296973فسانہء مبتلا1885ڈپٹی نذیر احمد

اصل حقیقت تو یہ ہے کہ اور ہم نے تو جس دن پولیس میں نام لکھوایا۔ اسی دن سمجھ لیا تھا کہ ایک نہ ایک دن ضرور قید ہوں گے۔ یہ ایسی تیسی نوکری ہی اس قسم کی ہے کہ کوئلوں کی دکانداری کی بے کالا منہ ہوئے نہیں رہتا۔ بڑوں کا کہا اور آنولے کا کھایا پیچھے مزہ دیتا ہے۔ لالہ جی بہتیرا سر پٹکتے رہے کہ ہم کو سپاہیوں کا بھیس سزا وار نہیں۔ اس وقت ان کی بات کچھ دھیان میں نہ آئی سو اپنے کیے کی سزا پائی۔

ناظر: یہ میں خوب جانتا ہوں کہ آپ نے بے جا کارروائی نہیں کی ہو گی۔ آدمی کا حال پوچھا نہیں رہتا۔ سارا شہر آپ کا مداح ہے اور اگر آپ احتیاط نہ کرتے تو کوتوالی کا چلنا بھی محال تھا خصوصاً صاحب مجسٹریٹ حال کے وقت میں مگر عورتیں تو جیسی ڈرپوک اور کچے دل کی ہوتی ہیں آپ خوب جانتے ہیں آپ کا ہی آنا سن کر ان کے تو ہاتھ پاؤں پھول گئے ہوں گے اور پھر کسی سپاہی نے کوئی ایک آدھ بات بھی کہہ دی ہو گی۔

حالت تو نازک تھی ہی اونگھتے کو ٹھیلتے کا بہانہ ہو گیا۔ چھوٹے گھر میں تو خیر ایک واردات بھی ہوئی تھی کہ جانور مرے، ماما کو دست آئے۔ فرینی میں سنکھیا نکلی۔ بڑا گھر جس کو واردات سے کچھ بھی تعلق نہیں، وہاں کیا حال تھا۔ جاکر دیکھتا ہوں تو چولہا تک نہیں سلگا۔ وہ تو جب میں نے سمجھایا کہ یہ کیا اس سے بڑی بڑی اتفاقی اور ناگہانی وارداتیں ہو جاتی ہیں اور آخر کار مقدمہ داخل دفتر، تب سب کو تسلی ہوئی:

کوتوال: اتفاقی کیسی؟ تب ناظر نے مبتلا کا رقعہ دیا کہ وہ خونی دروازے میں جو ایک شخص نے اپنی آشنا کو دھتورا کھلا کر مار ڈالا تھا اور شاید آپ ہی نے اس مقدمہ کی بھی تحقیقات کی تھی کل اس کی پیشی تھی اور میں مدعاعلیہ کا وکیل تھا۔

آپ کے اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ بھی سرکار کی طرف سے پیروی کے لیے موجو د تھے۔ بڑے بڑے مباحثے رہے۔ آخر ساڑھے چار بجتے بجتے مدعاعلیہ کی رہائی ہوئی تو یہ رقعہ مجھ کو عین اجلاس پر ملا تھا اور اسی کو دیکھ کر میں کچہری سے سیدھا وہیں چلا گیا۔ کوتوال نے رقعہ پڑھا تو مقدمہ کی طرف سے بھی اس کی آس ٹوٹ گئی۔ کمر سے کرچ کھول ناظر کے پیروں میں رکھ دی کہ نوکری تو یہ حاضر ہے۔

خدا واسطے کو ایک اتنا سلوک کیجیے کہ عزت پر ہاتھ نہ ڈالیے۔ ناظر نے بہت تسلی کی کہ بھلا اتنا تو سمجھے کہ اگر میرے دل میں کچھ فساد ہوتا تو میں اس سویرے اندھیرے منہ آپ کے پاس دوڑا ہوا کیوں آتا۔ خیر جو کچھ ہونا تھا سو ہوا۔ میں جس طرح بن پڑے گا۔ مبتلا بھائی کو سمجھا لوں گا۔ جب سے انہوں نے دوسری عورت کر لی ہے ذرا تنگ دست رہتے ہیں۔ یہیں کہ دوا درمن کا خرچ اور اوپر سے سو دو سو روپیہ اور ان کو دے دیا جائے گا اور ہاں سنکھیا کے مقدمے میں آپ کو کچھ زیادہ چھیڑ چھاڑ نہ کیجیے گا اس میں کچھ ہونا ہوا نا بھی نہیں۔

ناظر چلنے لگا تو کوتوال نے کہا پھر اس کرچ کو تو آپ اپنے ہاتھ سے باندھ دیں گے تو میں کمر سے لگا لوں گا ورنہ جہاں پڑی ہے پڑی رہے گی۔

ناظر نے جلدی سے کرچ اٹھا بسم اللہ کر کے کوتوال کی کمر سے باندھی گویا اپنی طرف سے کوتوالی دی۔ کوتوال نے کہا: بس اب ہاتھ پکڑنے کی لاج آپ کو کرنی ہو گی۔ صاحب سپرنٹنڈنٹ کو وہاں ایک اور ضرورت پیش آگئی کہ کسی انگریز کے یہاں سوڈا واٹر کی ایک دو بھی نہیں، اکٹھی آدھی درجن بوتلیں چوری ہو گئیں۔

صاحب نے چٹھی لکھی اور سپرنٹنڈنٹ صاحب اس کی تحقیقات کو بھاگ گئے۔ کوتوال سے کہلا بھیجا کہ ہمارا آنا نہیں ہو سکتا پھر کوئی پندرہ بیس دن بعد خود سپرنٹنڈنٹ صاحب ہی کو خیال آیا تو پوچھا کیوں کوتوال صاحب وہ کسی وکیل صاحب کے یہاں کی زہرخورانی کا آپ نے تذکرہ کیا تھا اس کا کیا ہوا۔ کوتوال نے کہا حضور فدوی نے تو اگلے ہی دن 3022 نمبر کا روزنامچہ خاص بھیج دیا تھا کہ واردات اتفاقی ہے۔

بات رفت و گزشت ہوئی۔ دوچار دن تو مبتلا کو کھٹکا رہا پھر اس نے دیکھا کہ کوتوالی والوں میں سے کسی نے آکر بھی نہ جھانکا تو اس کو یقین ہوا کہ ناظر کو حکام کے مزاج میں کچھ اس طرح کا دخل ہے کہ آج جو چاہے سو کر گزرے، ناظر نے اس مقدمے میں اچھا ہاتھ مارا۔ ہزار روپے تو چپکے سے اس نے وہ اگلوائے جو خاتون کٹنی غیرت بیگم بہکا پھسلا کر لے اڑی تھی اور رقعے کے بدلے مبتلا سے اس کے حصے کی دکانوں کا قطعی بیع نامہ اپنے نام لکھوا لیا اور پھر سب میں سرخرو۔

اب بے چارے مبتلا کے پاس پینسٹھ روپے ماہوار کی جگہ صرف ستائیس روپے مہینے کی نری تنخواہیں رہ گئیں۔ وہ کس طرح کی کہ کوئی چھٹے مہینے آدھی پاؤ وصول ہوئی تو کوئی برس بعد اور کوئی مار میں بھی آگئی اور غیرت بیگم کی یہ تاکید کہ بھلا کوئی ایک لوٹا پانی تو اس کے گھر میں سے مبتلا کو دے کر دیکھے۔ غیرت بیگم کے یہاں پہلے ہی مبتلا کی کون سی قدر کی جاتی تھی، اب جس دن سے یہ معاملے مقدمے کھڑے ہوئے۔

رہا سہا اور بھی نظروں سے گر گیا۔ پہلے بے رخی تھی، رفتہ رفتہ بدمزاجی ہوئی۔ بدمزاجی سے بددماغی کی نوبت پہنچ گئی بلکہ طرز مدارات سے ایسا معلوم ہونے لگا کہ سید حاضر نے جو ایک دن بیچ کے آنے کا معمول باندھ دیا تھا۔ اب مبتلا کا اتنا آنا بھی گوارا نہیں، غیرت بیگم کو مبتلا سے بات چیت کیے ہوئے برسوں گزر گئے تھے لونڈیاں مامائیں میاں کا اتنا لحاظ کرتی تھیں کہ باری کے دن بچھونا صاف کر دیا۔

جب تک گھر میں بیٹھے حقے کی خبر رکھی۔ کھانے کو پوچھ لیا اور اب مقدموں کے بعد سے تو ان باتوں میں بھی مضائقہ ہونے لگا۔ مبتلا لاکھ گیا گزرا تھا مگر آخر تھا تو صاحب خانہ، یہ بے توقیری دیکھ کر وہ بڑے گھر کی باری کو تپ ولرزہ کی باری سے کم نہیں سمجھتا تھا مگر حاضر ناظر سے اس قدر ڈرتا تھا جیسا مردہ نکیرین سے۔ ناخواستہ دل آتا اور برخاستہ خاطر رہتا۔

ایسی ایسی سنگین وارداتیں گھر میں ہو جائیں اور کسی کی نکسیر تک نہ پھوٹے، غیرت بیگم اور بھی بے محابا ہو کر لگی بادل کی طرح گرجنے اور بجلی کی طرح کڑکنے۔ سقہ اور دھوبی اور حلال خور وغیرہ جتنے اہل خدمت تھے۔ ان تک کی بندی ہو گئی کہ چھوٹے گھر کا کام نہ کرنے پائیں۔ ناچار گلی کی طرف کا قدیم دروازہ جو مدتوں سے بند تھا تیغا توڑ کر کھولا تب کام چلا۔