296974فسانہء مبتلا1885ڈپٹی نذیر احمد

چوبیسواں باب: مبتلا اور ہریالی کا بگاڑ

جب تک باتوں کا زبانی جمع و خرچ رہا کہ غیرت بیگم نے اپنے گھر میں کوس کاٹ لیا اور ہریالی نے اپنی جگہ پکار پکار کر نہیں تو چپکے سے جو کچھ منہ میں آیا کہہ دیا، تب تک اگر سچ پوچھو تو ہریالی کی جیت تھی کیونکہ مبتلا اس کے پلے پر تھا اور آمدنی کے حساب سے دونوں گھر برابربرابر ،اب جو پینسٹھ کے رہ گئے ستائیس تو اس کا ایمان ڈگمگا چلا اور مبتلا سے کہا۔

ادھر اکیلے گھر میں ساٹھ دوا ادھر مردانہ زنانہ دو گھروں میں پینسٹھ نگوڑا پانچ روپے کا بل خدا جانے میں کیا کتربیونت کرتی تھی کہ خیرگزر ہوتی چلی۔ تم اپنے ہاتھ میں خرچ رکھتے ہوتے تو حقیقت کھلتی اور میں تمہارے بڑے گھر میں جاتی نہیں تو آخر سنتی تو ہوں کہ آدمیوں کو ابالی دال ملتی ہے اور وہ بھی ایک وقت بچوں کا سودا سلف تو درکنار، کبھی آدھی کے چنے لے کر دینے نصیب نہیں ہوئے۔

اب تم نے پینسٹھ کے ستائیس کرائے ہیں تو تم ہی خرچ کا انتظام بھی کرو میں کوئی اپنی بوٹیاں کاٹ کاٹ تو کھلانے سے رہی۔

مبتلا: پینسٹھ کے ستائیس میں نے کرائے ہیں۔

ہریالی: جانے بلا تم نے کرائے ہیں یا انہوں نے جو تمہارے کچھ لگتے ہیں۔

مبتلا: تم ہی نے فیرینی پکا کر بیٹھے بٹھائے سارا فساد برپا کیا اور الٹا مجھ کو الزام دیتی۔

ہریالی: مجھے کیا خبر تھی کہ دشمنوں نے دودھ میں سنکھیا گھول کر میری جان کے لینے کا سامان کیا ہے۔

مبتلا: اسی کا تو پتہ نہ چل سکا کہ کس نے دودھ میں سنکھیا گھولی۔

ہریالی: تم نے یہ کالک تھپوائی تو تھپی۔

مبتلا: ایک نہ شود دو شود۔ مہینہ میں نے کم کرایا۔ سنکھیا کا الزام میں نے تم پر لگایا۔ میں ہی براہوں تو خدا برے کو موت دے۔

ہریالی: خدا نہ کرے تم کیوں بُرے ہونے لگے۔ بُری میں کہ تمہارے کارن گھر چھوڑا آرام چھوڑا اس کا یہ انعام ملا کہ تمہارے یہاں آکر کوسنے سنے گالیاں کھائیں اور بے عزتی کا کوئی درجہ باقی نہ رہا۔

دو دفعہ جان کا زیاں اٹھایا۔

مبتلا: تم کو معلوم تھا کہ میرے بیوی بچے ہیں تو پھر نہ آئی ہوتیں۔ کیا کسی نے زبردستی کی۔ اب تمہارا جی چاہے تو اب چلی جاؤ۔ تم سے کسی نے کچھ چھین تو نہیں لیا۔

ہریالی: ہاں ہاں میں کیا کرتی ہوں میں تمہاری بی بی کو جانتی تھی اور بچوں کا ہونا بھی معلوم تھا مگر مجھے خبر نہیں تھی کہ تم اس طرح کے حیز ہو کہ ناظر کی صورت دیکھنے سے تمہارے ہوش باختہ ہوتے ہیں اور میں اگر جاؤں گی اور جاؤں گی نہیں تو کیا مفت میں اپنی جان گنواؤں گی تو ناظر کو جو وکالت کے گھمنڈ میں بہت اکڑا ہوا پڑا پھرتا ہے اور اس مکار حاضر کو جو ہر مرتبہ بڑا مولوی بن کر وعظ کہنے کو آبیٹھتا ہے اور تیری بھینا کوتوال کی جو روکو اور اس موئے کوتوال کو جس نے رشوتیں لے لے کر خون کے مقدموں کو ملیامیٹ کیا اور سب کے ساتھ تجھ کو دنیا جہان میں بے نقاب کر کے جاؤں گی۔

میرا جانا کیا ایسا ہنسی ٹھٹھا ہے۔ میں نے تیرے پیچھے اپنے تئیں خاک میں ملا دیا اور آج تو نے اس کا یہ پھل دیا۔ لے اب دیکھ میرا تماشا۔ تیرا تو کیا منہ ہے مگر بلا اپنے حمایتیوں کو کہ مجھے جاتی کو روکیں یہ کہہ کر ہریالی کھڑی ہو سیدھی دروازے کی طرف چلی۔ بارے مبتلا نے ساری عمر میں ایک یہ بہادری تو کی کہ اس کو کوٹھڑی میں دھکیل جھٹ اوپر سے کنڈی لگا دی۔

مبتلا تو ہریالی کو کوٹھڑی میں بند کر کے باہر چلا گیا۔ ہریالی کے پاس جو پرانی ماما تھی۔ ایک طرح کی اس کی کٹنی۔ اس نے ہریالی کو سمجھایا کہ بی بی مرد کا مزاج دیکھ کر بات کی جاتی ہے۔ اس کم بخت پر تو آپ ہی مصیبتیں پڑی ٹوٹ رہی ہیں تم اور چلیں گھاؤ میں اوپر سے مرچیں لگانے۔ تھوڑے دن صبر کیا ہوتا وہ اپنے تئیں بیچتا، چوری کرتا کہیں نہ کہیں سے تمہارا بھرنا بھرتا اور اگر تمہاری مرضی جانے کو ہو گی تو اس کی سو راہیں ہیں۔

ڈھنڈورا پیٹنا اور ڈھول بجانا کیا ضرور ہے۔ ادھر پان کے بہانے مبتلا کے پاس گئی اور اس سے کہا: میاں بُرا کہو فضیحتی کرو سب تم کو پہنچتا ہے۔ پر منہ بھر کر یہ کہہ بیٹھنا کہ چلی جا۔ تم ہی انصاف کرو، بڑی سخت بات ہے، خیر غصہ حرام ہوتا ہے۔ میاں بی بی کی لڑائی کیا اور میاں بی بی بھی تم جیسے کہ وہ تمہاری عاشق زار اور تم اس پر دل و جان سے نثار۔ اٹھو گھر میں چلو۔ بیوی کی بھی روتے روتے ہچکی بندھ گئی تھی اب میں نے اٹھا کر زبردستی پانی پلایا ہے۔