فضائے عالم قدسی میں ہے نشو و نما میری
فضائے عالم قدسی میں ہے نشو و نما میری
مکافات عمل سے دور ہے بیم و رجا میری
شریعت ہے ازل سے مہر پیمان وفا میری
طریقت خاتم احرام تسلیم و رضا میری
حقیقت ہے سواد خاطر بے مدعا میری
حریم معرفت دع ما کدر خود نا صفا میری
تری ذات مقدس ہے مبرا شرک غیری سے
کہ نور ذات میں سایہ صفت ہستی ہے لا میری
جمال لا یزالی شش جہت سے رونما دیکھا
بنی آئینہ دار حسن چشم حق نما میری
کسی کا حسن طور افروز محو لن ترانی ہے
دلیل نیستی ہے ہستی عشق و فنا میری
شہود حق ہے ما بین غیوب اک جلوۂ قدرت
حیات جاوداں ہے ابتدا اور انتہا میری
ازل سے محو دیدار جمال جلوہ آرا ہوں
نظر با لغیر ہو گر ہو نظر میں ماسوا میری
حدیث عشق بالاتر ہے حرف و صوت سے ساحرؔ
کہاں میں اور کہاں تقدیر فکر نارسا میری
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |