لے جاتے ہیں اور پھر بااصرار کے ساتھ اخیر تک اسی پہلو کی تائید میں لگے رہتے ہیں جو باتیں میں نے تم سے سرسری طور پر بیان کی ہیں۔

ان میں سے ایک کی طرف بھی کوتوال صاحب کا ذہن منتقل نہ ہوا ہو گا اور ہم لوگوں کو تو باتیں حاکم کی میز پر سوجھتی ہیں، عین وقت پر کچھ اس طرح کا بہرہ کھل جاتا ہے کہ خودبخود بات میں سے بات نکلی چلی آتی ہے۔

مبتلا کی ساری ہمت تمام ہو گئی عمر بھر مصروف رہا حسن و عشق میں۔ مدعی اور مدعا علیہ بننا درکنار اس کو کبھی گواہی دینے کا بھی اتفاق نہیں پڑا۔

بچپن کا لاڈلا، جوانی کا چھیلا وہ وکیلوں کے چھل فریب کیا سمجھے۔ ناظر نے جو الٹی سیدھی باتیں سمجھائیں چھکے ہی تو چھوٹ گئے اور سمجھا کہ بس اب نہیں بچتا۔ سنکھیا کا غصہ ہریالی کا رنج اپنی چوٹ اگلے پچھلے گلے شکوے سب کچھ بھلا بسرا ناظر کے گلے سے لپٹ گیا کہ بس اب اوپر خدا ہے اور نیچے تم۔ چاہو مارو چاہو جلاؤ چاہو اجاڑو چاہو بساؤ۔

ناظر: مقدمہ تو میری طرف آگیا اور سمجھو کہ مقدمہ کا میں بیمہ لے چکا۔

خرچ کا بندوبست تم کرو۔

مبتلا: خرچ کا بندوبست بھی تم ہی کو کرنا پڑے گا تم کو تو ہر گھر کا ذرا ذرا حال معلوم ہے۔

ناظر: کیا مضائقہ خرچ کا بھی انتظام ہو جائے گا۔ خیر آپ دو رقعے میرے نام لکھیے ایک تو کل کی تاریخ میں کہ چوہوں کی جیسی کثرت ہے تم کو معلوم ہے اب تو یہ نوبت پہنچتی ہے کہ کھونٹیوں پر لٹکے ہوئے کپڑے کاٹ کاٹ کر ٹکڑے کیے ڈالتے ہیں، ناچار تھوڑی سنکھیا منگوائی، پڑیا چھوٹے گھر کے بیچ والے دالان میں اس خیال سے کہ کسی کا ہاتھ نہ پڑے۔

اونچے پر رکھوائی تھی، یہ ذکر کوئی سات یا آٹھ دن پہلے کا ہے کل کیا اتفاق ہوا کہ شام کے وقت ایک روپے کی کھانڈ کا پڑا آیا اور جیسا دستور ہے پڑے کے ساتھ نمونے کی پڑیا۔ سنکھیا کی پڑیا تھی۔آج خود گھر والی نے اپنے ہاتھ سے فیرینی میں کھانڈ ڈالی تو انہوں نے کہا کہ پڑیا کی کھانڈ بھی کیوں ضائع ہو، پڑا اور پڑیا دونوں اتارتی لائیں مگر پڑیا سنکھیا کی باورچی خانے میں بھی دھوئیں کی وجہ سے کچھ دکھائی نہ دی اور چونکہ دل میں کسی طرح کا کھٹکا نہ تھا۔

انہوں نے دیکھا بھی نہیں۔ فیرینی پک کر تیار ہو گئی تو تھوڑی جانوروں کو دی جو گھر والی نے اپنے شوق کے لیے پال رکھے تھے اور جو دیگچی میں رہ گئی تھی ماما نے پونچھ کھائی جانور تو مر گئے ماما کو کچھ دست آئے مگر بچ گئی۔ کوتوالی کے لوگ مقدمہ کو طول دینا چاہتے ہیں تم مختار کارانہ اس کی خبرگیری کرو اور دوسرا رقعہ اب سے مہینے سوا مہینے جتنے دن پہلے کا چاہو لکھ دو کہ مجھ کو اتنے روپے کی ضرورت ہے جہاں سے بن پڑے بندوبست کر دو۔

بس اللہ اللہ خیر صلا اور چین سے پیر پھیلا کر سو رہو۔ سنکھیا کے رقعے کا مضمون سن کر تو مبتلا کی عقل دنگ رہ گئی اور سمجھا کہ ناظر بھی بڑا زہر کا بجھا ہوا ہے۔ دیکھو تو مغز سے کیا بات اتاری ہے۔ ایسے شخص سے مقابلہ کو عدالت کیسے جا سکتا ہوں۔ میرا بچاؤ تو اسی میں ہے کہ جو یہ کہے اس میں ذرا کان نہ ہلاؤں غرض اسی وقت دونوں رقعے لکھ ناظر کے ہاتھ دیئے اور پوچھا کہ بھلا صاحب اب صبح کوتوال صاحب آئیں تو کیا کرنا ہو گا؟ناظر نے کہا کہ اب بندہ درگاہ کے رہتے کوتوال صاحب کیا آتے ہیں، اب آمد ان کی برخاست اور اگر آئے بھی تو کوتوال بن کر نہیں نڈھال بدحال سراپا اضمحلال بن کر۔

مبتلا:کیوں صاحب جیسا اس کی باتوں سے معلوم ہوتا تھا اگر اس نے انگریز کو جو کوتوالی کا افسر ہے لاکھڑا کیا؟

ناظر: وہ سب بھی دیکھ لیں گے۔ باوجود یکہ ابھی جھٹ پٹا تھا ناظر فوراً سوار ہو سیدھا کوتوال کے پاس پہنچا۔ کوتوال سمجھا کہ ایسے وقت آئے ہیں تو معلوم ہوتا ہے ضرور کچھ نہ کچھ بوہنی کرائیں گے۔ دور سے ہنس کر بولا آئیے آج تو سویرے ہی سویرے اچھے سخی کے درشن ہوئے ہیں میں تو آپ کے یہاں آنے کو وردی پہن کر تیار لیس بیٹھا ہوں۔

صاحب سپرنٹنڈنٹ سے سات بجے کا وعدہ ہے۔

ناظر: کیا تیار بیٹھے ہو وہاں تو رات بڑا غضب ہو گیا۔

کوتوال: کیا کوئی اور صاحب سنکھیا کھا کر شہید ہوئے۔

ناظر: نہیں سنکھیا نہیں مگر آپ تو جانتے ہیں مبتلا بھائی کے گھر میں جو وہ دوسری عورت ہے پورے دنوں سے تھی کل نہیں معلوم آپ کے سپاہیوں نے اس کو کیا کیا ڈرایا دھمکایا طبیعت تو اس کی آپ کے رہتے ہی بگڑ چلی تھی، آپ ادھر آئے شاید کوتوالی بھی نہ پہنچ سکے ہوں گے کہ اس کا حمل ساقط ہو گیا۔

ساری رات اسی کے تردد میں پلک نہ جھپکی خیرحمل تو حمل اب اسی کی جان کے لالے پڑے ہیں۔ دیکھئے وہ بھی بچتی ہے یا نہیں۔ مبتلا بھائی کو اس عورت کے ساتھ اس درجہ کا تعشق ہے کہ جس وقت سے یہ واردات ہوئی ہے۔ سارے گھر میں بولائے بولائے پڑے پھر رہے ہیں۔ وہ تو ڈاکٹر چنبیلی کو بلاتے تھے۔ میں نے بہ ہزار مشکل روکا کہ دوسرے کے کان پڑی ہوئی بات پھر اپنے قابو کی نہیں رہتی۔

ایک چھوڑ دو دو دائیاں بلوا دی ہیں بارے اب کہیں جا کر کسی قدر طبیعت سنبھلی تو میں آپ کے پاس بھاگا ہوا آیا میں تو رقعہ لکھنے کو تھا پھر خیال آیا کہ خدا جانے کس کے ہاتھ پڑے۔ آپ چل کر کہنا چاہیے یہ سننا تھا کہ کوتوال کو کاٹو تو بدن میں لہو کی بوند نہیں۔ گڑگڑا کر بولا: آپ کے یہاں ہم تابعداروں کی مجال ہے کہ ڈرائیں دھمکائیں یا کوئی خلاف قاعدہ کارروائی کریں۔ آپ جس وقت تشریف لائے ہیں۔ آپ نے بھی دیکھا ہو گا کہ مردانے میں صرف دو ہی کانسٹیبل میرے ساتھ تھے اور وہ دونوں بے چارے الگ اصطبل کے پاس کھڑے تھے۔ میں نے آپ کے آدمی وفادار کے ہاتھ ماماؤں اور لونڈیوں کو بلا بلا کر ہولے سے دو دو باتیں پوچھ لیں۔