فقط شور دل پر آرزو تھا

فقط شور دل پر آرزو تھا
by شاد عظیم آبادی
317694فقط شور دل پر آرزو تھاشاد عظیم آبادی

فقط شور دل پر آرزو تھا
نہ اپنے جسم میں ہم تھے نہ تو تھا

ہر اک کے پاؤں پر جھکتے کٹی عمر
نہ سمجھے ہم کہ کس قالب میں تو تھا

جہاں پہنچے اسی کا نور پایا
جدھر دیکھا وہی خورشید رو تھا

جگہ دامن میں اپنے کیوں نہ دیتے
کہ طفل اشک اپنا ہی لہو تھا

کہوں کیا دل کی میں نازک مزاجی
خدا بخشے نہایت تند خو تھا

میں کیفیت کہوں کیا بزم مے کی
کہ مینا ہاتھ میں آنکھوں میں تو تھا

غش آیا اس نے تولی تیغ جب جب
عجب ہلکا ہمارا بھی لہو تھا

بہت ڈھونڈا کہیں پایا نہ ہم نے
بتا دے یہ کہ کس گوشے میں تو تھا

بچا قاتل کا دامن للہ الحمد
بہت کھولا ہوا اپنا لہو تھا

عدو تھے ساقیا سب مے کدے میں
یہی اک آس تھی پلے پہ تو تھا

لباس کہنہ جب تھا اپنا صدچاک
تو پھر بے کار پیوند و رفو تھا

غضب میں آ کے تجھ کو توڑتا شیخ
نتیجہ بحث کا کیا اے سبو تھا

تری تصویر تھے ہم بھی کسی وقت
یہی نقشا ہمارا ہو بہو تھا

نظر میں ہیچ تھا کونین ساقی
لبالب جام تھا ہم تھے سبو تھا

سزا لغزش کی پاتے بزم میں ہم
خدا کو خیر کرنا تھا کہ تو تھا

ہم اپنے ہوش میں باقی تھے ہر طرح
مگر جب تو ہمارے روبرو تھا

تجھی سے منہ پھلا لیتے عجب کیا
صبا غنچوں کا بھی آخر نمو تھا

چلے ہم باغ سے اے شادؔ کس وقت
بہار آنے کو تھی گل کا نمو تھا


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.